بیویوں سے ڈرتے ہو؟


چند سال پہلے سامنے آنے والی ایک نیم سائنسی تحقیق کے مطابق ہر بالغ صحت مند مرد اوسطاً ہر سات سیکنڈ کے بعد جنس یعنی سیکس کے بارے میں سوچتا ہے۔ پاکستان کی اِسلامی نظریاتی کونسل کے روحِ رواں مولانا محمد خان شیرانی نے اِس تحقیق کو اپنی جرات ایمانی سے غلط ثابت کرنے کی ٹھانی ہے۔ اُن کا خیال ہے مرد باقی چھ سکینڈ بھی کسی اور کام میں کیوں ضائع کرے۔ اِس لیے مولانا شیرانی اور اُن کی نظریاتی کونسل کا زیادہ تر وقت جنسیات اور عورت ذات کے بارے میں غور و فکر کرتے گزرتا ہے۔

پنجابی میں اگر کسی بزرگ کی منت کرنی ہو تو کہتے ہیں میں آپ کی داڑھی کو ہاتھ لگاتا ہوں جانیں دیں۔ ایسے مت کریں لوگ کیا کہیں گے اپنا نہیں تو اپنی بزرگی کا ہی خیال کر لیں۔ لیکن مولانا شیرانی کی ریشِ مبارک اتنی ریشمی اور نورانی لگتی ہے کہ ڈر لگتا ہے کہ گناہ گار کا ہاتھ لگنے سے میلی نہ ہو جائے۔ ویسے اُن کے جُبے کی ہیبت بھی اپنی جگہ ہے۔

صرف مولانا شیرانی کی ہی بات نہیں سائنسی طریقے سے ہر سات سیکنڈ کے بعد سوچنے والے مرد حضرات بھی اِس فکر میں غلطاں پائے جاتے ہیں کہ بیوی کو کیسے قابو کیا جائے۔ یہاں پر اُن کا ذِکر مقصود نہیں ہے جو ہلکی پھلکی پٹائی سے، یا کلہاڑی کے وار سے یا تیزاب کی بوتل سے یا بندوق کی گولی سے بیوی پر اپنی اجارہ داری ثابت کرتے ہیں میرا نہیں خیال کہ ایسا کرنے سے پہلے وہ تعزیرات پاکستان کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یا مولانا شیرانی کے فتوے کا اِنتظار کرتے ہیں۔

میں تو اُن کمزور دِل، نیم مذہبی، نیم تہذیب یافتہ میانہ روی اِختیار کرنے والے مرد حضرات کی بات کر رہا ہوں جو ویسے تو شاید کاکروچ پر چپل اُٹھاتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں لیکن اپنی بیوی کو قابو کرنا اُن کا بھی اولین مسئلہ رہتا ہے۔ اُن میں شاعر بھی شامل ہیں اور سبزیوں کے آڑھتی بھی۔ دکانوں میں، گلیوں کی نکڑوں پر، ریڈیو کے ڈرائیو ٹائم پروگراموں میں، ناؤ نوش کے ٹھکانوں پر، میلاد کی محفلوں میں، گالف کورسز میں، ولیمے کی دعوتوں میں جہاں بھی کچھ شادی شدہ مرد مل بیٹھیں گے تو مارشل لا کب آ رہا ہے کہ بعد اگلی گفتگو ہمیشہ اِس طرح شروع ہو گی کہ یار جو میری بیوی ہے نا۔ ۔ ۔

یہ باتیں آپ نے نو بیاہتا نوجوانوں سے لے کر قریب المرگ بزرگوں تک سے سُنی ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ ُیار جو میری بیوی ہے نا۔ ‘، شادی شدہ مردوں کے لیے ایک مستقل مصرع طرح ہے جس پر وہ اپنے خوف اور خواہشات کے مضامین باندھتے رہتے ہیں۔

ایک تبلیغی دوست چلّے پر جا رہا تھے پوچھا پیچھےگھر پر خیریت رہے گی بولے جب کبھی کہتا تھا کہ دیر سے گھر آؤں گا تو بیوی کا مُنہ بن جاتا تھا۔ اب چالیس دن کے لیے جا رہا ہوں کچھ کہہ کر تو دِکھائے۔ اللہ کے کام سے کیسے روکے گی۔

بیوی کو قابو کرنے کی جدوجہد کی وجوہات تاریخی، نفسیاتی اور سماجی تو ہوں گی لیکن اُن کی ایک سیدھی سی وجہ یہ بھی ہے کہ گھر والی جانتی ہے کہ یہ جو باہر جان محفل بنا پھرتا ہے، جو بورڈ روم کا بادشاہ ہے جس کے آگے پیچھے بندوقوں والے محافظ گھومتے ہیں جو اپنے آپ کو موالیوں کا پیر کہلاتا ہے، یہ جس کو اُٹھ کر سلام کرتے ہیں جس کے جُبے کی ہیبت سب پر طاری ہے۔ اِس کی اصل حقیقت کیا ہے۔ اِس جُبے کے پیچھے کیا چھپانے کی کوشش ہو رہی ہے۔

اگر کوئی مرد کا بچہ مولانا شیرانی کے نورانی سحر سے آزاد ہو کر ریش مبارک کو چھو سکے تو اُنھیں وہی کہہ دے جو اُردو اور سندھی کے معروف شاعر اور سینئر کالم نگار حسن مجتبی نے ن۔ م راشد کی طرز میں اُس وقت کہا تھا جب بیویوں کی غیبت کی محفل عروج پر تھی۔
بیویوں سے ڈرتے ہو بیویاں تو تم بھی ہو بیویاں تو ہم بھی ہیں
31 مئی 2016


اسی بارے میں

بیوی نے سوئے ہوئے شوہر کے فنگر پرنٹ سے فون کھول کر بے وفائی پکڑ لی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).