پاکستان کی خارجہ پالیسی کے سعودی شہزادوں پر گرم اثرات


آپ سب نہایت حیرت، تشویش اور تعجب سے سعودی شہزادوں کے کرپشن کے معاملے میں گرفتار ہونے کا قصہ سن رہے ہوں گے۔ ہر ذی شعور پاکستانی ان معاملات پر پریشان ہے۔ خدانخواستہ سعودی سالمیت خطرے میں پڑی تو ہمیں تیل ادھار لینے کے لئے سنہ ستر کی دہائی کی طرح ایران کے پاس جانا پڑ جائے گا، جس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمیں اپنی مبینہ سٹریٹیجک ڈیپتھ سے دستبردار ہو کر اپنے مبینہ افغان مفتوحات ایران کو دینے پڑیں گے۔

عام طور پر یہ بات نہایت حیرت سے دیکھی جا رہی ہے کہ سو سال تک امن سکون سے رہنے والا سعودی خاندان اچانک ایسے سنگین مسائل کا شکار کیوں ہو گیا؟ جنت مکانی شاہ عبدالعزیز بن سعود کے بیٹے جب تک تخت کی لائن میں رہے تو وہ امن سکون سے مل جل کر حکومت کرتے رہے۔ بس ایک واقعہ ہوا تھا جب شاہ سعود بن عبدالعزیز کو برطرف کر کے شہزادہ فیصل کو بادشاہ بنایا گیا تھا۔ ایک اور بھی یاد پڑتا ہے جب شاہ فیصل کو شہید کر دیا گیا تھا۔ باقی تینوں بادشاہوں کو تو باقی بھائی اپنے والد کی جگہ سمجھتے تھے۔ لیکن اب جب سے شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز کو ولی عہدی سے ہٹایا گیا ہے، سعودی شاہی خاندان میں اختلافات بہت شدید ہو گئے ہیں۔

بہرحال شہزادہ مقرن کے ولی عہدی سے ہٹائے جانے کی وجہ تو ہمیں سمجھ آتی ہے۔ نواز شریف صاحب کو جب جنرل مشرف نے جلاوطن کیا تھا تو وہ مسلسل سات برس تک حرم پاک میں عبادت میں مصروف رہے تھے۔ پھر جب وہ پاکستان پلٹے تو انہیں پکڑنے کے لئے شہزادہ مقرن ہی آئے تھے۔ نواز شریف کی آہ لگی ہے انہیں۔ صبر پڑا ہے ان پر۔

اور یہی بات ہمیں اب موجودہ ولی عہد کے معاملے میں بھی دکھائی دے رہی ہے۔ جب شہزادہ محمد بن سلمان نے ولی عہد مقرر ہوتے ہی یمن کی جنگ چھیڑی تو نواز شریف سے فوجی دستوں کا مطالبہ کیا۔ نواز شریف نے اپنی مجبوریاں گنوائیں مگر امارات کی طرف سے تو کھلی دھمکی ملی اور سعودی عرب کی طرف سے ڈھکی چھپی۔ کہتے ہیں کہ پاناما کے کاغذ بھی براستہ جدہ ہی پاکستان تک پہنچے تھے۔ نواز شریف کی آہ لگی ہے انہیں۔ صبر پڑا ہے ان پر۔ اللہ کے نیک بندوں کو تنگ کرنا بھاری پڑتا ہے۔ ہنوز دلی دور است والا قصہ یاد آ گیا۔ اس وقت بھی ایک جابر بادشاہ ایک درویش کو تنگ کرنے کی بنا پر تخت کھو بیٹھا تھا۔

بہرحال یہ تو تھی روحانی وجہ۔ دوسری وجہ ہماری خارجہ پالیسی ہے۔ پہلے ہی ہمارے تمام ہمسائے ہماری خارجہ پالیسی کو فساد کا باعث قرار دیتے تھے، اب برادر عرب ملک بھی اس کی زد میں آ گئے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جب تلور کو خطرے میں جان کر اس کے شکار پر پابندی لگائی گئی تھی تو حکومت پاکستان نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ تلور پاکستان کی خارجہ پالیسی کا کلیدی عنصر ہے۔ اسی کی وجہ سے عرب ممالک ہمارے اتنے قریبی دوست ہیں۔

حکیم کہتے ہیں کہ تلور کے گوشت کی تاثیر نہایت گرم ہوتی ہے۔ کھاتے ہی بدن میں حرارت اور دل میں جوش پیدا ہو جاتا ہے۔ ستر سال کا پیر اسے کھاتے ہی ستائیس سال کا جوان بن جاتا ہے۔ عرب شہزادے بھی اسے کھوئی ہوئی جوانی پانے کی خاطر استعمال کرتے ہیں۔ اب جو یہ شہزادے آپس میں لڑ پڑے ہیں تو اس کی وجہ تلور کے گوشت کا زیادہ استعمال بھی ہو سکتا ہے۔ جب دل جوان ہو، بدن میں طاقت ہو، تو بندہ کہاں کسی کو خاطر میں لاتا ہے، سامنے رستم بھی ہو تو بھڑ جاتا ہے۔

ہماری مانیں تو سعودی بحران کا حل اب کچھ یوں ممکن ہے کہ نواز شریف صاحب کے خلاف تمام کیس واپس لے کر ان کو دھنیے اور گوند کتیرے سے لدے ہوئے جہاز میں جدہ بھیج دیا جائے۔ وہ شہزادوں کو دعائیں دیں گے تاکہ ان کے مصائب دور ہوں اور دھنیا اور گوند کتیرا پلائیں گے تاکہ ان کی گرمی بھی دور ہو۔

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar