اِک چادر چاہیے، ننگے سر، ننگے بدن عوام کے سر پر بھی


وطنِ عزیز کی ریاست یا سیاست کو دیکھ دیکھ کر اب دل خراب ہوا جاتا ہے۔ جیسے ماں کے مرنے کے بعد ابا نے دوسری شادی کرلی ہو اور اب قابلِ احترام مگر دبنگ ابا جی اور سوتیلی ماں کے بیچ کھڑے عوام ان بچوں کی طرح ہیں جو اب گھر کے جھگڑے میں کسی کو بھی دکھتے نہیں۔ وہ کس کی ٹانگوں سے جا لپٹیں؟ نہ اباجی ان کے اور نہ ماں ان کی۔ دونوں کا جھگڑا اس بات پر ہے کہ کس نے زیادہ پیسے خرچ کیے؟ کس نے گھر کا سامان بیچا؟ کس نے قرضے کا بوجھ بڑھایا؟ کون بے وفا ہے اور کون گھر کا دشمن؟ کس نے کتنی قربانی دی اور کس نے قربانی کی کھال بیچ کھائی؟
پڑوسی دیواروں سے گردنیں اٹھائے جھانک رہے ہیں اور اس بکھرے گھر کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔

بچے یتیموں کی طرح سر جھاڑ منہ پھاڑ، ہونق بنے کھڑے ہیں۔ کبھی اماں کو اور کبھی ابا جی کو بے بسی سے دیکھ رہے ہیں۔
بچے اسکول جاتے ہیں یا نہیں، اس کی فکر کسی کو نہیں۔ بچوں کے لیے کھانے کو کچھ ہے کہ نہیں، یہ کسی کا دردِ سر نہیں۔ کتنی بیماریاں ان بچوں کے جسموں میں سرایت کیے ہوئے ہیں اور دوا دارو کا بندوبست ہے کہ نہیں، کسی کی بلا سے۔

پھٹے میلے کپڑے، گندے پانیوں کے جوہڑ میں اترے ہوئے، لاغر، ہیپاٹائٹس اور ڈینگی کا شکار۔
بیٹیاں ننگی کرکے بازاروں میں گھمائی جائیں تو کیا! بیٹے ٹھوکروں میں کچلے جائیں تو گئے بھاڑ میں۔
اس یتیم اور رُل چکے بچوں جیسے عوام کے کے سامنے سوتیلی ماں اور دبنگ اماں اور ابا کا جھگڑا جاری ہے۔

کس نے کتنا کھایا، یہ سوال اپنی جگہ مگر قسم لے لی جائے کہ عوام نے کچھ بھی نہیں کھایا۔ نہ ریاست کی حکومت میں اور نہ سیاست کی حکومت میں۔ جہاں روزِ اول سے تھے وہیں کے وہیں ہیں۔
یہ اربوں کھربوں کا حساب عوام کی سمجھ سے بالا تر ہے۔ جن کی زندگی کے کل خرچ کا حساب دس انگلیوں کی گنتی سے بھی کم پڑ جاتا ہو، انہیں بخدا نہیں معلوم کہ ارب کیا ہے اور کھرب کیا ہے۔
یہ صرف عرب کو پہچانتے ہیں اور وہ بھی صرف ایک ہی عرب کو، جس نے ریاست اور سیاست کو متنبہ کر رکھا ہے کہ ریاست کا مال عوام کے لیے ہے، اس میں سے اگر تم نے مقررہ ضرورت سے زیادہ لیا تو اس کی بڑی سخت پکڑ ہے۔

عوام بیچارے کو یقین ہے کہ جس عرب کا میں امتی ہوں اسی عرب پر اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ریاستی و سیاسی حکمران بھی ایمان رکھتے ہیں، اس لیے یقیناً یہ ارب و کھرب حلال رزق کا ہی معاملہ ہوگا!

یہ نہیں جانتے کہ پناما اور پیراڈائز اور اقامہ کن بلاؤں کا نام ہے!
ہاں مگر جو انہیں دکھتا ہے وہ ہے ریاست و سیاست کا جاہ و جلال، شاہانہ لائف اسٹائل، چمچماتی بڑی بڑی گاڑیوں کے قافلے، جاتی امرا، بنی گالہ، بلاول ہاؤسز، کینٹونمنٹ ایریاز کی اونچی فصیلیں اور ان کے گرد کھنچی کانٹوں بھری باڑھ اور ان کے اندر سجی سہولت بھری زندگی، ہیلی کاپٹروں کی اڑان، گاڑیوں کی اونچی ناک پر پھڑپھڑاتے جھنڈے اور بندوق بردار باوردی محافظ اور ہٹو ہٹو میلے کچیلے بچو کا اعلان کرتی سائرن کی پوں پاں۔
تقریباً 21 کروڑ کی آبادی میں کتنے فیصد لوگ ہیں جو اربوں کھربوں کے اس معاملے کو سمجھتے ہیں؟

جو بچی ڈیرہ اسماعیل خان کی گلیوں میں ننگی گھمائی گئی وہ عمران خان سے پوچھتی ہے کہ قینچی سے کاٹے گئے میرے لباس کے لیے آپ کا فیوچر پلان کیا ہے کپتان صاحب؟ میرے ننگے جسم کے سرکس کا کرپشن سے کوئی تعلق نہیں۔ جتنا آپ چیخ چیخ کر نواز کو للکارتے ہیں اتنا میرا جسم ننگا کرنے والوں پر اگر آپ چیخیں تو آپ ہی نیا پاکستان بن جائے گا۔

سندھ کے عوام بلاول سے پوچھتے ہیں کہ اے نوجوان، گولی مارو انکل عمران اور چاچا نواز کو۔ ہمارا ان سے کیا تعلق نوجوان! ہم سے ہماری بات کرو۔ ننگے پاؤں بینظیروں کی بات کرو۔ روٹی، کپڑے، اسکول، ہسپتال، ایمبولنس اور چھت کی بات کرو۔

مریم بی بی آسمانی آفات جیسی سیاہ، لش پش کرتی گاڑیوں کا جلوس لے کر جب انصاف کے دروازے پر پہنچتی ہیں اور جس شان سے انصاف کو للکارتی ہیں، مجھ جیسا مڈل کلاسیا ”عوام“ بھی حسرت کا گھونٹ بھر کر رہ جاتا ہے اس شان کو دیکھ کر۔ کاش اسی شان سے عوام کے مسائل پر بھی للکارا کرتیں آپ!
نواز شریف تو کیا، دنیا فرعون کے بغیر بھی چل گئی بی بی۔ پر جو سمندر بہتا رہتا ہے اور بہتا رہے گا، وہ ہے خلقِ خدا۔ عوام۔

حلق میں پھانس بن کر یہ سوال بھی چبھتا ہے کہ جس دھوم دھام سے شریفوں کے اعمال ترازو میں تُل رہے ہیں، کاش اسی اخلاص سے اس یتیم بچوں جیسے عوام کے مقدمے بھی بھگتائے جاتے جن کے گھروں کے چراغ جیلوں میں پڑے پڑے گھِس بھی گئے اور بجھ بھی گئے۔ پھانسیاں لگنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ مجرم بے گناہ تھا!

عدالتوں کی راہداریوں میں دھکے کھاتے اور انصاف کے لیے برسوں مارے مارے پھرتے اور تن من دھن عدالتوں پر لٹاتے عوام کے مقدمے بھی کاش شریفوں کی طرح دھڑا دھڑ نپٹانے جاتے!
جس کے خوف میں ہم اپنی جنازہ نمازیں پڑھواتے ہیں اس کی پکڑ صرف مال پر نہیں ہونی۔ سب سے زیادہ پکڑ تو مسندِ انصاف پر ہونی ہے۔

سوال تو مذہب کے نام پر سیاست اور ریاست کا کھیل کھیلنے والوں سے بھی عوام کا بنتا ہے کہ جس اسلامی نظام کا نعرہ بیچا جاتا ہے اس میں خلقِ خدا کا ذکر کہاں ہے؟ خلق کے حقوق کا ذکر کہاں ہے؟ مذہب کی دکان پر خوفِ خدا نام کا مال بھی رکھا ہے کہ نہیں؟

پر ایسا لگتا ہے کہ عوام کی آنے والی نسلوں کو ان بچوں کے روپ میں ڈھالا جا رہا ہے جو اسکول جانے کے بجائے منہ پھاڑے ٹی وی پر کارٹون دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ساتھ والے کمرے میں سوتیلی ماں اور دبنگ اباجی کی جنگ چل رہی ہوتی ہے۔

بس چند دن پہلے جب اللہ نذر کے گھر کی خواتین کے سروں پر چادر رکھی گئی تو پہلی بار دل چاہا کہ الطاف بھائی کی طرح ریاست کے گال پر، ایک پپی اِدھر اور ایک پپی اُدھر لے لوں۔

اس ننگے سر اور ننگے بدن عوام کے سروں پر بھی اللہ نذر کے گھر کی خواتین کی طرح چادر رکھنے کی ضرورت ہے، ریاست کی طرف سے بھی اور سیاست کی طرف سے بھی۔

 

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah