ہم سب احمد نورانی کے شانہ بشانہ


میرے صحافی دوستوں میں سے اکثریت جیو، جنگ سے وابسطہ ہیں جس میں سلیم صافی، حامد میر، انصار عباسی، عمرچیمہ، ارشد وحید چودھری، اعزازسید، نوشین یوسف وغیرہ اور میرے بہت ہی پیارے عبدالسلام سومرو جنہوں نے خاکسار کی صحافت کے ہر موڑ پر حوصلہ افزائی اور رہنمائی کی۔ جناب حامد میر صاحب کو تو مجھ سے اکثر یہی شکایت رہتی ہے کہ میں سب سے زیادہ ٹوئیٹر پر کیوں محترک رہتا ہوں۔ ایک مرتبہ ان کی طرف سے تو مجھ ناچیز کو فون پر ڈانٹا بھی گیا کہ یہ وقت پڑھائی کا ہے نا کہ سوشل میڈیا کا۔ یقیناً یہ ان کی میرے ساتھ محبت ہے جس پر ان کا میں انتہائی مشکور ہوں۔ البتہ جنگ سے وابستہ سینئر صحافی احمد نورانی سے چند دن قبل شناسائی ہوئی وہ بھی کسی مسئلہ کو لے کر ان سے شدید اختلاف ہوا۔ تاہم میری دلیل کے بعد وہ خاموش ہوگئے تھے۔

احمد نورانی انتہائی سادہ دل انسان ہیں لیکن جتنےاس حوالے سے سادہ ہیں اتنے ہی اپنے موقف کے بارے سخت ترین ہیں۔ ان کو دلیل سے تو ہرایا جا سکتا ہے مگر جبر اور زبردستی سے ہرگزنہیں۔ جب اس بہادر صحافی پر حملے کا سنا تو فوراً ان کا نمبر ملایا مگر رابطہ نہ ہوسکا۔ اس کے بعد اعزاز سید وغیرہ نے نورانی کے بارے میں ہر پل آگاہ رکھا۔ منگل کی صبح احمد نورانی نے میسج بھیجا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں البتہ صحیح طور پر بات نہیں کرسکتا۔ اس کے دوسرے دن روزنامہ جناح میں یہ شوشا چھوڑگیا کہ احمد نورانی اور حملہ آوروں کے درمیاں ایک دوشیزہ کو لے کر مسئلہ چل رہا تھا۔ جب میں نے اپنے دوست سے یہ کہانی پوچھی تو وہ ہنس دیے اور کہا رمضان! تمہیں کیا لگتا ہے؟ لہذا یہاں ضرورت ہے اسی طرح کے پچھلے واقعات کو دیکھنے کی جب ہمارے دوست عمرچیمہ کو اغوا کیا گیا تھا تو اسی قسم کی باتیں گڑھی گئی تھیں۔

دنیا بھر میں ہزاروں صحافیوں کو قتل کیا جاچکا ہے جن میں اکثریت کے قاتل نامعلوم ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں سو سے زائد صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے جن میں ایک دو کے سوا باقی کے نامعلوم قاتل اب بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ جو آئے روز ایک اور صحافی پر حملہ کرکے برائے نام طاقت ور میڈیا اور برائے نام با اختیار حکومت کو للکارتے ہیں کہ اگر آپ میں ہمت ہے تو ہمیں پکڑ کر دکھاؤ؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ جس میڈیا کے ایک خبر پر وزیراعظم نا اہل ہوجاتے ہیں، کیا وہ اپنے قاتلوں کو بےنقاب کرپائےگا یا حکومت انہیں پکڑ پائے گی؟ احمد نورانی پاکستان کے بڑے میڈیا گروپ سے منسلک ہیں جنہوں نے جہانگیر ترین اور علیم خان کی آف شور کے حوالے سے سب سے پہلے خبر دی جبکہ سابق صدر مشرف کی ریٹائرمنٹ کے بعد بیرون ملک خریدیں گئیں جائیدادوں کے حوالے سے ایک تفصیلی خبر بھی دی جس میں اہم سوالات اٹھائے گئے تھے۔ پھر چاہے نیب میں چلنے والے کیسز ہوں یا خلاف ضابطہ تقرریو ں کا معاملہ ہو، احمد نوارنی کی خبریں ہمیشہ ہیڈلائنز کا مرکز رہیں ہیں۔

احمد نوارانی نے عمران خان کی آف شور کمپنیز کے بارے میں سب سے پہلے خبر بریک کی تھی۔ نواز شریف کی آف شور کمپنیوں سے متعلق بیرون ملک جائیدادوں اور منی ٹریل کے حوالے سے 13سوال بھی انہی نے ہی اٹھائے تھے جو جے آئی ٹی کی تفتیش میں بعد میں انتہائی اہمیت اختیار کر گئے تھے۔ احمد نورانی پر حملہ کیوں کیا گیا؟ یا پھر اس کے اصل مقاصد کیا ہیں؟ یقینا مذکورہ صحافی اور ان کے دوست حملہ آوروں کو جانتے ہیں مگر کسی میں یہ ہمت تک نہیں کہ کوئی سرعام ان کا نام لے سکے۔ آخرایسا کیوں؟

احمدنورانی پر حملہ کسی ایک صحافی یا کسی ایک میڈیا گروپ پر حملہ نہیں، اصل میں یہ حملہ آزادی اظہاررائے پر ہے جو پاکستان کا آئین اپنے شہریوں کو فراہم کرتا ہے۔ مگر جو لوگ پاکستان کے آئین کے برعکس چلتے ہیں وہ ہمیشہ سے اس بےچارے آئین کی دھجیاں اڑاتے آئے ہیں اور شاید تب تک یہ ناگزیر عمل جاری و ساری رہے گا جب تک پاکستان میں میڈیا اور پارلیمنٹ مکمل آزاد اور با اختیار نہیں بن جاتے۔

رائج ہے میرے دیس میں نفرت کا قاعدہ
ہو جس سے اختلاف اسے مار ڈالئے!

تبھی تواسلام آباد جیسے پاکستان کے درالخلافہ”زیرو پوئینٹ” پر پاکستان کے بڑے میڈیا گروپ سے وابستہ معروف صحافی احمد نورانی غیر محفوظ رہا اور تشدد کا نشانہ بن گیا۔ پھر ذرا ان صحافیوں کے بارے میں بھی سوچیئے جو خیبرپختونخواہ اور بلوچستان جیسے غیر محفوظ علاقوں میں آزادی اظہار رائے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اگر میں اپنی بات بتاوں تو جب میں گھر سے نکلتا ہوں تو میرا سارا دن لمحہ بہ لمحہ اپنی خیر و آفیت سے متعلق اپنے بھائی اور باپ کو ٹیلی فون پر بتاتے گزر جاتا ہے۔ اور بھی کئی میری طرح کے غیر معروف اور چھوٹے میڈیا گروپ سے وابستہ لوگ کس قدر غیر محفوظ ہوں گے اور کن کن مسائل کا سامنا کررہے ہیں جس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔

جس رفتارسے پاکستان اور دیگر ممالک میں دن بدن حقیقت کہنے والے صحافیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سچ بولنے والے صحافیوں کے لئے زمین تنگ کی جارہی ہے۔ اگر صحافی برادری ”ایک پر حملہ سب پر حملہ“ کے نعرے کی ساتھ ایک سو یکجاء نہ ہوئی تو یہ آزادی صحافت کے دشمن ہمیں ایک ایک کرکے یوں ہی کاٹتے چلے جائیں گے۔ اور خدا ناخواستہ کہ کبھی کوئی وقت ایسا بھی آئے کہ پروفیشنل صحافیوں کا نام و نشان تک مٹا دیا جائے۔

جب کبھی بھی طاقتور ”نامعلوم“ لوگوں کی طرف سے پاکستانیوں کونشانہ بنایا جاتا ہے تو پاکستان کے دشمنوں کو ریاست پاکستان اور اس کے عسکری اداروں کو بدنام کرنے کا جواز مل جاتا ہے اور یہ موقع دشمنان پاکستان کو ہم صحافی نہیں بلکہ وہ نام نہاد محب وطن پاکستانی ”نامعلوم افراد“ فراہم کرتے ہیں۔ لہذا ہمارے اداروں کے سربراہان کو چاہیے کے ایسے عناصر کا خاتمہ کریں جو اپنی نا اہلیوں اور غیر آئینی حرکتوں سے ہمارے دشمنوں کو پاکستان اور اس کے عظیم اداروں کو بدنام کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ پھر جب ہم ان ”نامعلوم“ مافیاء کو بےنقاب کرتے ہیں تو ہمیں غدار وطن، قرار دے دییا جاتا ہے۔

آخر میں ایک شعرآزادی صحافت کے قاتلوں کے نام

بند کمروں کی صحافت میرا منشور نہیں
جو بات کہوں گا سرے بازار کہوں گا۔
تم رات کی سیاہی میں مجھے قتل کروگے؟
میں صبح کی اخبار کی سرخی میں ملوں گا

 

ملک رمضان اسراء

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملک رمضان اسراء

ملک رمضان اسراء مصنف معروف صحافی و قلم کار ہیں۔ انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز سے وابسطہ ہیں جبکہ دنیا نیوز، ایکسپریس، ہم سب سمیت مخلتف قومی اخبارات کےلیے کالم/بلاگ لکھتے ہیں اور ہمہ وقت جمہوریت کی بقاء اور آزادئ صحافت کےلیے سرگرم رہتے ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی اے ماس کیمونی کیشن کررہے ہیں۔ ان سے ٹوئٹر اور فیس بُک آئی ڈی اور ای میل ایڈریس پر رابطہ کیا جاسکتاہے۔ malikramzanisra@yahoo.com

malik-ramzan-isra has 18 posts and counting.See all posts by malik-ramzan-isra