میں اور میرے نئے دوست ۔۔۔ ہم سب


“O dear friend

when you have a gem

in your hand

you don’t go

on the street

announcing it.”

Kabir Das                    

جہاں‌ بھی جاتے تو ڈاکٹر سہیل کے کاندھے پر ایک چمڑے کا کالا بیگ لٹکا ہوتا تھا جس میں‌ ان کے مسودے، نوٹس اور کتابیں‌ ہوتیں۔ میں‌ نے ان سے کہا بھی کہ اس کو گاڑی میں‌ چھوڑ دیں۔ بہت بھاری ہے۔ لیکن انہوں‌ نے ایسا نہیں‌ کیا اور مجھے ایک قصہ سنایا۔ کہنے لگے، ایک درویش تھے جن کی کٹیا کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا لیکن جب وہ واپس آتے تو تالا لگا دیتے تھے۔ لوگوں نے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں‌ کرتے ہیں تو کہنے لگے کہ اس کٹیا میں‌ سب سے زیادہ اہم چیز میں‌ خود ہوں۔ کہنے لگے کہ اگر کسی کو گاڑی چرانی ہے تو چرا لے لیکن میرے ادھورے خیالات بہت اہم ہیں۔ اس بات کو ایک اوکلاہوما کے شہری سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے۔ جب ٹورنیڈو وارننگ ہوتی ہے تو ہم ہر چیز چھوڑ کر گیراج کے نیچے بنے فولادی شیلٹر میں‌ اپنی بلی اور کتے کے ساتھ چھپ جاتے ہیں۔ اگر گھر تمام سامان کے ساتھ اڑ گیا تو دوبارہ بن جائے گا لیکن جان اہم ہے۔

جب بھی میں‌ کہیں پڑھوں‌ کہ “تعلیم ختم کرنے کے بعد! ” تو وہ مجھے ایک مزاحیہ فقرہ لگتا ہے۔ اس کو یوں‌ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ “ڈگری مکمل کرنے کے بعد!” کسی بھی انسان کی تعلیم کبھی مکمل نہیں ہوتی اور ہم ہر روز کچھ نیا سیکھ سکتے ہیں۔ ایک نئی ریسرچ کے مطابق اگر کوئی ایک سال تعلیم حاصل کرے تو اس کی زندگی ایک سال کے لیے لمبی ہوجاتی ہے۔ ہر سال بیلکنیپ پراکٹرشپ کے اسٹوڈنٹس ہمارے کلینک میں‌ روٹیشن کرتے ہیں جہاں‌ وہ اینڈوکرنالوجی سیکھتے ہیں۔ میں‌ نے اپنی کچھ دن کی چھٹیوں میں‌ ڈاکٹر سہیل کے ساتھ روٹیشن کرنے کا فیصلہ کیا۔ کینیڈا جانے اور ڈاکٹر سہیل کو شیڈو کرنے کا تجربہ میرے لیے بہت اچھا اور فائدہ مند رہا۔ دیگر افراد بھی اس تجربے سے سیکھ سکتے ہیں۔ اس لیے یہ مضمون لکھ رہی ہوں۔

ڈاکٹر سہیل اور ڈاکٹر غزالہ قاضی سے “ہم سب” کی ویب سائٹ کے ذریعے تعارف ہوا۔ ان کے کئی کالم ایسے تھے جو میں خود لکھ رہی تھی جیسا کہ ایک ایوولیوشن کی تھیوری کے بارے میں اور دوسرا نیند کے بارے میں۔ میں‌ نے دیکھا کہ یہ دونوں‌ ڈاکٹرز مجھ سے پہلے کافی اچھی اردو میں‌ میرے مضامین لکھ چکے تھے اور مجھے اپنے مضامین ردی کی ڈیجیٹل ٹوکری میں‌ پھینک دینے پڑے۔ میں‌ نے محسوس کیا کہ ان سے کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ میں پہلے ڈاکٹر قاضی سے واشنگٹن ڈی سی میں‌ ملی اور پھر ٹورانٹو میں‌ ڈاکٹر سہیل سے۔ ڈاکٹر قاضی کے ساتھ ڈی سی کی سڑکوں پر لمبی چہل قدمی کی اور سارا وقت ان سے ڈھیروں سوال کیے۔ وہ ہر وقت پڑھتی لکھتی رہتی ہیں اور میڈیسن اور ریسرچ بہت اچھی طرح‌ سمجھتی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں‌ نے زندگی سے بھی بہت سیکھا ہے۔ میں‌ نے اپنے نئے دوستوں کو بہت تعلیم یافتہ، روشن خیال اور ذہین افراد پایا جن کے دل میں‌ انسانیت کے لیے ہمدردی ہے۔

ڈاکٹر سہیل کے ان مریضوں‌ کی انتہائی شکرگزار ہوں‌ جنہوں‌ نے مجھے اپنے سائیکوتھیراپی سیشن کے دوران ان کے مسائل سننے اور ان سے بات چیت کرنے کی اجازت دی۔  جیسا کہ اس سے پہلے بھی لکھا ہے میرے نانا کے ایک دوست کہتے تھے، تشخیص مرض کی موت ہے۔ جب یہ افراد یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کے مسائل کا کیا سبب ہے تو پھر وہ ان کو سلجھانے کی جانب قدم بڑھا سکتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر دوا بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔ اس روٹیشن سے میں نے کچھ اہم سبق سیکھے ہیں جن کو اپنے کلینک کے مریضوں‌ میں‌ استعمال کر کے ان کا بہتر علاج کرنے میں‌ مدد ملے گی۔

ڈاکٹر سہیل کی اسسٹنٹ جنہوں‌ نے ٹورانٹو کے اسلامک سینٹر میں‌ ان کے لیکچر پر ان کے ہمراہ جانا تھا، کسی وجہ سے مصروف تھیں۔ میں‌ نے بخوشی ان کی اسسٹنٹ بننے کی حامی بھری۔ ادھر ادھر جانے میں‌ وقت کا احساس بالکل نہیں ہوا کیونکہ میں‌ نے سارا وقت ڈاکٹر سہیل کا سر کھایا اور ان سے ہزار سوال پوچھے جن کے انہوں‌ نے تحمل سے جواب دیے۔ مسجد میں‌ کانفرنس ہورہی تھی جس میں‌ ہر عمر کے لوگ موجود تھے۔ وہاں‌ لوگوں‌ نے ان کا انٹرایکٹو سیمینار سنا، اچھے سوال پوچھے اور میری ٹیبل پر آکر ڈاکٹر سہیل کی کتابیں‌ خریدیں۔ وہاں‌ ایک  بوسنیا کے انکل نے مجھے پروفیسرز کو فالو کرنے اور کتابیں لکھنے کے بجائے شادی کرلینے اور بچے پیدا کرنے کا مفت مشورہ بھی دیا۔ ان کو نہیں پتا تھا کہ میرے پہلے سے بچے ہیں۔ ڈاکٹر سہیل نے مجھ سے سوال کیا کہ میرے خیالات کس فلاسفر سے متاثر ہوکر ہیومانسٹک بن گئے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مجھے کسی شخصیت نے تقریر کرکے متاثر نہیں کیا ہے۔ میں‌ نے ہر طرف سے پڑھا اور سنا اور اپنی ہائر ایجوکیشن سے سیکھی ہوئی تنقیدی سوچ کھلے ذہن کے ساتھ معلومات پر لاگو کی تو جواب خود بخود سمجھ آنے لگے۔

ڈاکٹر سہیل کی فیملی کے ساتھ لنچ کرنے کا موقع ملا۔ ان کی گرل فرینڈ بیٹی ڈیوس سے ملی جو بہت خوبصورت اور خوب سیرت خاتون ہیں۔ ان کے ساتھ سائیکوتھیراپی کلینک اور اینڈوکرنالوجی کے بارے میں‌ اچھی گپ شپ رہی کیونکہ ان کی لکھی ہوئی ایک کتاب میں‌ نے جانے سے پہلے پڑھی تھی اور انہوں‌ نے اپنی صحت سے متعلق کچھ سوال میرے لیے پہلے سے سوچ رکھے تھے۔ ان کے لیے تحفہ لے گئی تھی۔ یہ ویرا بریڈلی کا بیگ ہے! میں‌ نے کہا تو انہوں‌ نے چونک کر پوچھا کہ اوہ آپ ویرا بریڈلی کو جانتی ہیں؟ ڈاکٹر سہیل نے کہا کہ میں چاہتا تھا کہ وہ آپ سے ملیں‌ اور انہیں‌ پتا چلے کہ پاکستانی خواتین ایسی بھی ہیں۔ کیا میں‌ پاکستانی خواتین کی نمائندہ بن سکتی ہوں جبکہ ہم لوگ کافی امریکی  ہیں؟  ڈاکٹر سہیل نے ایک بات کہی جس کو ہمیشہ یاد رکھنے کی کوشش کروں‌ گی۔ انہوں‌ نے کہا کہ آپ ڈوئل ایمبیسیڈر ہیں، مغربی خواتین کے لیے مشرقی خواتین کی اور مشرقی خواتین کے لیے مغربی خواتین کی۔

ڈاکٹر سہیل کی فیملی آف دا ہارٹ سے ملی اور اس جھیل کو بھی دیکھا جس کے کنارے بیٹھ کر انہوں‌ نے اپنی بایوگرافی “دا سیکر” (سالک) لکھی تھی۔ یہ بایوگرافی پڑھنے کے لائق ہے۔ میں نے آج تک ایسی بایوگرافی اس سے پہلے نہیں‌ پڑھی۔ اس کو ایک کائناتی کہانی سمجھا جاسکتا ہے جس سے سب انسان تعلق محسوس کرسکتے ہیں۔ انسان صرف کتابوں‌ یا یونیورسٹیوں سے ہی نہیں‌ بلکہ اپنی زندگی سے بھی بہت سیکھتے ہیں۔ بہت سی باتیں ایسی ہیں جو ہم اپنے بڑوں‌ سے سیکھتے ہیں۔ جب میرے والد کی وفات ہوئی تو میری عمر چھ سال تھی۔ وہ اپنے والدین کی آخری اولاد تھے اور ان کے والدین تب وفات پا گئے تھے جب وہ چھ سال کے تھے۔ میری نانی بھی اس وقت فوت ہوچکی تھیں‌ جب میری امی صرف چار سال کی تھیں۔ ایک نانا کے سوا کوئی گرینڈ پیرنٹ نہیں دیکھا تھا۔ امی بھی مجھ سے عمر میں‌ صرف 17 سال بڑی ہیں۔ اس بات کو بارہا محسوس کیا کہ ہم سب ساتھ میں‌ بڑے ہورہے تھے اور ہماری زندگیوں میں دانائی والے افراد کی شدید کمی تھی۔

امریکہ آنے کے بعد جو بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ، سمجھ بوجھ والے عمررسیدہ افراد کے ساتھ پڑھنے یا کام کرنے یا سماجی حلقوں میں‌ اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا وہ زیادہ تر امریکی تھے۔ جیسا کہ یونیورسٹی کے پروفیسرز یا لوکل بک کلب اور ٹوسٹ ماسٹرز کے میمبر۔ ڈاکٹر کیم فیلوشپ میں‌ میرے مینٹور تھے جنہوں‌ نے پرائمری ہائپرالڈاسٹیرون کی بیماری کی تشخیص کے لیے کیپٹوپرل سپریشن ٹیسٹ اور سیلین انفیوژن ٹیسٹ ایجاد کیے جو ساری دنیا میں اس بیماری کی تشخیص کے لیے گولڈ اسٹینڈرڈ سمجھے جاتے ہیں‌۔ ایڈ کیسلر اپنی وفات سے پہلے تک ہمارے بک کلب کے ممبر تھے جن کو ان کی موسم کے سیںٹر میں خدمات اور ایجادات کی وجہ سے فادر آف ریڈار کہا جاتا ہے۔ اپنے ارد گرد ہمارے اپنے بیک گراؤنڈ کے لوگوں‌ کو دیکھ کر اور ان کی بات چیت سے میں نے محسوس کیا کہ وہ عمر میں‌ زیادہ ہوچکے تھے لیکن ذہنی طور پر وہ اب بھی میجیکل اور بچکانہ خیالات والے تھے۔  جو باتیں ہم بچپن میں درست سمجھتے تھے اور بڑے ہوکر سمجھ لیں، وہ باتیں‌ آج بھی بچوں‌ کو پڑھائی جا رہی ہیں۔ چونکہ میں‌ ان سے الجھنا یا لڑنا نہیں‌ چاہتی تھی، خاموشی سے فاصلہ کر لیا۔ ان باتوں کی کچھ مثالیں یہاں‌ لکھوں‌ گی۔

ایک کراچی سے تعلق رکھنے والی لیڈی ڈاکٹر سے بات ہورہی تھی جنہوں‌ نے کہا کہ خواتین زیادہ ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ حقیقت میں دنیا میں‌ سے 100 ملین خواتین غائب ہیں جن میں‌ زیادہ تعداد افریقہ، ساؤتھ ایشیا اور ایسٹ ایشیا میں ہے۔ پیدائش کے وقت لڑکیاں زیادہ پیدا ہوتی ہیں لیکن وہ بدسلوکی کی وجہ سے مر جاتی ہیں۔ انڈیا، چین، پاکستان اور افریقہ میں‌ اس تناسب کے بگڑنے سے سنجیدہ مسائل کھڑے ہورہے ہیں۔ لڑکیاں اغوا کرکے بیچی جارہی ہیں اور ہیومن ٹریفکنگ آج ایک سنگین مسئلہ ہے۔ دو پاکستانی امریکی سائکاٹرسٹ نے یہ آئیڈیا پیش کیا کہ انسان کی عمر تو بہت کم ہے اور تاریخ بہت لمبی اس لیے جو چلا آرہا ہے وہ ٹھیک ہی ہوگا اس لیے ہمیں اس کو ویسے ہی فالو کرنا چاہئیے۔ وہ یہ بات نہیں‌ سمجھتے تھے کہ ہر نسل کے انسانوں‌ کو اپنے وقت کے لحاظ سے بہت کام کرنا ہے جو کہ آنے والی نسلوں‌ کا ہم پر قرض ہے۔ جادؤئی خیالات دنیا میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ میری ایک دوست کسی اور ملک کی ہیں۔ ایک مرتبہ میں نے ان کو پودے میں‌ سے توڑ کر ہری مرچیں دیں تو انہوں‌ نے کہا کہ نیچے رکھ دو میں اٹھا لوں گی۔ ان کے عقیدے کے مطابق اگر کوئی دوسرے کو ہری مرچیں‌ پکڑائے تو ان کے درمیان لڑائی ہوجاتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ٹرمپ سپورٹرز کی طرح‌ کے لوگوں‌ کا تناسب بہت زیادہ ہے۔

ایسے لوگ ہمارے درمیان آج بھی موجود ہیں جو دنیا، سائنس، مذہب، فلسفے اور تاریخ کو آبجیکٹولی (معروضی طور پر) دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ یہ لوگ ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ ان کو تاریخ میں وہ توجہ اور مقام نہیں ملا جو ملنا چاہیے تھا کیونکہ اکثریت کی توجہ غلط سمت میں‌ رہی جس کی وجہ سے دائرے میں‌ سفر چلتا رہا۔

ڈاکٹر سہیل ان لوگوں میں‌ سے ایک ہیں جن پر کسی بھی معاشرے کو فخر ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر خالد سہیل نے اپنے گہرے مطالعے اور تجربے کے بعد گرین زون فلسفہ ایجاد کیا ہے جس کو کسی بھی شعبے اور ادارے میں‌ لاگو کرکے ایک صحت مند ماحول تخلیق کیا جاسکتا ہے۔ جب سے کینیڈا سے واپس آئی، گرین زون فلسفے کو زیابیطس کے مریضوں‌ میں استعمال کر رہی ہوں۔ اس موضوع پر پاور پؤائنٹ کی سلائڈز بنا کر اگلی زیابیطس کی کلاس رکھوں گی۔ بلکہ اس منفرد آئیڈیا کو استعمال کرتے ہوئے باقاعدہ سائنسی ریسرچ کی جاسکتی ہے جس کو مین اسٹریم جرنل میں‌ چھاپا جاسکتا ہے تاکہ دیگر افراد بھی اس سے سیکھ کر اپنی زندگی بہتر بنا سکیں۔ یہ کسی بھی اسٹوڈنٹ کے لیے تھیسس لکھنے کے لیے ایک ایسا پراجیکٹ ہے جس سے وہ اپنے کیریر کو آگے بڑھانے کے علاوہ دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے میں‌ استعمال کرسکتے ہیں۔

سائکائٹری، میڈیسن، ساؤتھ ایشین اور امریکن بیک گراؤنڈ کے ایک جیسے ہونے کی وجہ ہی ہو سکتی ہے کہ خیالات میں‌ اتنی مماثلت پائی جائے۔ ڈاکٹر سہیل نے کہا کہ “جن باتوں‌ کا ہمارے دماغ کو پتا نہیں‌ ہوتا انہیں ہماری آنکھیں‌ نہیں‌ دیکھ سکتیں!” کیا یہ جملہ آپ نے میرے مضامین میں‌ پڑھا ہے، میں‌ نے پوچھا تو کہنے لگے کہ نہیں۔ جن لوگوں‌ نے میرے پچھلے مضامین پڑھے ہیں وہ جانتے ہوں‌ گے کہ یہ جملہ میں‌ نے کئی جگہ لکھا ہے۔ ایک خاتون نے ہلری کلنٹن کی نئی کتاب پڑھی اور انہوں‌ نے کہا کہ برنی ایک فضول آدمی ہے جس کا میتھ ٹھیک نہیں‌ تھا اور اس نے ہلری کلنٹن کو صدارت ملنے میں‌ ٹانگ اڑائی۔ جب وہ چلی گئیں‌ تو میں‌ نے ڈاکٹر سہیل سے کہا کہ میرے خیال میں‌ برنی سینڈرز ایک فضول آدمی نہیں‌ ہیں، ان کا میتھ بھی ٹھیک ہے اور اگر وہ امریکہ کے صدر بنتے تو امریکہ اور باقی دنیا کے لیے اچھا ہوتا۔ انہوں‌ نے کہا کہ میں‌ آپ سے متفق ہوں۔

میں‌ نے ڈاکٹر سہیل سے کہا کہ مجھے آپ کے تجربات، دانائی اور بردباری کی ضرورت ہے لیکن آپ کو اپنا قیمتی وقت مجھے دینے کا کیا فائدہ ہے؟ تو انہوں‌ نے جواب دیا کہ میں بھی آپ سے سیکھ رہا ہوں ،آپ میں‌ ماں جیسی شفقت ہے اور میں‌ خود کو ایسے لوگوں‌ کے درمیان رکھنا چاہتا ہوں جو میرے ساتھ ہمدردی سے پیش آئیں۔ ان کی بات سن کر میں‌ نے اعتراف کیا کہ جب مجھے پتا چلا کہ ڈاکٹر سہیل کے اپنے کوئی بچے نہیں‌ ہیں تو مجھے ان کے لیے فکر محسوس ہوئی تھی۔ میرا ڈاکٹر سہیل کے لیے یہی پیغام ہے کہ آپ کی کتابیں‌ آپ کے بچے ہیں اور ان کے پڑھنے والے بھی۔

جس دن واپسی کی فلائیٹ پکڑنی تھی تو ڈاکٹر سہیل نے وقت نکال کر مجھے ائر پورٹ چھوڑا حالانکہ میں‌ خود اوبر لے کر جا سکتی تھی۔ ان کی گاڑی میں‌ نیل ڈائمنڈ کا گانا چل رہا تھا جو ان کے پانچ پسندیدہ ترین گانوں‌ میں‌ سے ایک ہے۔ میں‌ ڈاکٹر سہیل کو ایسے ہی یاد کرتی ہوں کہ وہ بلیو جینز میں‌ سادہ سی شرٹ پہن کر گاڑی چلا رہے ہیں اور نیل ڈائمنڈ فار ایور ان بلیو جینز گا رہا ہے۔ ان کی سب سے نئ کتاب “دا مسٹریز آف مسٹی سزم” کی کئی کاپیاں‌ کینیڈا سے لائی ہوں اور بک کلب میں‌ بانٹ دی ہیں۔ اس کو میں‌ پڑھ چکی ہوں وہ تو کبیر داس کے شعر سے ظاہر ہے کیونکہ وہ اس کتاب میں‌ لکھا ہوا ہے۔ اس کتاب کو ہمارا یونیٹیرین بک کلب تین دسمبر سے پڑھنا شروع کرے گا اور ہم ڈاکٹر

سہیل کو دعوت دے رہے ہیں‌ کہ وہ آکر ہمارے شہر نارمن میں‌ لیکچر دیں۔

پارک کے ساتھ ڈینیل ڈیوڈ پالمر کا مجسمہ بنا ہوا ہے جنہوں نے کائرو پریکٹس شروع کی تھی۔ ان کے قول کو پڑھ کر میں نے اپنے خیالات پر نظر ثانی کی۔ میرے خیال میں‌ کائروپریکٹرز نقلی ڈاکٹرز تھے۔ وہ ڈاکٹر ہوں‌ یا نہیں لیکن اگر وہ انسانوں‌ کی زندگی بہتر بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو ہم ایک ہی سائڈ پر ہیں۔ اس قول پر اس مضمون کو ختم کرتی ہوں۔

“I have never considered it beneath my dignity to do anything to relieve human suffering.”

Daniel David Palmer


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).