علی افتخار جعفری: زندگی اور موت کی منڈیر پر رکھی دو نظمیں
اے بے گنہی گواہ رہنا
علی افتخار پانیوں کا شناور ہے
دو اور کبھی دو سے زیادہ کشتیوں میں پاؤں جمائے
کھلنڈرے لڑکوں کی طرح شرارت سے ہنستا
روداں *کے مجسمے کی طرح سیدھا کھڑا
اپنے ترشے ہوئے رگ پٹھوں کو سورج کے مقابل کیے
غدار پانیوں پہ سہولت سے پھسلتا چلا جاتا ہے
تمباکو سے سیاہ ہوتے اس کے لبوں کا کوئی گوشہ نہیں پھڑکتا
ساحل پر کھڑے ہونے والے دیکھ سکتے ہیں
دو کشتیوں کے سوار کے سرین معلق ہو تے ہیں
اس کے رازوں سے کھیلنے والی ہوا دست صبا جیسی مہرباں نہیں
مگر وہ ڈیک پر پھسلتے پستول کو
بے نیازی سے ایک طرف ہٹاتے ہوئے
ایس ایم ایس لکھتا ہے
”زندگی مختصر ہے
اصول اور ضابطے شکستہ کواڑ ہیں
معاف کرنا سیکھ لو
محبت تہہ دار ہے
تتلی کے رقصاں پر منزلوں کا نشاں ہیں
ایسے ہنسو جیسے کنواری کے پیٹ سے قلقلِ مے سنائی دیتی ہے
ایسے گاؤ جیسے قیدی چھوڑے ہوئے گلی کوچوں کو یاد کرتے ہیں “
اپالو کا ہمزادنہیں جانتا
پارسائی کا بدصورت چوپایہ
دانت نکوسے
لمبی خوں آشام زبان نکالے
میرے تعاقب میں ہے
اس نے مری بُو پا لی ہے
میں پارسائی کو کتا نہیں سمجھتا
سب کتے پاگل نہیں ہوتے
پارسائی ایک نجس مخلوق ہے
یہ دلوں کی کیاریاں روند دیتی ہے
خواب کے ہرے قطعات کھوند ڈالتی ہے
کنواریوں کی کوکھ میں کیکٹس اگتے ہیں
بوڑھی آنکھوں میں تلخی کی تللی بندھ جاتی ہے
محبت کے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں
سبزہ خط ببول کی شاخ بن جاتا ہے
پریم نگر کی کھڑکیاں شہر پناہ
اور کتابیں آتش زدنی قرار پاتی ہیں
پارسائی ایک تعفن چھوڑتی گھونس تھی
جو کونوں کھدروں میں چھپ کر رہتی تھی
شہر نے یہ آفت کب سوچی تھی
صور اسرافیل کسی نے نہیں سنا
مگر پارسائی کا عجیب الخلقت جانور
ہر جبہ بے شکن اور منافق لبادے سے یوں برآمد ہوا
ہر بلند آہنگ حلقوم سے یوں اچھل کر نکلا
کہ شہر کے کوچے بوش *کا جہنم بن گئے
اپنی جلاوطنی بے لباس ہو گئی
میرے پاس بندوق نہیں ہے
آگ اگلنا میں نے کبھی سیکھا نہیں
ایک کشتی کبھی میری ملک نہیں تھی
گری پڑی ٹہنیوں اور سوکھے پتوں سے
میں نے یہ ڈونگھی بنائی ہے
جو ہر لہر کے ساتھ بری طرح ڈولتی ہے
گدلا پانی رس رس کر اندر آرہا ہے
پارسائی کا گرسنہ چوپایہ
ساحل پہ بے چینی سے
میرے استخواں کا منتظر ہے
اپالو کے ہمزاد !
دو کشتیوں کے سوار !
مجھے پانیوں کی آغوش ہی میں ڈوبنے دینا
اور میرے ریاکار دوستوں کوبتا دینا
میری رندی اور شہوت کے قصے غلط یا صحیح !
میں پارسائی کی پچھل پیری سے بغل گیر نہیں ہوا
(اکتوبر 2009)
1. Rodin
2. Bosch
دوست پر فرد جرم ….
علی افتخار
تم ایک اچھے شخص نہیں ہو
تنہائی میں بہت سا پھیلاﺅ ہے
اور بے بسی کے یوں دوٹوک ہونے میں
وحشت ہوتی ہے
میں دکھ کے پھیلے ہوئے پتھر پر
یاد کی میل خوری پوٹلی رکھ دیتا ہوں
مجھے کسی سے کہتے ہوئے شرم آتی ہے
سو میرے دوست، علی افتخار
سید علی افتخار !
افتخار ررر شاہ !
میں وہ سارے الزام تمہیں دیتا ہوں
جو ہم دوست
دسمبر کی دھند آلود راتوں میں
بوڑھے پیڑوں کے نیچے لڑکھڑاتے ہوئے
غبار ہوتی آنکھوں سے راستہ ٹٹولتے ہوئے
نشے میں ٹوٹتی آوازوں میں
باہم گٹھ جوڑ کر کے دوسروں پر دھرتے تھے
بددیانت دوست !
وہ سب کتابیں کہاں ہیں
جنہیں لکھنے کا تم نے وعدہ کیا تھا
وہ لکیریں کہاں ہیں
جن میں تمہیں رنگ بھرنا تھا
تم اپنے ہر شعر میں
اپنی ہر نظم میں
مسلسل وعدہ کرتے تھے
کہ تم اس سے بھی رس دار شعر کہو گے
تم سب راز کھول دو گے
تخلیق کی تھرتھراتی نیم تاریک خواب گاہوں میں
خیال اور شے کی ہم کناری کے
سب زاویے لکھو گے
تم نے یہ نہیں بتایا تھا
تم نظم ادھوری چھوڑ دو گے
تم دوستوں کے ہاتھ خالی کر دو گے
تم ہماری زندگی کے جنگل سے
اس طرح ہجرت کرو گے
جیسے گولی کی آواز سن کر پرندے اڑان بھرتے ہیں
سید علی افتخار !
یہ بندش نبھانے کا طور نہیں تھا
تم نے نظم کی بحر مسلسل میں
خلیج پیدا کر دی ہے
تم نے مطلع میں سکتہ ڈال دیا ہے
تم نے تصویر قطع کر دی ہے
تم نے مکالمہ ختم کر دیا
تم نے میرے خواب مٹی میں ملا دئیے ہیں
(اگست 2014 (
- آوازوں کا رزق اور شہر میں قحط صدا - 23/03/2024
- استاد گرامی مجیب الرحمن شامی کی تادیب - 20/03/2024
- تالاب گدلا ہو گیا ہے - 16/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).