فاٹا کا مقدمہ


طویل عرصے سے جنگ کی حالت میں زندگی کے دن گننے پر مجبور فاٹا کے تقریباًچالیس لاکھ نفوس بلا آخر دنیا سمیت حکومت پاکستان کی توجہ اپنی مشکلات کی جانب مبذول کرانے میں کسی حد تک کامیاب ہو ہی گئے ہیں۔ بے حد تاخیر، غیر یقینی حالات اور عہدیداروں کی بارہا منتقلی کے باوجود آخرکار وفاقی حکومت کی طرف سے فاٹا کی اصلاحاتی کمیٹی کی تجاویز اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے مطالبے پر فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔ 27200 مربع کلومیٹر پر پھیلے اس علاقے نے ملکی حدود کی حفاظت کے لئے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔

واضح رہے وفاقی کابینہ کی طرف سے پشتون پارٹیوں کی پر زور حمایت پر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا کام فاٹا کے تمام تر علاقہ جات میں جاکر وہاں کے عوام کے تحفظات سننا اور ان کے حل کو یقینی بنانا تھا۔ رپورٹ کے مطابق جب مذکورہ کمیٹی نے سرتاج عزیز کی سربراہی میں فاٹا کے مستقبل کے لئے وہاں کے باشندوں کے مطالبات کو حتمی شکل دے کر وفاقی حکومت کے سامنے رکھا تو اس پر فاٹا اسمبلی کے تقریباً تمام ممبران سمیت ملک کی دیگر تمام تر بڑی سیاسی جماعتوں نے اس کی حمایت کی، ماسوائے دو سیاسی جماعتوں کے جن میں جماعت علماءاسلام (ف) کے چیئرمین مولانا فضل الرحمان اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود اچکزئی کے نام شامل ہیں۔ مذکورہ دونوں سیاسی پارٹیوں نے موءقف اختیار کیا کہ انھیں کمیٹی کی تجاویز پر تحفظات ہیں جس بنا پر انھوں نے فاٹا کے خیبر پختونخواہ میں انضمام کے حوالے سے پیش کر دہ تجاویز کو مسترد کر دیا۔

اگرچہ ریاست میں موجود بڑی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے اس انقلابی قدم کے مطلق اپنی رائے قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اسے خوش آئیند بھی کہا گیا۔ لیکن اس سارے عمل کے دوران اس کے حق اور مخالفت میں دیے گئے دلائل نے ایک نئی بحث کو چھیڑ دیا۔ یہی نہیں فاٹا کے باشندو میں بھی یہ غلط فہمی پھیلائی گئی کہ انھیں دو ٹکڑوں میں ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت تقسیم کیا جا رہا ہے۔

محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان نے فاٹا کے پختونخوا کے ساتھ الحاق کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا کے مستقبل کے فیصلے پر ان کے تحفظات صرف یہ ہیں کہ فاٹا کے عوام کو ساتھ لے کر چلا جائے، اور اس بات کا فیصلہ کہ فاٹا کو ایک الگ صوبہ بننا چاہے یا اسے کے پی کے میں ضم ہونا چاہے اس حوالے سے ایک ریفرنڈم کرایا جائے، بعد از ریفرنڈم کے نتائج کی روشنی میں فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے۔

یہاں سوالیہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کی نمائندگی ہمیشہ ان کے انتخاب کیے ہوئے رہنما ہی کیا کرتے ہیں ایسے میں ریفرنڈم بظاہر معاملے کو طول دینا ہی نظر آتا ہے جب دیگر تقریباً تمام تر رہنما ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں۔ دونوں رہنماؤں کی جانب سے دوسرا الزام یہ دہرا جا رہا ہے کہ فاٹا کے انضمام کی حمایت کرنے والے رہنما الیکٹڈ نہیں بلکہ سلیکٹڈ ہیں۔ یہاں یہ نقطہ بھی قابل غور ہے کہ اگر ان دو رہنماؤں کے اس الزام کو درست مان بھی لیا جائے تو ان کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا یہ اسی سسٹم کی پیداوار نہیں؟

اگرچہ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے فاٹا کے انضمام کو حمایت حاصل ہے لیکن ان کے بھی کچھ تحفظات ہیں جن میں پاکستان تحریک انصاف سر فہرست ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت خود بھی فاٹا کے خیبر پختونخواہ میں انضمام کے فیصلے کی حمایت حاصل نہیں، کیونکہ بیشتر اصلاحات کے لیے کمیٹی بنا دی گئی ہے جنھیں 2018ءتک لٹکانے کا منصوبہ ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔

واضح رہے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی پرویز خٹک نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وفاق کی طرف سے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا اعلان تو کر دیا گیا ہے لیکن حقیقتاً فاٹا کی اصلاحاتی کمیٹی کے منظور شدہ مسودے میں سرے سے ”انضمام“ جیسے لفظ کا وجود ہی نہیں۔ انھوں نے مزید کہاتھا کہ اول تو انضمام کے لیے پانچ سال کا عرصہ دینا بذات خود دھوکے کے مترادف لگتا ہے کیونکہ اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو یہ کام مہینوں میں بھی ہوسکتا ہے۔

مزید براں یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ اس سارے معاملے میں فاٹا کے عوام کی رائے نہیں لی گئی۔ خیال رہے فاٹا اصلاحات کے حوالے سے جو کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اس نے مقامی علاقے میں دو جرگوں کا انتظام کیا تھا جن میں سے ایک میں علاقے کے کی با اثر شخصیات جبکہ دوسرے میں عام عوام کو اپنی رائے دینے کا بھرپور موقع فراہم کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق عوامی جرگے میں مرد حضرات سمیت طالب علموں اور خواتین کی بڑی تعداد نے ناصرف شرکت کر کے اپنی رائے دی بلکہ انھوں نے خیبر پختونخواہ کے ساتھ شمولیت کے فیصلے کی کثرت رائے سے حمایت بھی کی۔ علاوہ ازیں با اثرشخصیات والے جرگے میں شرکت کرنے والوں نے پرانے قوانین میں کچھ ترامیم کے بابت اپنی رائے دی۔

دوسری طرف اے این پی کے رہنما حاجی غلام احمد بلور نے اصل حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوے کہا کہ (ن) لیگ ہزارہ لابی کی وجہ سے فاٹا کے انضمام سے پیچھے ہٹ گئی ہے، انھوں نے مزیدکہا ”کہ مولانا فضل الرحمن دس سال سے کشمیر کمیٹی کے چیئر مین چلے آرہے ہیں مگر اب تک مقبوضہ کشمیر میں ریفرنڈم منعقد نہیں کرواسکے تو آخر چند ماہ میں فاٹا میں کیسے ریفرنڈم کروائیں گے؟ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس بات پر بھی تحفظات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ فاٹا صوبے کا حصہ تو بنے گا لیکن صوبائی حکومت یا اس کے ادارے اس سے الگ تھلگ رہیں گے۔ یہی نہیںحکومت ایک اور قانون بھی ایف سی ار کی جگہ نافذ کرانے کا ارادہ رکھتی ہے جسے ”رواج“کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جبکہ حمایتی جماعتیں اس قانون کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کر رہی ہیں کہ رواج بھی ایک طرح سے ایف سی آر کا ہی دوسرا رخ ہے، ان کا مزید کہنا ہے کہ جب صوبے میں ایک قانون رائج ہے تو ایک الگ قانون کے نفاذکا عمل سمجھ سے بالاتر ہے۔

ٹی این ٹی کے پلیٹ فارم سے جب فاٹا کے چند مقامی باشندوں سے بات چیت کی گئی تو ان کی طرف سے خیبر پختونخواہ کے ساتھ الحاق کی حمایت کی گئی۔ خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے محمّد حیات خان کا کہنا تھاکہ فاٹا کو کے پی کے کے ساتھ ضم ہونا چاہے ان کامزید کہنا تھا کہ کونسلز تو گلگت بلتستان میں بھی موجود ہیں لیکن وہ کسی کام کی نہیں وہاں کے عوام آج بھی ظلم کا شکار ہیں، زاہد توری نے بھی ایف سی ار کی مکمل خاتمے کی درخواست کا مطالبہ کرنے کے ساتھ فاٹا کے الحاق کی تائید کی، عبدالمالک کا کہنا تھا کا جب تک پاکستان کی آئین سے آرٹیکل 247 کو حذف نہیں کیا جائے گا تب تک فاٹا کے عوام کوانصاف کے حصول کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان کا دروازہ کھٹکھٹانے اجازت نہیں مل پائے گی۔ فاٹا کے ایک اور باشندے ناصر مہمند کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں پختونخوا کے ساتھ شامل کردیا جائے گا تو اس ضمن میں ہم بڑی حد تک بیجا ٹیکس کی ادائیگی سے محفوظ رہ پائیں گے۔

یاد رہے فاٹا کے عوام گزشتہ 70برس سے مسلسل جنگ کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ دہشت گردی کی زد میں رہنے کے باعث فاٹا ملک کا غریب ترین علاقہ بن چکا ہے۔ اب جبکہ ایک مدت کے بعد حکومت پاکستان کی جانب سے اس خستہ حال خطے کو بنیادی حقوق دیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو تمام تر سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر اپنے تحفظات کا کوئی ٹھوس حل نکالنا چاہیے تاکہ فاٹا کے معصوم عوام بھی پرسکون فضاءمیں سکھ کی سانس لے سکیں۔ علاوہ ازیں وہ افراد جو خطے میں نت نئے آپریشنز سے تنگ آکر اپنے گھر بار چھوڑ کر در بدر بھٹنکے پر مجبور ہیں اپنے گھروں کو واپس لوٹ کر ایک نئی اور خوشحال زندگی کا آغاز کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).