مشرق وسطی کی کشمکش اور پیوٹن کا دورہ تہران


روس کے صدر پیوٹن کا ایک روزہ دورہ تہران اگرچہ مختصر تھا مگر دورس اثرات کا حامل ضرورت ثابت ہو گا۔ بحیرہ کیسپین کی مناسبت سے کیسپن سمٹ میں روس، ایران اور آذربائیجان شامل تھے اس سے قبل روسی صدر نومبر 2015میں تہران آئے تھے جب کہ انہوں نے بشارالاسد کی حمایت میں ابھی تازہ تازہ فوجی کارروائی کا آغاز کیا مگر اس دفعہ ان کی آمد کے مقاصد میں شام کے ساتھ ساتھ باہمی تعاون بھی اہم ترجیح تھی۔ ایران اور روس اگرچہ شام کے معاملے پر ایک صفحے پر محسوس ہوتے ہیں مگر دونوں کے مفادات اور حالات پر نظر میں بہرحال فرق ضرور موجود ہے۔

ایران معاملات کو اپنی علاقائی سلامتی مشرق وسطی میں اپنے مفادات اور امریکہ خطرے سے نبردآزما ہونے کے ذیل میں دیکھتا ہے۔ جب کہ روس سوویت یونین یا زارروس کے زمانے کی ماضی کی عظمتوں کو از سر نو زندہ کرنے کے واسطے اقدامات کررہا ہے اس لیے اس کا طرز عمل بہت ساری جگہوں پر مختلف نظر آتا ہے۔ مگر وہ یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ اگر ایران سے رائے کے فرق کو مزید گہرا ہونے دیا تو اس صورت میں اس نے شام کی خانہ جنگی میں جو کچھ حاصل کیا ہے اس کو اچک لینے کی غرض سے دوسری قوتیں تیار بیٹھی ہیں۔

اس وجہ سے روس اور ایران شام میں بڑے پیمانے پر انٹیلی جینس اور فوجی نوعیت کے معاملات میں اشتراک عمل کر رہے ہیں لیکن داعش کی تقریباً شکست کے بعد شام کے معاملات کو کس رخ پر ٹھہرانا چاہیے اس حوالے سے دونوں کے پاس کوئی واضح یقین دہانیاں موجود نہیں ہیں کیونکہ داعش کے اقتدار کے جلد خاتمے کے بعد بھی ایران یہ توقع نہیں کر رہا کہ شام میں امن قائم ہو جائے گا۔ اور اگر اس موقعے پر روس نے بشارالاسد حکومت کی فوجی مدد میں کمی کر دی تو اس حکومت کے لیے بے انتہا مسائل کھڑے ہو جائیں گے۔ جس وقت روس کے صدر تہران کے دورے کی تیاریاں کر رہے تھے تو اس وقت روس کے صف اول کے اخبارات اپنے ذرائع سے خبر چلارہے تھے کہ روس شام سے بتدریج اپنے فوجی انخلاء کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ روس اپنے فوجی جیٹ طیاروں، ہیلی کاپٹر اور انجینئرووں اور ٹیکنیشنز کی واپسی کے لیے حکمت عملی تیار کر رہا ہے۔

اس کا سیدھا سادھا سا مطلب ہے کہ روس شامی اپوزیشن کو سیاسی سطح پر کسی معاملے تک لانے کی طرف بڑھنا چاہتا ہے۔ ایسی صورت میں ایران اس بساط پر جو شام کے حوالے سے بچھی ہوئی ہے کمزور ہو جائے گا۔ اسی سبب سے ایران اپنے تعلقات کو ہر حوالے سے روس کے ساتھ اس نہج پر پہنچانا چاہتا ہے کہ روس ایران کو نظر انداز نہ کر سکے۔ صدر پیوٹن نے ایران کے روحانی رہنما آیت اللہ خامنائی سے ملاقات کی اور ایران کے روحانی رہنما نے اس ملاقات کے بعد ایک بیان جاری کیا جس میں وہ روس کو باور کروانا چاہتے تھے کہ امریکہ شام کے معاملات میں مستقبل کے منصوبے بنا رہا ہے۔ با الفاظ دیگر شام میں اگر روس نے تنہا اڑان بھری تو پر کٹ جائیں گے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ہمارا تعاون امریکہ کو تنہا کر سکتا ہے۔ امریکہ کی پشت پناہی رکھنے والے دہشتگردو کی ناکامی کا انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن امریکہ مستقل منصوبے تیار کر رہا ہے۔ اسی بیان میں امریکہ کو زک پہنچانے اور علیحدہ کرنے کے واسطے اپنی اپنی کرنسی میں تجارت کرنے کی بھی تجویز دی گئی۔

کیسپین سمٹ کے اختتام پر ایران کے صدر روحانی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے باہمی تعاون سے خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد ہوئی ہے۔ اس ملنے میں روس اور ایران کے بعض معاملات پر اختلافات حائل ہو سکتے ہیں۔ روسی کی پالیسی کردوں کے حوالے سے وہ نہیں ہے جو ایران چاہتا ہے مختلف حصوں میں معدنیات کے کنٹرول پر اختلافات موجود ہیں شامی صدر کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے ایک دوسرے کے مؤقف پر شک موجود ہے جب کہ داعش کے بعد شامی حکومت میں اپوزیشن کا حصہ ہونا چاہیے اور اگر ہونا چاہیے تو اپوزیشن کس دھڑے کا حصہ ہو اور کتنا ہواس پر نا اتفاقی موجود ہے۔ پھر روس برملا اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل سے ورکنگ ریلشن شپ بہتر کرنا چاہتا ہے۔

تہران کو خطرہ ہے کہ کہیں روس امریکہ سے شام کے معاملے پر کوئی دو طرفہ سمجھوتہ نہ کر گزرے۔ کیونکہ اگر امریکہ سے ایسا کوئی سمجھوتہ ہو گیا تو اس میں شک کی کوئی گنجائش موجود نہیں رہتی کہ امریکہ ایرانی کردار کو اس میں برداشت نہیں کرے گا۔ اس لیے ایران کے روحانی رہبر اور صدر کے بیانات میں امریکہ کی مخالفت اول نمبر پر تھی۔ پھر سعودی عرب کے ساتھ روس کی حالیہ فوجی ڈیل بھی اس امر کی غماضی کرتی ہے کہ روس اپنے مفادات کو صرف ایران کے پلڑے میں نہیں رکھنا چاہتا لیکن روس کسی غلط فہمی یا حکمت عملی کے سبب سے اپنی موجودہ پوزیشن کو داؤ پر بھی نہیں لگانا چاہتا اسی لیے صدر پیوٹن نے تہران میں اپنے بیان میں کہا کہ کوئی ایک مسائل کو تنہا حل نہیں کر سکتا یہ اس جانب واضح اشارہ تھا کہ روس سمجھتا ہے کہ تنہا پرواز خطرناک ہو سکتی ہے۔

ایران کے لیے اس وقت اہم ترین مسائل میں نیو کلیئر ڈیل کا معاملہ شامل ہے۔ صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد اغلب خیال تھا کہ وہ اس پر کوئی نہ کوئی اپنے پیش رو سے ہٹ کر ضرورت بات کرے۔ انہوں نے دوسال پہلے ہوئے ایران اور دیگر ممالک کے جوہری معاہدے کی توثیق سے بھی انکار کر دیا اور جنرل اسمبلی میں بھی اس حوالے سے ایک تقریر جھاڑ دی۔ لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ ان کے ساتھ روس تو روس باقی ممالک بھی متفق نہیں ہیں۔ صدر پیوٹن نے ایران کی سرزمین پر اترتے ہی واشگاف الفاظ میں کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا ایران کے حوالے سے جارحانہ رویہ قابل قبول نہیں۔ روس نیو کلیئر پلانٹوں کی تنصیب کے حوالے سے ایران کے ساتھ غیر معمولی تعاون بھی کر رہا ہے۔

آیت اللہ خامنائی نے صدر پیوٹن سے ملاقات کے دوران اپنا نظریہ دہرایا کہ امریکہ پوری دنیا پر اپنا اثرورسوخ رکھنا چاہتا ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ ہر کمزور ملک کو باری باری نشانہ بنا رہا ہے۔ صدر پیوٹن نے جوہری معاہدے کے حوالے سے روس کی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکہ نے طاقت کے زور پر کچھ کرنا چاہا تو یہ ناقابل قبول ہو گا۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی گئی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ امریکہ اس راستے پر چلے گا۔ اس سمٹ میں روس کے مقاصد میں اپنی موجودگی اور اثرورسوخ کو بڑھانا سب سے اہم ایجنڈا تھا۔

روس، ایران اور آذربائیجان نے International North South Transport Corridorکی تعمیر کی طرف بھی بڑھنے کا اعلان کیا۔ یہ پرانا منصوبہ ہے اس منصوبے کے ذریعے روس خلیج فارس سے براہ راست منسلک ہو جائے گا۔ 7200کلو میٹر پر مشتمل یہ کوریڈور سمندر، ریل اور روڈ ٹرانسپورٹ پر مشتمل ہو گا یہ منصوبہ روس، ایران، سنٹرل ایشیاء، افعانستان سے مارکرتا ہوا برصغیر کو آکر ٹکرائے گا۔ اس میں چابہار، تہران، بندر عباس، بندر انزلی، باکو، استرکھان اور ماسکو وغیرہ شامل ہوں گے۔ بھارت کا چابہار کے ذریعے سامان کا بھیجنا اس حوالے سے ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اس ایک روزہ دورے کے دوران ہی روس کی تیل کی کمپنی روز نیفٹ اور نیشنل ایرانین آئل کمپنی نے 30ارب ڈالر کے معاہدوں پر ایک خاکہ تیار کرنے کا اعلان کیا جب کے روس کے وزیر توانائی نے کہا کہ ہم اس سال کے آخر تک اس معاہدے کے حوالے سے قانونی فریم ورک تیار کر لیں گے، ایران کو بھی روس میں تیل اور گیس کے شعبوں میں کام کی دعوت دی۔ اس معاہدے کے مطابق تیل کی پیداوار گیارہ لاکھ یومیہ بیرل تک بڑھ جائے گی۔

خیال رہے کہ روز نیفٹ عراقی کردستان میں بہت سارے معاہدے کر چکی ہے جس میں ترکی تک جانے والی اہم ترین آئل کی پائپ لائن میں اکثریتی Stakeبھی شامل ہے۔ ان اقدامات کو روس کے سٹرٹیجک منصوبوں اور مشرق وسطی میں اپنی موجودگی کے احساس کے طور پر دیکھا جاتا ہے اسی تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو اس ایک روزہ دورے میں روس کی Gazpromنے ایران سے قدرتی گیس کی مزید پیداوار اور اس قدرتی گیس کو بھارت کو بیچنے کی منصوبہ بندی کا اعلان بھی کیا وہ اس مقصد کے لیے ایران سے بھارت تک 1200کلومیٹر تک گیس پائپ لائن بھی تعمیر کرے گی۔ یہ ایک دن ہمارے لیے بھی باعث غور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).