کہانی کو اب رکنا ہوگا!


لاہور میں شدید دھند ہے اورچیزیں کھوئے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ پہلے ناول کھویا گیا پھر کاغذاتکا ایک فائل۔ کئی اہم دستاویزات گم ہیں۔ مزے کی بات کہ ملتی وہیں سے ہیں، جہاں پہلے سو بار ڈھونڈی جا چکی ہوں۔ یہ کون ہے اور کیا ہے؟ میرا خیال ہے یہ صفر سے آ گے کی کہانی ہے جو سمجھ نہیں آ رہی۔

کھڑکی کے باہر، کمرے میں، آ نکھوں میں، دل میں حتیٰ کہ پھیپھڑوں میں بھی کافوری روشنی جیسا دھواں بھرا آ رہا ہے۔ باتیں، یادیں، لوگ، بچھڑے لوگ، پیارے لوگ، اس دھند میں ابھرتے ہیں لمحہ کی لمحہ اور غائب۔ کوئی بھی ہاتھ نہیں آ رہا۔

ا بھی صبح کی بات ہے، میں اپنا شادی کا البم دیھ رہی تھی۔ بائیس تئیس سال کی دلہن، شاید میں ہی تھی۔ پپوٹوں پہ سنہری رنگ، ناک میں تین موتی کی نتھ۔ اگر میں ہی تھی تو یہ نتھ کہاں گئی؟ ڈھونڈھنے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔

کچھ یاد نہیں آ رہا کہ یہ نتھ اتار کے کہاں رکھی تھی؟ اتنے برس ہو گئے تھے۔ دھند بڑھتی چلی آ رہی ہے۔ دل کی وضع کا سنہری ڈبہ جسے کھولے پہ ایک ایسی دھن بجتی تھی کہ ہاتھ پاؤں کانپنے لگتے تھے اور دل حلق میں دھڑکتا تھا۔ وہ ڈبہ کہاں گیا؟ اتنے برسوں میں۔ اتنے گھر بدل چکی ہوں۔ وہ ڈبہ شاید کسی الماری میں بند پڑا ہے۔

نہیں، شاید وہ بھی کھو یا گیا۔ سوچتے سوچتے یاد آ یا کہ ننھا جب سواء سال کا تھا تو اسے یہ دھن اتنی اچھی لگتی تھی کہ باربار ڈبہ کھول کے سنتا تھا۔ شاید تب نہیں بلکہ اس کے چند سال بعد، چھہ یا پھر دس، نہیں بارہ سال بعد ننھے نے اس ڈبے کو کھول کر اس میں بجنے والی مشین نکال لی تھی پھر وہ ڈبہ کہاں گیا؟

میں سارے گھر میں بولائی بولائی سی پھرتی رہی۔ سیڑھیوں پہ، بالائی کمروں، بالکونیوں، بند الماریوں اور درازوں میں کھکھوڑا۔ ڈبہ کہیں نہ ملا۔ دھند کی باریک سی تہہ جیسے کھڑکی کی درزوں سے نکل کر سارے گھر میں جم چکی تھی۔ جھاڑن سے جھاڑنے کی کو شش کی تو بھڑک کر سب طرف پھیل گئی۔

تب مجھے معلوم ہوا کہ شادی کا البم بھی کھویا گیا ہے، ابھی تو رکھ کے گئی تھی یہیں اس تپائی پہ۔ کھلی کھڑکی سے کہرا بل کھا تا اندر آ رہا تھا۔ جانے کون کھول گیا یہ کھڑکی؟ میں تو سب کھڑکیاں، دروازے، روشندان، بند رکھتی ہوں، مقفل اور ان میں سے ہر ایک کی چابی میں نے چاندی کی بٹی ہوئی اس موٹی زنجیر میں ڈال دی تھی جو میری سا س نے مجھے نکاح کے وقت پہنائی تھی۔ وہ زنجیر کہاں گئی؟

گھبراہٹ میں تپائی سے ٹکرائی۔ تپائی الٹتے الٹتے بچی۔ تو وہ زنجیر کہاں گئی تھی؟ زنجیر ہی نہیں اس کے ساتھ چاندی کا موٹا کمر بند بھی تو تھا اور آ رسی، پازیبیں، سب کہاں گئیں؟
زنیوں سے اوپر جاتی ہوں الماری کی درازیں دیکھتی ہوں مگر زنجیر یہاں بھی نہیں۔ تھک کے وہیں سیڑھیوں میں بیٹھ گئی۔ یہ زنجیر میں ہمیشہ اپنے بستر کے ساتھ رکھی تپائی پہ رکھتی تھی مگر اب وہ تپائی؟ اتنے برس ہو گئے اس تپائی کو ٹوٹے جب ننھا چلنے لگا تھا تو ایک روز تپائی سمیت گر گیا تھا۔ سب ہی کو تپائی کی ساخت اور اس کے وہاں رکھے جانے پہ اعتراض ہونے لگا تھا پھر اس تپائی کو اٹھا کر جلانے کے لئے رکھی گئی لکڑی میں پھینک دیا گیا۔ اس پر کے سیپ کے بیل بوٹے، سب جل کر تمام ہوئے۔ زنجیرکہاں گئی؟

زینے کے مقابل روشندان بھی بھاڑ سا کھلا تھا اور دھند کا ایک مرغولا اندر گھسا چلا آ رہا تھا۔ ان روشندانوں، کھڑکیوں، دروازوں کو کس نے کھولا؟ آخر وہ زنجیر کس کے ہاتھ پڑی؟ اور کون تھا یہاں؟
سیڑھیاں اتر کے نیچے آ ئی تو پورا مکان دھند سے اٹ چکا تھا۔ سب کھڑکیاں دروازے، بھاٹم بھاٹ کھلے ہوئے تھے اور کہرا لہریں لیتا، ایک خواب گاہ سے دوسری خواب گاہ میں جا رہا تھا۔ البم تپائی پہ وہیں رکھا تھا، جہاں میں صبح اسے چھوڑ کر گئی تھی اور یہ تپائی بھی تو وہی تھی۔ میں نے جھک کر اس کے کام پہ ہاتھ پھیرا۔ سیپ اور تانبے کا لمس کسی مرے ہوئے عزیز کے یخ بستہ ہونٹوں جیسا تھا۔ سرد اجنبی، دل کو دو نیم کر دینے والا۔

البم کا پہلا صفحہ کھلا ہوا تھا اور اس پہ نضریں جھکائے ایک بائیس تئیس سالہ دلہن کی مسکراتی تصویر نضر آ رہی تھی جو کہ شاید میں ہی تھی۔ آ نکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھا۔ یہ نتھ اس ڈبے سے شاید نکال لی تھی اور کہاں رکھی تھی؟ ایک مخملی گتھلی میں اور وہ گتھلی پھر ایک سیاہ چرمی ڈبے میں بند تھی، وہ ڈبہ کہاں تھا؟

میں دوڑتی ہوئی کمرے میں گئیہ اور دروازہ اندر سے مقفل کر لیا۔ مجھے کھوئی ہوئی چیزوں سے خوف آ رہا ہے۔ میرا سامان کون ان کی برسوں کی ٹکی ٹکائی جگہوں سے بے چین کر رہا ہے؟ میری تین موتی کی نتھ کس نے چھپا لی؟ کون سارے کھڑکیاں، دروازے اور روشندان کھول گیا؟

کمرے کی کاسنی چادر پہ بھی کہرے کا غلاف پھیلتا جا رہا تھا اور وہیں میں نے اسے دیکھا۔ صفر سے آگے کی کہانی کا کردار۔ کیا یہ پہلے بھی اسی گھر میں رہتا تھا؟ میں نے آ نکھیں پھاڑ پھاڑ کے اسے دیکھا۔

وہ نہ مسکرا رہا تھا اور نہ ملول تھا۔ نہ انسان تھا نہ فرشتہ۔ ایک بے ڈھب سی شکل تھا۔ جسے خدا نے کسی عجلت میں بنا کے پٹخ دیا ہو۔ کاسنی چادر پہ وہ دھند کے لحاف میں سمٹا ہوا پڑا تھا، جیسے رحمِ مادر میں جینئین۔ پتلے پتلے سفید ہاتھ پاؤں اور پھیلی ہوئی آ نکھیں۔ اسے ابھی میری کہانی میں نہیں آ ناتھا۔

مجھے اپنی کھوئی ہوئی چیزیں ڈھونڈھنے کی عجلت تھی اسے وہیں چھوڑ کے، الماری میں کھوجنے لگی۔ پشت پہلو چوبی ڈبہ نکالا۔ اس کی ایک ایک دراز اور خانہ چھان مارا، نتھ یہاں بھی نہیں تھی۔ نہ زنجیر، نہ آ رسی، نہ میری نتھ اور نہ ہی وہ ڈھیروں عروسی ملبوسات جو میں نے پہنے ہی نہ تھے اور اب وہ سب غائب تھے۔ مکان کی رجسٹری کا خط، نکاح نامہ اورب فارم، کچھ بھی نہیں مل رہا تھا۔

میرے جہیز میں دیے گئے چوبیس قیراط سونے کی نقاشی سے لپے برتن، چمچے، کانٹے، نفیس دستر خوان اور آرکی کام کی ساڑھیاں، چمپا کلی اور چوہے دتیاں، مخملیں گر گابیاں، اتنے برسوں سے سنبھال کر رکھا ایک ایک کپڑا کھو گیا ہے۔ دھند کا غلاف میرے اور ہر شے کے درمیان حائل ہے۔ زندگی ایک بار پھرصفر پہ آ کے کھڑی ہو گئی ہے۔ ایک طرف منفی اعداد ہیں اور دوسری طرف اب تک کی گزاری ہوئی زندگی جو صفر سے آ گے گئی تھی لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ وہ صفر سے پیچھے کی زندگی تھی۔ صفر سے آ گے کی زندگی تو اب شروع ہوئی ہے۔ اس قدر دھند میں جب سالوں کا اندوختہ گھر کے اندر ہی کھونا شروع ہو جائے تو انسان بوکھلا جاتا ہے۔ سا ری زندگی ان چیزوں کو خریدنے، سنگوانے اور برتنے میں گزر گئی۔ تن چوئی کی سرخ رضائیاں اورتانبے کی دیغیں، کندن کے بالے اور مگر، ماتھا پٹی، کوئی چیز نہیں مل کے دے رہی۔

چابیوں والی زنجیر ہی مل جاتی تو کھڑکیاں دروازے مقفل کر دیتی۔ کسی طور اس دھند سے توخلاصی ہوتی۔ اب اس دھند میں دیواروں پہ لگی روغنی تصویریں دھندلانے لگی ہیں کتوبوں کے ریک، دھاگے سوزن کاری سے بنی پھولوں اور تتلیوں کی تصویریں۔ بس ذرا سی دیر میں یہ بھی غائب ہو جائیں گی۔ حالانکہ ان کے لئے میں نے کہاں کہاں کے اسفار کیے؟ کن کن دیسوں سے ان کو سمیٹ کر لائی اور اب یہ بھی کھو رہی ہیں۔

دروازہ بھیڑتی ہوں، بھڑ جاتا ہے۔ پھر ایک ایک کر کے ساری کھڑکیاں بندکرتی ہوں، بند ہو جاتی ہیں۔ رخنوں اور درزوں کو روئی کے پھاہوں سے بھر دیتی ہوں۔ سارے گھر کی بتیاں روشن کی جاتی ہیں اور اس اہتمام سے ہوتا یہ ہے کہ دھند ذرا لطیف ہو جاتی ہے۔ تب وہ مجھے پھر نظر آ تا ہے۔

اب کی بار وہ کمرے سے باہر میرے رو بہ رو کھڑا ہے۔ ایک بے ڈھب سی شکل، وہ مجھ سے کوئی سوال نہیں کرتا۔ میں اسے غور سے دیکھتی ہوں تب مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ میری کھوئی جانے والی چیزوں کے پیچھے یہ ہی ہے۔ وہ سب چیزیں جو اتنے برسوں میں، اتنے گھربدلنے کے بعد بھی اپنے اپنے ٹھئیوں پہ موجود تھیں۔ ان سب کو جگہ سے بے جگہ کرنے والا یہ ہی تھا۔

اس کے کرتے کی جیب ایک طرف کو بھاری ہو کر لٹک رہی تھی۔ ہو نہ ہو، چابیوں کا گچھا اسی جیب میں ہو گا اور یہ سب کھڑکیاں، روشندان، در، دروازے، جنہیں میں نے بڑے بڑے ہضمی قفل لگا کر بندکر رکھا تھا، اسی نے کھولے تھے۔ جب باہر اتنی دھند ہو اور سب دروازے پاٹوں پاٹ کھول دیے جائیں تو پھر کسی بھی شے کے کھوئے جانے پہ حیرت کیسی؟

اس کی طرف دیکھتے ہوئے مجھے اچانک یاد آ یا کہ میری تین موتی کی نتھ بھی گم ہے۔ پھر مجھے یاد آ گیا کہ وہ کہاں رکھی ہے۔ ذہن پہ سے سارے جالے غائب ہو گئے۔ وہ تو وہیں تھی میری سنگھارمیز کی دراز میں۔ پچھلے بیس برسوں سے اور آ ج بھی وہیں تھی، اسی ٹشو پیپر میں لپٹی جس میں پہلے روز اتار کے رکھی تھی۔ دو سبز اور ایک سرخ موتی اس میں اسی طرح موجود تھے اور سونے کی باریک سی زنجیر، جس سے تین پتی کے پھول لٹک رہے تھے۔ نتھ کے موتی ٹھنڈے تھے اور زرد دھات کی یہ بالی سرخ مخمل پہ ایک تھکی ہوئی لڑکی کی طرح ایسے نیم دراز تھی کہ ذرا سی آہٹ پہ سمٹ کر سیدھی ہو کر بیٹھ جائے گی۔ مجھے اس کے ملنے سے بہت سکون ملا۔ اب ساری کھوئی ہوئی چیزیں مل جائیں گی۔

مگر اس کے لئے ضروری تھا کہ میں کہانی کو صفر سے آ گے نہ بڑھنے دیتی۔ کہانی پہلے ہی بہت بڑھ چکی تھی۔ ’ سوئے ہوئے محل ‘ کے گرد کھڑے کانٹوں کے بے ہنگم جنگل کی طرح کہانی پھیل چکی تھی۔ صفر سے آگے بڑھ چکی تھی۔

میں نے آئینے کو اپنے آنچل سے صاف کیا اور ایک بڑے سے صفر کی طرح میں اپنے مقابل تھی، صفر، جس کی کوئی قیمت نہیں جو نہ جمع ہوتا ہے نہ منفی، نہ ہی تقسیم، صرف ضرب کھاتا ہے اور سب صفر کر دیتا ہے۔ یہ ہی صفر جب کسی عدد کے ساتھ آ جاتا ہے تو اس عدد کی قیمت بڑھا جاتا ہے لیکن صرف اس عدد کی قیمت، خود تو صفر یہ صفر ہی ہے۔ میں نے خود کو آنکھیں سکیڑ کر دیکھا۔ صفر سے آگے کی سب کہانیاں، تباہی اور بربادی کی کہانیاں ہیں۔ میں اتنے برسوں سے اسی لئے کہانی نہیں لکھ رہی کہ میں صفر پہ رکی رہنا چاہتی ہوں۔

اگلی کہانیوں کے کردار، مجھے خوفزدہ کرتے ہیں۔ میرا برسوں کا اندوختہ بے چین کرتے ہیں۔ مجھے ان کرداروں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ میری دنیا صفر پہ ختم ہو جاتی ہے۔

آ ئینے کے سامنے سے ہٹنے اور اس تک پہنچنے میں مجھے چندلحظے ہی لگے ہوں گے اسی کے باوجود وہ چھلاوے کی طرح اپنی جگہ سے اٹھ کے دروازے تک پہنچ چکا تھا اور اس سے پہلے کہ میں اس کی جیب سے چابیوں کا گچھا نکالتی، وہ دروازہ کھول کے آ سمان سے زمین تک پھیلی دھند میں غائب ہو چکا تھا مجھے لگا کسی نے میرا کلیجہ انتڑیوں سمیت نکال کر جسم سے باہر پھینک دیا ہو۔

خوف کے مارے میں اپنی جگہ پہ کیل دی گئی۔ صفر سے آ گے کی کہانی کا ایک کردار، میرے گھر کی سب چابیاں لے کر بے غل وغش چھائی ہوئی اس دھندمیں کہیں بھاگا پھر رہا ہے اور دھند مجھے چاروں طرف سے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے ایک نئی کہانی بننے کے لئے، مگر میں فیصلہ کر چکی ہوں کہ صفر سے آ گے کوئی کہانی نہیں جائے گی۔

مجھے خوب اچھی طرح یاد ہے کہ باورچی خانے کی کس دراز میں بغدہ رکھا ہے، میں بغدہ اٹھاتی ہوں اور دھند کے اس غلاف میں دیوانہ وار اس کے پیچھے دوڑتی ہوں۔ آ نکھوں سے پانی بہہ رہا ہے اور کچھ نظر نہیں آ رہا، لیکن مجھے اسے ڈھونڈھنا ہے۔ کہانی کو اب رکنا ہو گا!

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).