سعودی عرب کے اقتدار کی پرانی بساط کے نئے کھلاڑی


یہ پندرہ اگست 1962 کی رات کی بات ہے جب سعودی عرب کے طلال بن عبدالعزیز السعود کے محل میں اچانک سعودی پولیس اورسیکیورٹی کے اہلکار وں نے گھس کر تلاشی لینا شروع کر دیا۔ طلال پر الزام تھا کہ انھوں نے بطور وزیر سرکاری پیسے میں بڑے پیمانے پر خرد برد کیا ہے جس کی تحقیقات شروع کر دی گئی تھی۔ جس رات جب پولیس کا چھاپہ پڑا تو وہ ملک سے باہر تھے اس لئے ان کی گرفتاری یا ان کی طرف سے مزاحمت نہیں ہوئی مگر یہ خبر کوئی معمولی خبر نہیں تھی کیونکہ طلال بن عبدالعزیز ملک کی با اثر ترین شخصیات میں سے ایک تھے جو اگلے وقتوں میں بادشاہ بننے کے لئے بھی پر امید تھے۔

طلال بن عبدالعزیز اس واقعے کے بعد مصر میں مقیم ہوئے اور السعود کے ازلی دشمن جمال عبدال ناصر کے آنکھ کا تارا بن گے۔ طلال نے اپنے دیگر سگے او کچھ سوتیلے بھائیوں کے ساتھ ملک کر حرکة الأمراء الأحرار ( آزاد شہزادوں کی تحریک) یا فری پرنسز موؤمنٹ کا آغاز کر دیا جس کا مقصد سعودی عرب میں آئین اور قانون کی حکمرانی تھا۔ ان کی تقاریر قاہرہ کے ریڈیو سے نشر ہونے لگیں اوروہ اپنے دور میں انقلابی شہزادہ کے طور پر جانے جاتے تھے۔ شاہ فیصل نے ان کی ساری جائیداد ضبط کر لی اور ان کو سعودی شہریت سے محروم کردیا۔

اس دوران سعودی عرب کے پڑوس یمن میں جمہوریت کے حامیوں اور بادشاہت کے چاہنے والوں کے مابین تنازع کے نتیجے میں شمالی یمن کی جنگ شروع ہوگئی۔ برطانیہ اور سعودی عرب بادشاہت کے حامیوں کی مدد کر رہے تھے اور مصر اور روس جمہویرت پسندوں کے ساتھ تھے۔ سعودی عرب کے تین پائلٹ بھی طلال کی حمایت میں باغی ہوکر مصرمیں پناہ گزین ہوئے۔ مگر طلال کی تحریک زیادہ دیر نہ چل پائی کیونکہ اس کے سوتیلے اور سگے بھائیوں کو شاہ فیصل نے بھاری رقوم اور پر کشش مراعات دے کر اپنا ہمنوا بنا لیا۔ طلال کی ارمینیائی ماں نے شاہ فیصل سے طلال کو بھی معافی دلائی اور وہ سعودی عرب واپس آگئے۔

طلال نے اپنی یہ تحریک اچانک شروع نہیں کی تھی اس کے پیچھے ان کے والد شاہ عبدالعزیز السعود کی موت کے بعد اقتدار کی منتقلی کے لئے بھائیوں میں کشمکش کی ایک نئی کہانی کا آغاز تھا جو اہل عرب کا خاصہ ہے۔ عبدالعزیز کی موت کے بعد ان کے بڑے بیٹے سعود کو باپ کی خواہش کے مطابق بادشاہ بنا لیا گیا اور اس کے بعد عمر میں سب سے بڑے بیٹے فیصل کو بادشاہ بنایا جانا تھا۔ مگر سعود بن عبدالعزیز نے بجائے اپنے سے چھوٹے بھائی فیصل کو اقتدار منتقل کرنے کے اپنے بیٹے کو ولی عہد بنانے کا ارادہ کر لیا جس پرسعود کی غیر موجودگی میں ولی عہد فیصل نے اس کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ چونکہ طلال سعود کی لابی میں شمار ہوتے تھے اس لئے فیصل کے دور میں زیر عتاب رہے۔

طلال او ر اس کے آزاد شہزادوں کی تحریک کے دیگر ارکان سمجھتے تھے کہ شاہ عبدالعزیز کی موت کے بعد اس کے بیٹوں میں اقتدار کی کشمکش رہے گی جو سعودی مملکت کو اندر سے کمزور کردے گی۔ ان کا یہ بھی استدلال تھا کہ بھائیوں کے بعد دوسری نسل یعنی کس بھائی کے بیٹوں کو یہ اقتدار منتقل ہو اس کا فیصلہ ہونا اور زیادہ مشکل ہوجائے گا اور السعود میں خانہ جنگی ہوجائے گی جس کا آغاز سعود اور فیصل کے بیچ میں اقتدار کے لئے جھگڑے سے ہوچکا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اس مسئلے کا ایک آئینی حل نکال لیا جائے۔

عراق پر صدام حسین کے قبضے کے دنوں میں31 جنوری 1992 کو سعودی عرب میں اس وقت کے بادشاہ فہد نے ایک بنیادی قانون کی شاہی فرمان کے ذریعے منظوری دی جس کے مطابق ولی عہد کی نامزدگی بادشاہ کی مرضی قرار پائی جو اس پہلے کے متفقہ اصول عمر کے لحاظ سے سب سے بڑے بھائی کے استحقاق سے بالکل مختلف ہے۔ اقتدار کی کشمکش ایک پھر اس وقت شروع ہوئی جب شاہ فہد سے اقتدار منتقل ہونا تھا۔ تمام تر اختلافات کے باوجود شاہ عبداللہ کو ولی عہد نامزد کرکے شاہ فہد کے بعد بادشاہ بنا دیا جس کے ولی عہد سلطان بن عبدالعزیز مقرر ہوئے۔

شاہ عبداللہ کے دور میں ہی ولی عہد سلطان بن عبدالعزیز بیمارر پڑ گئے اور امور مملکت انجام دہی سے معزور ہوئے تو شاہ عبداللہ نے ایک ہیئة البیعة یا مجلس بیعت قائم کی جس میں عبدالعزیز کے 34 بیٹوں اور ان کی نرینہ اولادوں کو یکساں طور پر نمائندگی دی گئی۔ اس مجلس کے دائرہ اختیار میں ایک نائب ولی عہد مقرر کرنے کے علاوہ خود ولی عہد کے لئے عمر کے علاوہ دیگر اہلیت کے اوصاف دیکھنا اور مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنا بھی شامل تھا۔ 2011 میں اسی مجلس کے ذریعے ایک نائب ولی عہد کا عہدہ متعارف کروا دیا گیا جس کا مقصد علیل سلطان بن عبدالعزیز کی جگہ اس کے بھائی نائف بن عبدالعزیز کو نامزد کرنا تھا۔

طلال بن عبدالعزیز نے ایک دفعہ پھر نائف بن عبدا العزیز کو نائب ولی عہد نامزد کرنے کے فیصلے کے خلاف آواز بلند کی اور احتجاجاً اس مجلس سے استعفیٰ دے دیا۔ سلطان اور نائف دونوں اس دوران بیمار ہوئے اور تخت نشینی سے پہلے ہی وفات پا گئے۔ معاملہ مجلس بیعت میں اٹھایا گیا تو ولی عہد کے لئے 34 میں سے 31 ارکان نے شاہ سلمان کی حمایت کی۔ شاہ عبداللہ کے بعد بادشاہ بنتے ہی شاہ سلمان نے سب سے پہلے اپنے سوتیلے بھائی مقرن کو ولی عہد کے عہدے سے فارغ کرکے ان کی جگہ اپنے سگے بھائی نائف کے بیٹے محمد بن نائف کو ولی عہد اور اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد مقرر کیا۔ اب کی بار طلال کے بیٹے الولید اور عبداللہ کے بیٹے مطعب نے سلمان کے اس اقدام کی مخالفت کی۔

چار نومبر 2017 کو سنیچر کے دن طلال بن عبدالعزیز کا بیٹا الولید اپنے باپ کی طرح خوش قسمت ثابت نہیں ہوا کیونکہ وہ جدہ میں میں موجود ہونے کی وجہ سے سرکاری اہلکاروں کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا۔ دنیا بھر میں اپنی دولت اورشاہانہ طرز زندگی کے لئے مشہور کھرب پتی الولید بن طلال کو سابقہ شاہ عبداللہ کے بیٹے مطعب اور کچھ اور کاروباری اور اعلیٰ ترین سرکاری عہدیداروں کے ساتھ جدہ کے ایک ہوٹل میں نظر بند کردیا گیا۔ ان پر سرکاری پیسے میں خرد برد اور کرپشن کا الزام ہے۔ ایک شاہی فرمان کے ذریعے سعودی عرب کے بادشاہ سلمان نے اپنے 32 سالہ بیٹے ولی عہد محمد بن سلمان کو گرفتار شدگان پر مقدمہ چلانے، ان کی جائداد کی ضبطی سمیت لامحدود اختیارات دے دیےہیں۔

1962 کے نصف صدی بعد بھی سعودی عرب کے انتقال اقتدار کی بساط وہی ہے مگر اب کردار بدل گئے ہیں۔ اس وقت عبدالعزیز کی مختلف بیویوں سے ان کے بیٹوں کے درمیان کشمکش تھی جن میں ان کی با اثر بیوی حصہ سدیری اور ان کی ارمینائی بیوی کے بیٹے نمایا ں تھے۔ گو کہ عبدالعزیز کے سات بیٹے اب بھی بقید حیات ہیں مگر جدہ کے تخت کے لئے عبدالعزیز کی دوسری نسل میدان میں ہے جو زیادہ توانا اور طاقتور ہے۔ اس بار جنگ اس بات کی ہے کہ تخت نشینی ایک بھائی سے دوسرے بھائی کو ہوگی یا ایک باپ سے اس کے بیٹے کو۔ بھائیوں میں تو اقتدار کی منتقلی کا ایک اصول پر اتفاق تھا مگر باپ سے بیٹے کو اقتدار کی منتقلی پر کسی متفقہ اصول کی عدم موجود گی نے ایک دفعہ پھر نیام سے تلواریں نکلوادی ہیں۔

شاہ فیصل کے اپنے بھائی سعود کو معزول کرتے وقت بھی یمن میں جنگ شروع ہو گئی تھی جس میں ایک طرف سعودی عرب کیساتھ برطانیہ دوسری طرف روس اور مصر تھے۔ آج بھی یمن کی جنگ چل رہی ہے مگر اب سعودی عرب کے ساتھ امریکہ اور دوسری طرف ایران اور روس ہیں۔ شاہ فیصل نے فلسطین کے مسئلے کو عربوں اور مسلمانوں کی ہمدردی اور حمایت کے لئے استعمال کیا اب سلمان اور اس کا بیٹا اسرائیل کے ساتھ مل کر لبنان کو قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں۔ شاہ فیصل نے مسلمانوں کی طاقت کو یکجا کرکے تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اب سلمان اور اس کا بیٹا امریکہ اور اس کے سفید فارم صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کےیہودی داماد پر انحصار کر رہے ہیں۔

ایک بڑا فرق جو شاہ فیصل کے اقتدار پر قبضے کے ایک صدی بعد آیا ہے وہ السعود کی دولت کی انبار کا ہے۔ اب عبدالعزیز کے خاندان کی مجموعی دولت کا اندازہ چودہ کھرب ڈالر لگایا جاتا ہے جس میں سے ایک ایک فرد کے پاس ذاتی طور پر 1960 کے سعودی عرب کے مجموعی خزانے جتنی دولت ہے۔ 1962 میں طلال اکیلا سعودی عرب میں اصلاحات کے لئے اپنے کچھ سگے اور سوتیلے بھائیوں کے ساتھ کھڑا تھا اب السعود میں سلمان کے اپنے سگے بھائیوں کی اولادیں بھی ان کے فیصلے میں ساتھ نہیں ہیں۔ اس وقت صرف ایک مصر سعودی عرب کی مخالفت میں تھا اب ایران، قطر، روس، اعراق سمیت دنیا کے کئی ممالک سعودی عرب کے مخالف ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آج سے پچاس سال پہلے سعودی عرب کے حالات کبھی دنیا کے سامنے نہیں آتے تھے صرف طلال قاہرہ کی ریڈیو سے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا مگر اب سوشل میڈیا کے زمانے میں دنیا کو حالات سے بے خبر رکھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ آنے والے دنوں میں سب سے بڑی خبر سلمان بن عبدالعزیز کی وفات کی ہوگی جب بادشاہ مر گیا کے نعرے کے ساتھ مرنے والے بادشاہ کو صحرا کی ایک نامعلوم قبر میں دفن کیا جائے گا اور بادشاہ زندہ باد کا نعرہ لگا کر اس کے جانشین کی تاج پوشی ہوگی۔ یہ امر یقینی ہے کہ مرنے والا بادشاہ تو سلمان بن عبدالعزیز ہوگا مگر دیکھنا یہ ہے کہ زندہ باد کون ہوتا ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 279 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan