ریڈ لپ اسٹک صرف تم پر جچتی ہے۔ ۔ ۔


ایک تلخ واقعے کو یاد کرتے ہوئے پچاس سالہ بشری نے بتایا کہ والد کی اچانک وفات نے جب ہمارے گھر میں چولہے کو ٹھنڈا کردیا تو محض چودہ برس کی عمر میں انہیں فشریز میں نوکری کرنا پڑی وہ منہ اندھیرے اپنی والدہ اور بڑی بہن کے ساتھ شہر کے دوسرے کونے میں جھینگوں کی صفائی کے لئے جایا کرتی تھیں۔ سرد کمرے میں ہاتھ برف کی طرح جم جاتے تھے لیکن اپنے اوپر پڑنے والی مردوں کی ہوس زدہ نظریں ان کے جسم کے رونگھٹے کھڑے کردیتا تھا۔ ایک بار نوجوان سپر وائزر ان کی والدہ کے پاس چل کر آیا اور پوچھا کہ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ اپنے اخراجات محدود کرلیں اور اپنی اس بیٹی کو نوکری پر نہ لائیں؟ سپر وائزر نے مستقبل میں کسی بڑی مصیبت سے بچنے کا اشارہ دیا تو اگلے روز ماں نے بیٹی کو نوکری پر جانے سے منع کردیا۔ بشری کا کہنا ہے کہ جب ایک تنخواہ کم ہوئی تو گھر کے مسائل جو، جو ں کے توں تھے وہ اور بڑھتے دکھائی دیے لیکن اس کے بعد گھر میں سلائی کڑھائی کر کے آمدنی کا ذریعہ بنالیا گیا۔

بشری کے نزدیک اب دور بدل چکا ہے اب خواتین پڑھ لکھ کر زمانے میں مردوں کے شانہ بشانہ قدم ملا کر چل رہی ہیں اب کوئی مرد پڑھی لکھی عورت کی جانب آنکھ اٹھا کر اس لئے نہیں دیکھ سکتا کہ وہ عورت چپ نہیں رہے گی۔ کیا بشری کا یہ سوچنا درست ہے؟ کیا پاکستان میں آج پڑھی لکھی عورت اتنی ہی مضبوط ہے جتنا وہ سوچتی ہے؟ لیکن افسوس کے ساتھ مجھے بشری سے اختلاف کرنا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ عورت جب کام کر نے کی غرض سے باہر قدم رکھتی ہے تو وہ اس بات کے لئے تیار ہوتی ہے کہ اب اسے اس سب کچھ کا سامنا کرنا ہوگا جو چہار دیواری میں نہیں کرنا پڑا۔ اب چاہے وہ مجبوری میں نکلے یا شوق میں، جھیلنا اسے یکساں ہی ہے ہاں یہ الگ بات ہے کہ اس کی نوعیت ضرور مختلف ہوسکتی ہے۔ فیکٹری میں پیکنگ کرنے والی لڑکی اور کسی اچھے ادارے میں اہم پوزیشن پر قدم جمائے پڑھی لکھی عورت بھی ان تمام مسئلوں کا سامنا ضرور کرتی ہے جو اسے کبھی نہ کبھی اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ عورت ہونے کے سبب اسے یہ سب سننا پڑا، اس کا سامنا کرنا پڑا اور وہ کچھ نہیں کرسکی کہیں اسے اپنی زبان خود مصلحتاً بند رکھنی پڑی تو کہیں اسے اس کے لئے مجبور کیا گیا۔

پاکستان کے ایک معتبر اور بڑے ادارے کی خاتون صحافی نے اپنا ایک تجربہ کچھ یوں بتایا کہ میں بطور رپورٹر روزمرہ کی روٹین رپورٹنگ سے تنگ آچکی تھی، موسم، بازار میں قیمتوں کے عدم توازن، کسی کتاب کی رونمائی یا فیشن شو کی رپورٹنگ کر کے مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں کچھ بھی نیا نہیں کر رہی سو میں نے کوشش شروع کی کہ میں کسی ایسی بیٹ پر کام کروں جو اہم ہو اور اس میں میرا نام بن سکے، ان دنوں میں نے اپنے چند سینئرز سے مدد طلب کرتے ہوئے سیاست اور دفاع کے شعبے میں کام کا آغاز کیا انتھک محنت اور لگن کے سبب مجھے اس بیٹ میں پہنچان ملنے لگی لیکن پھر میں نے یہ سننا شروع کیا کہ میں نے یہ سب ایک مرد ساتھی رپورٹر کے سبب حاصل کیا ہے۔ اس میں میری کوئی محنت شامل نہیں۔ یہ سننا میرے لئے یقینا کسی شاک سے کم نہ تھا۔ لیکن کچھ عرصے کی کھوج کے بعد یہ معلوم ہوا کہ جس صحافی نے اہم بیٹ پر کام کرنے کی رہنمائی فرمائی تھی اور میری کاوش کو سراہا تھا اسی نے میرے خلاف اپنے حلقہ احباب میں طرح طرح کی باتیں پھیلائیں۔ میرے باز پرس کرنے پر اس نے مجھ سے معافی مانگی لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد میرے بارے میں پہلے سے زیادہ منفی باتیں پھیلنے لگیں کہ میں ترقی محض اس بنیاد پر کر رہی ہوں کہ میرا تعلق اپنے باسز کے ساتھ مضبوط ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میں جہاں بھی کام کرتی مجھے اپنے متعلق طرح طرح کی باتیں سننے کو ملتی جس سے میرے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں کم ہونے لگیں اور بالاخر میں نے وہ ادارہ چھوڑ کر دوسرے ادارے میں نوکری شروع کردی جہاں اب میں مطمئن ہوں۔

پاکستان کے میڈیا ہاوسز میں خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق کیا قوانین موجود ہیں؟ اور اگر ایسی کوئی شکایت آجائے تو اس کا ازالہ کیسے کیا جاتا ہے؟ میرا یہ سوال انگریزی اخبار سے اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والی ایک ایسی صحافی سے تھا جو اب صحافت میں لگ بھگ بیس برس کا عرصہ گزار چکی تھیں۔ چائے کا گھونٹ بھرنے کے بعد انھوں نے جواب دیا، یہ صرف باتیں ہیں حقائق اس کے برعکس ہیں۔ میں ایک ایسے ادارے میں کام کر رہی ہوں جہاں باقاعدہ طور پر ایک ایسا شعبہ موجود ہے جو خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف شکایتوں کے ازالے کے لئے کام کرتا ہے ماضی میں، میں خود وہاں شکایات لے کر جاچکی ہوں لیکن وہاں سے مجھے تسلی اور مستقبل میں متعلقہ شخص کے خلاف سخت کارروائی کی امید دلا کر بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد متعلقہ شخص کی جانب سے میرے لئے ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ میں اس ڈیپارٹمنٹ کو چھوڑ کر واپس پرنٹ میں آگئی۔

ایک واقعہ میرے سامنے پیش آیا جس پر مجھے اندازہ ہوا کہ ادارے چاہے اپنی ساکھ کے اعتبار سے کتنے ہی مضبوط کیوں نہ ہوں لیکن اگر وہاں خواتین کام کے دوران سینئر ساتھیوں کے ہاتھوں ہراساں ہورہی ہوں تو اس ادارے کی ساکھ کا اچھا ہونا کوئی فائدہ نہیں رکھتا۔ سینٹرل ڈیسک پر کام کرنے والی ایک ٹرینی پروڈیوسر کو کچھ دنوں سے فیس بک میسنجر پر ایک اینکر جو اسپورٹس کے حوالے سے شہرت رکھتا تھا بات چیت کر رہا تھا۔ اس لڑکی کے ذہن میں یہ بات تھی کہ جو اس سے مخاطب ہے وہ اس ادارے میں شروع سے ہے، عمر اور تجربے میں بھی کہیں زیادہ میچور ہے وہ لڑکی اس ادارے میں آنے سے قبل ان حضرت سے متاثر بھی تھی اور ان کی فالوور بھی۔

لیکن بات چیت بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس لڑکی کو محسوس ہوا کہ وہ موصوف اب اس لڑکی سے کچھ ایسی باتیں کرنے لگے ہیں جو انتہائی غیر مناسب ہیں۔ کئی بار ان حضرت نے اسے پھیکے رنگ کے کپڑے پہننے پر ٹوکا ایک بار کہا کہ تم پر سرخ لپ اسٹک غضب ڈھاتی ہے روز لگایا کرو اور پھر ایک دن کہا کہ تم اتنے ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہن کر آجاتی ہو کہ مجھے ابھی تک یہ سمجھ نہیں آرہی کہ تمہارا فگر ہے کیا؟ تم اتنی خوبصورت ہو اور کم عمر بھی اپنے آپ کو گروم کرو۔ میں آج رات گیارہ بجے کے بعد تمہیں کال کروں گا کیونکہ تمہیں بتانا ضروری ہے کہ تم خود پر کس طرح توجہ دو۔ اس میسج کا اثر یہ پڑا کہ وہ لڑکی لیڈیز واش روم میں آئی اور رونے لگی۔ میں وہاں موجود تھی اور اس لڑکی سے واقف تھی تھوڑی دیر بعد اس نے مجھے یہ سب بتایا اور میسینجر پر آنے والے پیغامات بھی دکھائے۔ میں نے اسے پہلا مشورہ ہراسمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں شکایت کا دیا جس پر اس کا جواب آیا کہ میری جاب کو چھ ماہ ہوئے ہیں اور یہ جناب جس پوزیشن میں ہیں کیا آپ کو لگتا ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی؟ اس کا جواب میرے پاس نہیں تھا کچھ روز بعد اس لڑکی نے بتایا کہ اس نے اس اینکر کو سوشل میڈیا سمیت آفس کے کمیونیکیٹر تک پر بلاک کردیا لیکن جب بھی اس شخص سے اس کا سامنا ہونے کا امکان ہوتا تو وہ بریک لے کر اپنی جگہ چھوڑ دیتی تھی۔

”عکس“ کے ایک سروے کے مطابق پاکستانی میڈیا ہاوسز میں کام کرنے والی خواتین کا تناسب نکالا جائے تو وہ 1عشاریہ 8 فیصد ہے۔ سینٹر فار ایکسیلینس فار جرنلزم میں اسی برس ہونے والی نیشنل میڈیا کانفرنس کے ایک سیشن میں نجی چینل کے لئے پشاور میں کام کرنے والی خاتون بیورو چیف فرزانہ علی نے بتایا کہ جب وہ ایک ٹاک شو کے لئے خاتون اینکر کے طور پر کام کر رہی تھیں تو ان کو ایک صاحب نے کہا کہ اس سیٹ پر آپ کو کیوں بٹھایا گیا؟ کیونکہ یو آر ناٹ ہاٹ۔ جس پر انھوں نے جواب دیا میں صحافی ہوں گرما گرم چائے کا کپ نہیں۔ میڈیا میں کام کرنے والی خواتین ہر طرح سے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی مسئلے کا شکار بنتی ضرور ہیں چاہے وہ فیلڈ میں کام کرنے والی کوئی خاتون رپورٹر ہو یا پھر آفس میں کام کرنے والی عورت۔ معروف صحافی قطرینہ حسین اس کی ایک مثال ہیں جو عام انتخابات میں کوریج کے دوران جنسی ہراسیت کا شکار ہوئیں جس کا اثر کئی ماہ ان پر رہا۔ فیلڈ میں کام کر نے والی خواتین اکثر بد نظمی کے سبب یا سیاسی جماعتوں کی ریلیاں اور جلسوں کی کوریض کے دوران ہراسمنٹ کا شکار ہوتی ہیں لیکن جو سلوک قطرینہ کے ساتھ ہوا وہ ایک بدترین مثال ہے۔

بات یہی تمام نہیں ہوتی در حقیقت یہ مسئلہ صرف میڈیا ہاوسز کا نہیں بلکہ ہر جگہ کا ہے۔ خواتین چاہیں پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کریں یا بس اسٹاپ پر کھڑی ہوں، بازار خریداری کے لئے جائیں یا کسی تعلیمی ادارے سے وابستہ ہو روز بروز ہراساں کرنے کے واقعات کا بڑھنا اور ان کا زور پکڑنا یہ ثابت کر رہا ہے کہ اس مسئلے کے خلاف کوئی سخت قانون موجود نہیں۔ قانون ہو بھی تو اس کا اطلاق نہیں۔ اداروں میں بھی اگر ایسی شکایات آئیں تو اس کا ازالہ موئثر انداز میں نہیں کیا جاتا اور اگر کیا جائے تو کبھی کبھار ایسے مشروط طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے جو مناسب نہیں۔ 2014 میں ایک نیوز چینل میں خاتون صحافی نے اپنے ساتھی کی جانب سے ہراساںکیے جانے پر ثبوتوں اور گواہوں کے ساتھ شکایت داخل کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ خاتون کو تسلی دی گئی کہ جس شخص نے انہیں ہراساں کیا ہے اسے نوکری سے فارغ کردیا جائے گا لیکن پھر اگلے روز درمیان میں ثالثی کے طور پر کام کرنے والے شخص نے خاتون رپورٹر کو مطلع کیا کہ انہیں معلوم ہوا ہے کہ اگر وہ شخص نوکری سے فارغ کیا گیا تو وہ آپ کو باہر نقصان پہنچا سکتا ہے اس کی ایک ہی صورت ہے کہ آپ اس کے خلاف کمپلین رکھئے لیکن نوکری سے برخاست نہ کروائیں اس صورت میں اسے پابند کیا جائے گا کہ وہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ بالاخر دباؤ میں کروائے جانے والا فیصلہ یہی ہوا دونوں نے ایک ہی ادارے اور شعبے میں کام کیا بلکہ کچھ ماہ کے بعد ہراساں کرنے والے شخص کو ترقی بھی دیدی گئی۔

آج بھی ملازمت پیشہ خواتین اپنے سینئرز اور ساتھیوں کے ہاتھوں ہراساں ہورہی ہیں جو یہ ثابت کرتا ہے کہ 2010 میں پاس ہونے والا وہ قانون جو ورک پلیس میں ہراسمینٹ کے حوالے سے بنایا گیا تھا محض اداروں کے لئے وہی حیثیت رکھتا ہے جو جنرل ضیاءالحق کے نزدیک آئین رکھتا تھا۔ لیکن اب بھی بشری جیسی سیدھی سادہ گھریلو خاتون کا یہ ماننا ہے کہ بدلتے وقت کے ساتھ اب آج کی عور ت کو ہراساں نہیں کیا جاسکتا کاش ایسا ممکن ہوجائے جیسا بشری سوچتی ہے۔ لیکن شاید اس کو ہونے میں کئی دہائیاں ابھی درکار ہیں۔
( شناخت ظاہر نہ کرنے کے لئے نام نہیں لکھے گئے)

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar