’اگر کہیں تو چھ ماہ سے کم وقت نہ کر لیں‘


شہزاد ملک۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد۔

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف پانچویں بار احتساب عدالت میں پیش ہوئے تو اُن کے اور ان کی بیٹی اور داماد کے لیے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
تینوں ملزمان ایک ہی گاڑی میں بیٹھ کر عدالت پہنچے اور یہ دوسرا موقع ہے کہ کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر بھی اسی گاڑی میں سوار ہوئے جس گاڑی میں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز بیٹھی تھیں۔

بدھ کو کمرہ عدالت میں پہنچنے کے بعد تینوں ملزمان پہلی مرتبہ اکٹھے احتساب عدالت کے جج کی کرسی کے سامنے لگی ہوئی نشستوں پر بیٹھے اور پھر کچھ دیر کے بعد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر اپنی پرانی نشست یعنی آخری نشستوں میں سے ایک پر بیٹھ گئے۔

کمرہ عدالت میں نواز شریف بظاہر مطمئن بیٹھے تھے اور وہ اخبار کا مطالعہ کرتے رہے لیکن کبھی کبھار ان کے چہرے پر سنجیدگی طاری ہو جاتی جب وہ پاناما لیکس سے متعلق سپریم کورٹ کی طرف سے نظرثانی کی درخواست پر دیے گئے تفصیلی فیصلے کو پڑھتے جاتے۔

احتساب عدالت کے جج نے جب اُن کی طرف سے ان تینوں ریفرنس کو یکجا کرنے سے متعلق دائر کی گئی درخواست کو مسترد کیا تو نواز شریف کے چہرے پر سنجیدگی برقرار رہی۔
احتساب عدالت کے جج نے جب سابق وزیر اعظم کو تینوں ریفرنس میں فرد جرم عائد کرنے کے لیے روسٹم پر طلب کیا تو اس وقت ان کے چہرے پر سنجیدگی پہلے کی نسبت زیادہ تھی۔
نواز شریف نے جج سے گلہ کیا کہ اُن کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور اُنھیں فیئر ٹرائل کا موقع نہیں مل رہا۔ سابق وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ سیاسی طور پر بنائے گئے مقدمات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔

ایک موقع پر اُنھوں نے عدالت کے جج سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ نے ان چار ریفرنس کے فیصلے کے لیے چھ ماہ کا وقت دے رکھا ہے اور اس طرح ہر ایک ریفرنس کو ڈیڑھ ماہ کا وقت دیا جائے گا اور کیا اس عرصے میں ان ریفرنس کا فیصلہ ہو جائے گا؟

جس پر احتساب عدالت کے جج کا کہنا تھا کہ ریفرنس ایک ساتھ شروع ہوئے تو اس مدت میں ان ریفرنس کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث جو روسٹم پر اپنے موکل کے ساتھ کھڑے تھے اُن کا بھی جج محمد بشیر کے ساتھ مکالمہ ہوا۔
سابق وزیر اعظم کے وکیل کا کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 10 اے فری اینڈ فیئر ٹرائیل کو تحفظ دیتا ہے جبکہ ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہو رہا۔

اس پر فاضل عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین کا مذکورہ آرٹیکل جہاں منصفانہ ٹرائل کے بارے میں کہتا ہے وہیں یہ بھی کہتا ہے کہ مقدمات کو فوری طور پر نمٹایا جائے۔
احتساب عدالت کے جج نے سابق وزیر اعظم کے وکیل سے کہا کہ ’اگر کہیں تو چھ ماہ سے کم وقت نہ کر لیں‘۔

خواجہ حارث نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں یہ پہلے ریفرنس ہوں گے جن کا فیصلہ چھ ماہ میں کیا جائے گا جبکہ ماضی میں نیب کے کیسز پر کئی کئی سال لگ جاتے تھے۔

فرد جرم عائد کرنے سے پہلے عدالت نے نواز شریف سے پوچھا کہ کیا اُنھیں چارج شیٹ مل گئی ہے جس کا اُنھوں نے سر ہلا کر جواب دیا۔ فرد جرم عائد ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم سے چارج شیٹ پر دستخط بھی لیے گئے۔

سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں موجود وفاقی وزرا تینوں ریفرنس کو یکجا کرنے سے متعلق درخواست کے مسترد ہونے پر کافی برہم دکھائی دیے اور وہ پاناما لیکس کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست پر عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے نظر ائے۔
اُن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے ’جج صاحبان ایک منتخب وزیر اعظم کو گارڈ فادر اور سسیلین مافیا قرار دیں گے‘ تو ماتحت عدالتوں سے ایسے ہی فیصلوں کی توقع کی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp