اقبال ڈے کی چھٹی نہیں ہوگی


دو ہزار بارہ میں شاید آخری بار حکومت پاکستان نے علامہ اقبال ڈے پر عام تعطیل کی تھی۔ اس سے پہلے اس دن پر تعطیل ہوا کرتی تھی نجانے پھر کیا قیامت آن پڑی کہ اس دن چھٹی نہ کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ شاید اس سے معیشت پر کچھ برا اثر پڑتا تھا۔ 2012 کے بعد جب نومبر کا مہینہ آتا ہے تو لوگ سوچنے لگتے ہیں کہ اس سال تعطیل ہوگی کہ نہیں حالانکہ پاکستانی قوم کا دل چھٹیوں سے نہیں بھرتا۔ ایک کے ساتھ دوسری خود کر لیتے ہیں۔ مگر نجانے اس دن کے لئے وہ کیوں اتنے پریشانی کا شکار ہوتے ہیں شاید اس کی یہ وجہ ہے کہ وہ شاعر مشرق کو یاد کرتے ہوں مگر میں نہیں مانتا کہ میرے قوم کے اکثریتی لوگوں کو اقبال کے دو سے زیادہ اشعار بھی یاد ہوں۔ البتہ یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ یہ چھٹی عرصہ دراز سے ہوتی آرہی ہے اور اس کی انہیں عادت پڑگئی ہو۔

پچھلے سال وفاق نے چھٹی نہیں کی تو خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کے کرتا دھرتاؤں نے عوام کو کنفیوز کرتے ہوئے آخری وقت میں چھٹی کا اعلان کردیا۔ شاید یہ وفاق سے بغض کانتیجہ تھا۔ اس سال بھی نومبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی یہ بحث ہورہی ہے کہ اس دفعہ وفاق اور صوبائی حکومت اس کا اعلان کرے گی کہ نہیں۔ سوشل میڈیا پر فیک خبریں گزشتہ کئی روز سے چل رہی ہیں کہ ”چھٹی ہوگی، وفاق نے وہ نوٹیفیکیشن ریسٹور کردیا ہے“ جبکہ کچھ چینلز نے خبر چلائی کہ ”چھٹی نہیں ہوگی“ جس کے بارے میں سب مخمصے کا شکار ہیں۔

باقی سننے میی آیا ہے کہ خیبر پختونخوا کے عوام نے گزشتہ سال اپنے گھروں میں اپنے پیاروں کے ساتھ دن منا کر علامہ اقبال کے افکاروں کا پرچار کیاتھا اور اس سال پھر انہی افکاروں کو زندہ رکھنے کے لئے عوام کایہی مطالبہ ہے کہ انہیں چھٹی دی جائےکیونکہ نومبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی انہوں نے یہ سوچ بنالی ہے کہ اس دفعہ پھروہ اقبال کے افکاروں کوزندہ رکھیں گے مگر حکومت کی جانب سے ابھی کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا مگر پھر بھی بہت سے لوگ حکومت کو اقبال دشمنی سے تشبیح دے رہے ہیں۔ کوئی اسے نظریہ پاکستان کی بے توقیری قرارد ے رہا ہے تو کوئی کہہ رہاہے کہ جو لوگ اپنے ہیرو کو بھلادیتے ہیں وہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتے، امریکہ، کینیڈ اور یورپ کا سالانہ کیلنڈر دیکھیں تو اس میں مقامی، قومی اور مذہبی چھٹیوں کی بھرمار نظر آئے گی۔ ویلنٹائن ڈے، مدر ڈے، فادر ڈے، لیبر ڈے، ہالووین، وکٹوریہ ڈے، ایسٹر اور کرسمس سمیت نیو ایئر کے تہواروں کو خالصتاً کمرشل بنیادوں پر استوار کر دیا گیا ہے۔

جب کبھی معیشت سُستی کا شکار ہوتی ہے کسی نہ کسی تہوار کی آمد سے اس معاشی گھوڑے میں جان پڑ جاتی ہے۔ یہ ساری باتیں ٹھیک بھی ہیں اور نہیں بھی مگر مجھے کچھ اور نظر آرہا ہے شاید میں غلط ہوں یاشاید ٹھیک مگر وفاق اور صوبائی حکومت کے درمیان اس حوالے سے ایک چپلقلش ہے اور یہ بھی اس کی ایک کڑی ہے اب اپ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ کیسے تو عرض ہے کہ علامہ اقبال کے وفات پانے والے مرحوم بیٹے جسٹس جاوید اقبال اور ان کی اولاد ولید اقبال اور دیگر پی ٹی آئی کے سرکردہ رکن ہیں اوریہی وہ وجہ ہے جس کے باعث نواز شریف کی حکومت نے بغض کی بنا پر یہ چھٹی منسوخ کردی کیونکہ اگر دیکھا جائے تو کتنی حکومتوں آئیں اور گئیں کسی بھی حکومت نے ایسا فیصلہ نہیں کیا اور آج ہماری حکومتیں اور حکمران عدمِ برداشت کی ان حدوں کو پہنچ چکے ہیں کہ خود اسی قائداعظم اور علامہ اقبال کو مسلم لیگ کا جانشین تصور کرتے ہیں اور تصورِ پاکستان کے خالق شاعر مشرق کی اولاد کو ان کی سیاسی وابستگی پر یہ سزا دیتے ہیں کہ انہیں تاریخ کے صفحات سے ڈھونڈنا مشکل ہو جائے گا مگر حکومت کے لئے اقبال ڈے کی چھٹی دردِ زہ بن گئی۔ سارا کاروبار اسی ایک دن ہونا ہے۔ اقبال نہ ہوتے تو پاکستان بھی نہ بنتا۔ پاکستان نہ بنتا توآج چھٹی کی منسوخی کا فیصلہ کرنے والے زیادہ سے زیادہ کسی اینٹوں کے بھٹے پر منشی ہوتے یا لوہے کی بھٹی دہکائے بیٹھے ہوتے۔

یورپی اپنے ہیروز کو یاد رکھتے ہیں۔ تاریخ اٹھا کردیکھیں مگر شومئی قسمت؟ ہمارے بڑوں کے افکار تو ہم نے بھلادیئے تھے مگر اب انہیں اور طریقوں سے بھی ہم نے بھلادیا ہے کہ ان کا دن بھی ہم نہیں مناسکتے آج سکولوں میں فن فیئر کی چھٹی، دفتروں میں لیبر ڈے کی چھٹی، بینکوں میں بینک ہالی ڈے کی چھٹی، مذہبی اور نیم مسلکی تہواروں کی چھٹی، جمہوریت کی آمد کی خوشی میں چھٹی مگر تصورِ پاکستان کے خالق کو اپنے ذہنوں میں بسائے رکھنے اور ان کی یاد کو دلوں میں سجائے رکھنے اور اس دن کو ایک بوجھ سمجھ کر اس کو منانے کی ممانعت، اے اقبال! تیرے خواب کا یہ حشر بھی ہم نے دیکھنا تھا۔ موجودہ حکمرانوں کے ہوتے ہوئے ہم شاید جمہوریت کی معراج تو پالیں مگر ہم اپنے اسلاف کی اقدار کو یقیناًبھول چکے ہوں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).