بے روز گاری سے فائدہ اُٹھائیں یہ دن پھر نہیں آئیں گے


نا حق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی
جو چاہیں سو آپ کریں ہم کو تو عبث بد نام کیا

اپنے شوق کی نوکری، اور شوق کا پیسہ نصیب والوں کو ملتا ہے۔ اس لیے جب ہم جاگے ہی ڈور ہلانے سے ہیں اور ڈور کے ہلتے ہی ہم ابدی نیند بھی سوئیں گے، تو یہ چھوٹی چھوٹی باتیں باتیں سوچ کر پریشان مت ہوں۔ نوکری کریں تو جی بھر کے محنت کریں۔ پاکستان میں احمق باس کی چاپلوسی کیے بغیر آپ ترقی نہیں کر سکتے، لیکن اگر آپ کو اس کی شکل سے نفرت ہے تب آپ اپنی اتنی مرضی چلا سکتے ہیں کہ اسے دیکھ کر زیرِ لب لاحول پڑھ لیں۔ جب آپ پر ذہنی دباؤ حد سے بڑھنے لگے تب آپ فیصلہ کر لیں کہ آپ کو یہ نوکری چھوڑ دینی ہے۔ اس کے لیے پہلا کام آپ یہ کریں کہ استعفیٰ لکھ کر اپنی جیب میں ڈال لیں۔

یقین کریں یہ جیب میں رکھا ہوا استعفیٰ آپ کی طاقت ہے، اعتماد ہے۔ اب آپ باس کی خوشامدی مکھیوں سے ڈرتے نہیں، آپ کو کو ئی خوف نہیں کہ آپ کی بات صاحب تک پہنچا دی جا ئے گی۔ ہمارے ہاں عام طور پر باس کی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ وہ ادارے کے چند ملا زمین کو اپنے ساتھ فری کر لیتا ہے، اور وہ نکمے ملازم باس کے ساتھ چائے پینے کو اپنی معراج جان کر اسے ادارے کے ملازمین کے بارے میں سچی جھوٹی رپورٹس دیتے ہیں، اسی رپورٹ کی بنیاد پر باس ملازمین کی سالانہ انکریکمنٹ طے کرتا ہے اور ان کی کارکردگی کی رپورٹ تیار کرتا ہے۔ کاہل لوگ ان حالات میں جلتے کڑھتے رہنے کے باوجود نوکری چھوڑنے کے فیصلے سے ڈرتے ہیں۔ اور کچھ گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے ایک مہینہ بھی بے روزگاری کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

وہ دل ہی دل میں آفس کے معاملات اور سازشوں سے پریشان رہتے ہیں اپنے دوستوں سے تو شاید وہ یہ باتیں شئیر کرتے ہوں لیکن گھر میں کسی کو ہوا تک لگنے نہیں دیتے، لیکن ان کے رویے سے چڑچڑاہٹ اور بے زاری صاف جھلکتی ہے جس سے گھر کا ماحول کشیدہ رہتا ہے اور گھر والے بھی اُن کے رویئے سے شاکی رہتے ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ اپنے گھر کے کسی فرد اگر بیوی ہے تو اس سے اور اگر غیر شادی شدہ ہیں تو ماں یا بہن سے آفس کی باتیں ضرور شئیر کریں۔ گھر والوں پر کسی بھی و قت نوکری چھوڑنے کے فیصلے کو بھی واضح کر دیں۔ اس طرح وہ اپنے خرچوں کو کفائت میں لے آئیں گے۔

کیوں کہ آپ فیصلہ کر چکے ہیں اب آپ ادھر ادھر نوکریاں بھی دیکھنا شروع کر دیں کیوں کہ کسی وقت بھی آپ کا ستعفیٰ باس کی میز پر ہو سکتا ہے۔ اور وہ مبا رک دن آہی گیا جس دن آفس کے کولیگ آپ کو رشک سے دیکھ رہے ہیں، اس روز آپ کے محسوسات ایک حکمران کے سے ہیں۔ آپ خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کر رہے ہیں۔ باس خدا حافظ کہنے کے دوران آپ کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ باس اور اس کی مکھیوں کو برادشت نہیں ہو رہی۔ اگر آپ کو نوکری مل گئی ہے تب بھی اور نہیں ملی تب بھی، آپ نوکری چھوڑنے کی وجہ نہ بتا ئیں صرف یہ کہیں ’’ میں کچھ دن آرام کرنا چا ہتا ہوں سوچ رہا ہوں فیملی کے ساتھ اسلام آباد ہو آؤ پھر سوچوں گا کہ کیا کرنا ہے ‘‘ آپ کا یہ جملہ نا صرف آفس میں برداشت کی گئی ذہنی کوفت کو ختم کر دے گا بلکہ باس اور اس کی مکھیوں کے لیے بھی سمِ قاتل ہو گا۔

آپ بے روز گار ہو گئے مبا رک ہو۔ ایسے دن نعمت ہوتے ہیں یہ دن زندگی میں بہت کم نصیب ہو تے ہیں۔ ان دنوں سے بھر پور فائدہ اٹھائیں۔ اب آپ خود اپنے نوکر ہیں خود کو خود کے تابع کیجیے۔ ہاں مگر دوستوں اور رشتہ داروں میں جانے سے گریز کیجیے، اور کوشش کیجیے کہ انہیں اس بات کی خبر نہ ہی ہو تو اچھا ہے، کیوں کہ یہ ایک ہی سوال پو چھ کر ’’کیوں بھئی کیا کر رہے ہو آج کل‘‘ یا نوکریوں کے انتخاب میں آپ کو احمقانہ مشورے دے کر آپ کی ساری بے روز گا ری کی خوشی کو ملیا میٹ کر سکتے ہیں۔ اور آپ کے گھر والوں کو بھی آئے دن فون کر کے ’’ نوکری ملی ‘‘ کا راگ الاپ کر کے انہیں ذہنی کوفت میں مبتلا کر سکتے ہیں۔

اب نوکری ڈھونڈنے کے ساتھ ساتھ خود پر توجہ دیجیے، غور و فکر کیجیے۔ گانے گائیے اور سنیے۔ کتابیں پڑھیے اور لکھنے کی کوشش کیجیے، گھر میں بچے ہیں تو ان کے ساتھ مستی کیجیے۔ فلمیں دیکھیے، اور سوچیے کہ آپ میں ایسی کون سی پوشیدہ صلاحیت ہے جس کا آپ کو علم نہیں، مصوری، شاعری، نثر نگاری، گائکی، کھا نا پکا نا ارے بھا ئی کچھ نا کچھ ضرور نکلے گا۔ نا نا یہ مطلب نہیں کہ پوشیدہ صلاحیت کو دریافت کر تے کرتے غمِ روزگارسے آزاد ہو جا ئیں۔ یہ مشاغل تو روزگار کے ساتھ بھی کیے جا سکتے ہیں کسی تخلیقی صلاحیت کے دریافت ہونے اور اسے استعمال میں لانے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہو تا ہے کہ مسائل کی تلخی ذہن کو پراگندہ نہیں کرتی، ایک روحانی تسکین آپ کو مسرور رکھتی ہے۔ پھر آپ داخلی فکر سے کم اور خارجی مسائل سے ذیادہ پریشان ہو تے ہیں۔ اورپھر آپ ان بڑے لوگوں کے مقلد بن جا تے ہیں جنہوں نے دنیا کو بے معنیٰ سمجھنے کے باوجود دنیا کو اتنے بڑے معنیٰ د یئے۔

مردہ بکری سے جو دے دہر کے ہونے کی مثال
نفی در نفی ہے جس ذات کے اثبات کا حال
جس کی تنہائی نے دیکھی ہے وہ بے معنویت
لا بہ لا گزرا جو ہر منظرِ دنیا سے کمال
دہرِ بے معنیٰ سے پیدا کیے معنیٰ جس نے
بہرِ اثباتِ الہ پہلے کہا لا جس نے

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).