اوکٹاویو پاز اور دہریت کی اقسام


اوکٹاویو پاز ایک شاعر‘ ادیب اور فلسفی تھے جو 1914 میں میکسیکو میں پیدا ہوئے اور 1998 میں فوت ہوگئے۔ انہوں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی اور مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے۔ ایک زمانے میں وہ کئی ممالک میں میکسیکو کے سفیر بھی رہے۔ انہیں 1990 میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔ خدا اور وقت کے بارے میں ان کے فلسفیانہ خیالات اور نظریات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ دہریت کے بارے میں ان کے ایک مضمون کا ترجمہ ’ہم سب‘ کے قارئین کی خدمت میں حاضر ہے۔

                                                ٭٭٭     ٭٭٭

خدا کی ’موت‘ کے بارے میں لکھنا کوئی آسان کام نہیں ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہم نصف صدی سے زیادہ عرصے سے اس موت کا جشن منا رہے ہیں اور دہریت آہستہ آہستہ ایک عالمی عمل بن چکی ہے۔ اس کے باوجود یہ کسی مضمون کا پسندیدہ عنوان نہیں ہو سکتا۔ اس سے پہلے کہ ہم خدا کی موت کے موضوع پر سنجیدگی سے گفتگو کریں ہمیں دہریوں کی مختلف قسموں میں تمیز کرنی ہوگی۔

دہریوں کا ایک گروہ وہ ہے جس نے خدا کی موت کا تو یقین کر لیا لیکن دیگر طاقتوں (منطق‘ ترقی‘ تاریخ) کو خدا کا جانشین بنا لیا۔

دہریوں کا دوسرا گروہ وہ ہے جو کہتا ہے کہ خدا کی موت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اس کا وجود ہی نہیں تھا اور جو چیز کبھی زندہ نہ ہو اس کی موت کیسے واقع ہو سکتی ہے۔

بعض دہریوں کے لیے دہریت بھی ایمان کا درجہ رکھتی ہے۔ بعض دہریے خدا کی موت کے اعلان کے بعد یوں سبک محسوس کرتے ہیں جیسے ان کے کندھوں سے ایک بھاری بوجھ اتر گیا ہو البتہ بعض کا خیال ہے کہ خدا کے بغیر دنیا ہلکی ہو گئی لیکن انسان بھاری۔

octavio paz

عالمی مذاہب کی تاریخ میں خدا کی موت کا باب نہایت دلچسپ ہے۔ یہ باب انسانی شعور کے ارتقا کے ایک مرحلے کی کہانی بیان کرتا ہے۔ یہ مرحلہ بذاتِ خود ایک مذہبی مرحلہ ہے لیکن خاص قسم کا مذہبی مرحلہ اور اس مرحلے سے گزرنے کے لیے ایک خاص قسم کے ایمان کی ضرورت ہے۔ یہ مرحلہ ارتقا کے باقی مراحل کی طرح عارضی بھی ہے اور ہر مذہبی مرحلے کی طرح اہم اور پرمعنی بھی۔ انسان جو ایک ان دیکھے دھاگے کے ساتھ مابعد الطبیعات طاقتوں سے جڑا ہوا تھا جس لمحے وہ دھاگہ ٹوٹا اس لمحے انسان بلندیوں سے پستیوں کی طرف گرنا شروع ہوا۔ وہ لمحہ اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ اس لمحے میں دہریہ خدا کے نہ موجود ہونے کو موجود ہونے کی طرح ابدی طور پر قبول کرتا ہے۔

مثبت مذہبی لمحے میں انسان غیر مقدس وقت کی حد سے گزر کر مقدس وقت کے در میں داخل ہوتا ہے‘نئی زندگی پاتا ہے اور اوپر کی طرف سفر شروع کرتا ہے۔ منفی مذہبی لمحے میں انسان مقدس وقت کی حد سے گزر کر غیر مقدس وقت کی حد میں داخل ہو جاتا ہے اور نیچے کی طرف سفر شروع کرتا ہے۔ اس سفر میں انسان جہنم کا ہی نہیں حیاتِ نو کا بھی انکار کرتا ہے۔

نیٹشے کے فلسفے کا دیوانہ دہریہ جب چیخ کر یہ کہتا ہے کہ ‘میں خدا کی تلاش میں ہوں‘ تو وہ جانتا ہے کہ اس کی محنت رائیگاں جائے گی کیونکہ اس کا ایمان ہے کہ ‘ہم سب نے مل کر اس کو قتل کر دیا ہے۔ ہم سب اس کے قاتل ہیں‘۔ وہ دیوانہ ایک عجب اذیت میں مبتلا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ خدا مر چکا ہے کیونکہ ہم نے اسے مار دیا ہے لیکن وہ اپنی بات پر یقین نہیں رکھتا۔ چنانچہ وہ ہنستا بھی ہے اور روتا بھی ہے۔ وہ قہقہے بھی لگاتا ہے اور آنسو بھی بہاتا ہے۔ خدا کی موت نے اسے اپنی ذات سے جدا کر دیا ہے۔ اسے اپنے لیے بیگانہ کر دیا ہے۔ وہ دیوانہ اب خود خدا بننا چاہتا ہے کیونکہ وہ خدا کی تلاش میں ہے۔ دیوانے کے لیے خدا کی موت کا لمحہ ہئی اس کی حیاتِ نو کا لمحہ ہے۔

اس دیوانے کے مقابلے میں وہ دہریہ جو خدا کے عدم پر ایمان لے آیا ہے اس شخص سے مختلف نہیں جو خدا کے وجود پر ایمان لے آیا ہے لیکن دہریے کا ایمان سطحی‘ مصنوعی اور کھوکھلا ہے۔ اس کا ایمان ایک منفی ایمان ہے جسے نہ کوئی ثابت کر سکتا ہے اور نہ کوئی اس کی تردید کر سکتا ہے۔ اس کا ایمان ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتا۔ یہ عجیب و غریب قسم کا ایمان ہے۔ نیٹشے نے جب خدا کی موت کا اعلان کیا تھا تو وہ ان مسائل سے بخوبی واقف تھا۔ وہ جانتا تھا کہ انسان کے لیے خدا کی موت کو قبول کرنے کے لیے اس کا سوپر مین ہونا ضروری ہے۔ صرف ایک سوپر مین ہی صحیح معنوں میں دہریہ ہو سکتا ہے کیونکہ وہ ہی یہ کھیل کھیل سکتا ہے اور اگر وہ انسان سوپرمین نہیں ہے تو وہ پاگل پن کا شکار ہو جائے گا۔

نیٹشے نے 1882 میں خدا کی موت کا اعلان کیا تھا اور ابھی تک سوپرمین پیدا نہیں ہوا۔

دیوانہ جانتا ہے کہ اگر خدا مر گیا تو انسانوں کو خدائوں کی طرح رہنا ہوگا۔ اپنی صفات کو چھوڑ کر خدائی صفات اختیار کرنا ہوں گی اور خدائی کھیل کھیلنا ہوگا۔ خدا کی موت کے بعد انسان کو اپنی فطرت اور خدائی فطرت کے درمیان جوا کھیلنا ہوگا۔ اسے اپنی ذات کو ہی نہیں ساری کائنات کو خدا کی طرح ایک کھیل سمجھنا ہوگا۔ نیٹشے کے خیال میں ساری کائنات ایک تخلیقی کھیل سے زیادہ کچھ نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ زندگی میں فن اہم ہے سچائی نہیں۔ انسان کام کرتے ہیں اور سیکھتے ہیں۔ خدا کھیلتے ہیں اور تخلیق کرتے ہیں۔

Nietzsche

وہ دنیائیں جو خدا کے ہاتھ میں تھیں اب انسان کے ہاتھ میں آ گئی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ انسان جو زمین سے جڑا ہوا ہے کیا آسمانوں پر اڑ سکتا ہے؟ انسان کو آج تک اپنے تنزل کی کہانی یاد ہے جب وہ ناچنا شروع کرتا ہے تو اس کے اعصاب پر خوف سوار ہونے لگتا ہے۔

نیٹشے کے فلسفے کا موضوع خدا کی موت نہیں تھا بلکہ اس کا قتل تھا اور اس جرم کے ہم سب اجتماعی طور پر مرتکب ہوتے ہیں۔ ہم خدا کی موت کو ایک تاریخی حقیقت قرار دے سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ وہ بڑھاپے یا بیماری یا فطری موت سے مر گیا۔ اس حقیقت کی تفہیم کے لیے ہمیں مٖغرب میں پنپنے والے خیالات اور نظریات کی طرف نگاہ اٹھانی ہوگی۔ ایک خدا کے تصور اور MONOTHEISM نے مصر میں جنم لیا تھا اور پھر وہ تصور دنیا کے مختلف حصوں میں پروان چڑھتا رہا اور مختلف لوگوں اور قوموں نے اسے اپنا لیا۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اگرچہ یونان اور روم کے اصحابِ فکر نے زندگی کے بارے میں مختلف نظریات اور فلسفے پیش کیے تھے لیکن ایک خدا کا تصور اور ایک خالق کا تصور ان کے لیے اجنبی تھا۔

یہودیت اور عیسائیت کے خدا اور دوسری قوموں کے مابعد الطبیعات فلسفوں میں کئی بنیادی فرق اور تضادات ہیں۔ دوسری قومیں جن روحانی طاقتوں پر ایمان لاتی ہیں ان میں ایک خدا اور ایک خالق کے تصور کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ان کا ایمان یا دہریت اور ATHEISM کا اور بہت سے خدائوں اور POLYTHEISM کا ایمان ہے۔ ہمارے MONOTHEISM کے فلسفے کو منطق کا وائرس اور فلسفے کی بیماری لاحق ہو گئے اور وقت نے اسے مار ڈالا۔ خدا کی موت صرف عیسائی معاشرے میں ہی آ سکتی تھی کیونکہ وہ معاشرہ اپنے ایمان میں کمزور تھا۔ ہم نے اسے فلسفے کے ہتھیاروں سے کچل ڈالا۔ اس قسم کے تنہا خدا کو صرف عیسائیوں کی قوم ہی قتل کر سکتی تھی۔

میرے خیال میں اسلام کے ایک خدا کے تصور کو بھی انہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بھی ایک خدا کے ایمان کی عمارت فلسفے کی بنیادوں پو استوار نہ کر سکے۔ غزالی نے اس مسئلے پر تفصیل سے لکھا ہے۔ مسلمانوں میں بھی خدا اور فلسفے کی جنگ موت تک لڑی گئی لیکن اس جنگ میں خدا جیت گیا۔ اگر نیٹشے مسلمان ہوتا تو لکھتا ’ فلسفہ مر گیا ہے۔ ہم نے اسے مل کر قتل کر دیا ہے‘۔

ہندوئوں میں ایک خدا کا تصور ہی نہیں ہے۔ ان کے ہاں کوئی ایک ہستی کوئی ایک آسمانی طاقت نہیں ہے جو ساری کائنات کو پیدا کرنے اور تباہ کرنے کی ذمیہ دار ہو۔ مختلف ذمہ داریاں مختلف خدائوں کو سونپی گئی ہیں۔ انہوں نے نہ تو ایک خدا کا تصور اپنایا اور نہ ہی ان کا ان مسائل سے پالا پڑا جن سے ایک خدا پر ایمان رکھنے والوں کو نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔

ہندوئوں کی روحانیت اپنی ذات کی گہرائیوں میں اترنے پر زور دیتی ہے۔ اسے دنیا کے کاروبار سے زیادہ سروکار نہیں۔ ان کی نگاہ میں دنیا ایک سراب ہے اور وقت بھی ایک سراب ہے چنانچہ وہ ایسے خالق پر ایمان نہیں لانا چاہتے جو سراب کا خالق ہو۔

Borges and Octavio Paz

مغرب کی دہریت کے تصور کے مسائل وقت کے تصور سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگر وقت ایک حقیقت ہے تو خدا کا وجود ‘جس نے وقت تخلیق کیا ہے‘ وقت سے پہلے موجود ہونا چاہیے۔ نیٹشے نے اس تضاد کو حل ابدی واپسی میں تلاش کرنے کی کوشش کی اور وقت کے سفر کو دائروں کا سفر قرار دیا۔ لیکن یہ دائروں کے سفر کا تصور ایک اور تضاد پیدا کرتا ہے کیونکہ اس حوالے سے خدا کی موت کا لمحہ اس کی حیاتِ نو کا لمحہ بھی قرار پا سکتا ہے۔ NERVAL کہتا ہے ’ وہ خدا جن کی موت کا تم ماتم کر رہے ہو وہ ایک دن دوبارہ لوٹ کر آئیں گے‘

دائمی واپسی اور سفر کا تصور خدا کے تصور کو وقت کا مرہونِ منت کر دیتا ہے۔ اسے ختم نہیں کرتا۔ ہمیں خدا سے نہیں وقت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے اور اس سلسلے میں صرف بدھ ازم کامیاب ہوا ہے۔ جس نے وقت کے دائروں کے سفر کے عقدے حل کئے اور اس سے نجات حاصل کی۔

ہمارے لیے خدا کے تصور نے اس لیے مسائل پیدا کئے ہیں کیونکہ ہم نے اسے وقت سے پہلے مردہ تصور کر لیا ہے۔ عین ممکن ہے دہریت کا مسئلہ ایک پوزیشن کا ‘ایک رشتے کا مسئلہ ہو۔ خدا اور انسان کے رشتے کا مسئلہ نہیں بلکہ خدا اور وقت کے رشتے کا مسئلہ ہے۔

اس مسئلے کا ایک حل یہ ہو سکتا ہے کہ ہم تصور کریں کہ خدا ازل سے پہلے پیدا ہونے کی بجائے ابد کے بعد پیدا ہوگا اور وقت کا مقصد سوپرمین پیدا کرنا نہیں بلکہ خدا پیدا کرنا ہے۔ اس تصور کے مطابق خدا اس وقت اپنی پیدائش کے مراحل سے گزر رہا ہے اور جب اس کی پیدائش کا وقت آئے گا وہ پیدا ہو جائے گا۔ اس حوالے سے خدا کی حیثیت خالق کی نہیں، مخلوق کی ہو جاتی ہے۔ ایسا خدا وقت کی کوکھ میں پرورش پا رہا ہے اور وہ وقت کی موت کے وقت پیدا ہوگا۔

خدا کا یہ تصور ہمارے بہت سے داخلی تضادات کی گتھیاں سلجھا دیتا ہے۔ اس تصور سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خدا نہ تو مرا ہے اور نہ ہی اسے کسی نے قتل کیا ہے۔ اس کا وقت سے اٹوٹ رشتہ ہے اور وہ اس وقت پیدا ہوگا جب وقت مر جائے گا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے خدا کو قتل کیا ہے کیا وہ وقت کو بھی قتل کر سکیں گے یا نہیں ؟

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail