سیاسی چندے سے ریٹائرڈ مجرا


ہمارا بہت سا وقت یہ جاننے میں صرف ہوتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟ ہمیں فکر رہتی ہے کہ فلاں سیاسی رہنما کی نجی زندگی کی تفصیلات کیا ہیں؟ فلاں ریاستی منصب دار کے گھریلو حالات کیسے ہیں؟ کون کس کا رشتے دار ہے؟ کون زمانہ طالب علمی میں کس کے ساتھ کس ہوسٹل میں مقیم رہا؟ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ہمارے ملک میں جسے ترقی کے زینے پر قدم دھرنے کی دھن ہو، وہ چھڑیوں کا تھیلا اٹھائے گالف کورس پہنچ جاتا ہے۔ دلچسپ امر یہ کہ مہذب دنیا میں لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے قومی رہنما آج کل کون سی کتاب پڑھ رہے ہیں تاکہ ان کے ذہنی رجحانات کا اندازہ ہو سکے۔ ہمیں اپنی قسمت جاننے کے لئے کتابوں سے مغز پاشی نہیں کرنا پڑتی کیونکہ ہمارے ملک میں وائس چانسلر کے منصب جلیلہ کے امیدوار بڑے صاحب کے دفتر میں بینچ پر بیٹھے انٹرویو کا انتظار کرتے ہیں۔ جنرل ضیاالحق کے زمانے میں ہمارے ادب سے لے کر صحافت تک ایک نوع کی پارسائی اتر آئی تھی۔ اب نہیں لیتے پری رو زلف لہرانے کا نام…. صدر فاروق لغاری کے خانگی ماحول میں ایک خاص مذہبی رجحان کی نشان دہی ہوئی تو دارالحکومت میں شام کی پارٹیاں منعقد کرنے والی معزز خواتین نے یکایک ذکر الہٰی کی مجالس سجا لیں۔ یہ حرم سرا کی نفسیات ہے۔

سوچنا چاہیے کہ ملک میں دستور موجود ہے۔ تمام آئینی اور ریاستی ادارے دستور کی پاسداری کے پابند ہیں اور اس کا اعلان بھی کرتے ہیں۔ دستور نام ہی ایسے بندوبست کا ہے جس میں حکومت بنانے، چلانے اور تبدیل کرنے کے قواعد و ضوابط بیان کر دیے جاتے ہیں۔ ایسے دستور کی موجودگی میں اگر سارا ملک دم سادھے ناگہانی خبر کے انتظار میں رہتا ہو تو جان لینا چاہیے کہ ملک اقتدار کی دوئی کے بحران سے دوچار ہے۔ دستور کی کتاب میں کچھ بھی لکھا ہو، ہمارے تحت الشعور میں یہ خوف جاگزیں ہے کہ دستور تو محض ایک خوشنما نقاب ہے جس کے اندر کسی گل رخ کے دل کش خدوخال مستور نہیں بلکہ سازش، جبر اور مفاد کا خوفناک ڈھانچہ دھرا ہے۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں بھوت اور دیگر غیر مرئی مخلوقات اپنے پارہ اختیار کے لئے رسہ کشی کرتی ہیں۔ کوئی بیس برس پہلے ہماری صحافت میں شام کے اخبارات کا بہت چرچا تھا۔ چیختی چنگاڑتی سرخیوں سے ہر شام آفات ناگہانی کی نوید دی جاتی تھی اور المیہ یہ کہ یہ منحوس خبریں ایک جاں گسل تواتر سے درست نکلتی تھیں۔ اب ٹیلی ویژن پر عزاداری کے دن ہیں۔ ہر روز ممکنہ قومی حادثات کی ایک فہرست مرتب کی جاتی ہے اور اسے نہایت رواں زبان میں (چرب زبانی کہنا منع ہے) شہریوں کے دل و دماغ پر مرتسم کر دیا جاتا ہے۔ اب معلوم ہوا کہ حبیب جالب کو ہماری شاموں کے ویران ہونے پر ملال کیوں تھا۔ جن بدنصیبوں کی ہر شام نوحہ گری میں گزرتی ہو، ان کی صبح میں بھیروں کے سر سنائی نہیں دیتے، جنازوں کی المیہ پکار کانوں میں زہر گھولتی ہے۔

اس وقت احتساب کا سین پارٹ چل رہا ہے۔ بظاہر ساری سیاسی قیادت کٹہرے میں کھڑی ہے۔ ایسا پیچیدہ مقدمہ ہے کہ خود انصاف آزمائش میں ہے۔ آئینی طور پر عام انتخابات اگلے برس منعقد ہونا ہیں۔ احتساب کی یہ شوراشوری معروف جمہوری عمل سے مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں ہے۔ کیوں؟ اس کا جواب درویش جیسا بزدل صحافی نہیں دے سکتا۔ ایک امتحان یہ ہے کہ خطے میں ہر طرف تیز رفتار تبدیلیاں جنم لے رہی ہیں۔ افغانستان اور ایران کو ایک طرف رکھیے، بحران تو لبنان تک آن پہنچا۔ برادر عرب ملک میں کرپشن کا انکشاف ہوا ہے۔ اجل کے ہاتھ کوئی آ رہا ہے پروانہ، نجانے آج کی فہرست میں رقم کیا ہے…. ممکن ہی نہیں کہ ہمارے ملک پر ان تبدیلیوں کے دور رس اثرات مرتب نہ ہوں۔ عراق اور شام میں داعش کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے لیکن خدشہ ہے کہ یہ سیل بلا ادھر سے نکل کر ہمارے خطے کا رخ نہ کر لے۔ خواجہ آصف فرماتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اب منظم دہشت گردی کا کوئی نشان باقی نہیں۔ خواجہ صاحب تو صاحب حال و قال ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ 2013 کے انتخابات میں منظم دھاندلی نہیں ہوئی تھی۔ 2016 میں پانامہ کے انکشافات ہوئے تو ان میں نواز شریف صاحب کا نام ہی نہیں تھا۔ ہمارا تجربہ کہتا ہے کہ غیر منظم دھاندلی، غیر منظم دہشت گردی اور غیر منظم احتساب سے ڈرنا چاہیے۔ بحران کوئی بارہ سنگھا نہیں کہ اپنے سر پر سینگوں کا جھاڑ لئے نمودار ہو۔

ایک پہنچے ہوئے صوفی بزرگ نے وزارت عظمیٰ کے امیدواروں کی فہرست گنوائی ہے۔ کچھ تو ریکارڈ یافتہ امید وار ہیں اور کچھ نے ریٹائرمنٹ کے بعد اس دشت کی سیاحت کا قصد کیا ہے۔ مدعا ایک ہی ہے، دستور کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک عبوری بندوبست قائم کر کے عنان اقتدار ان کے لغزیدہ مگر پرعزم ہاتھوں میں دے دی جائے۔ مقصد یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ دو چار برس میں پاکستانی قوم نامی منہ زور گھوڑے کے رگ پٹھے درست بٹھائے جا سکیں گے۔ اللہ کے نیک بندے یہ نہیں سمجھتے کہ اگر کسی کو دل پر ایسا اختیار ہو کہ آپ جیسے مومی گڈے کی حنا بندی کی جا سکے تو صاحبو، نامہ بر کا اپنا بھی ایک دل ہوتا ہے۔ جو کبھی کبھی بھر آتا ہے۔ زیادہ قرین قیاس تو یہ ہے کہ مقتدر آسنوں میں دل بھر آنے کی گنجائش زیادہ ہوتی ہے۔ اگر کریا کرم کا بوجھ کسی رشک قمر کو اٹھانا ہے تو لیلیٰ کے محمل میں آپ جیسے ریٹائرڈ چہروں کو کیوں جگہ دی جائے؟ آپ کا حق دعویٰ کیا ہے؟ پاکستان تو محمد علی بوگرا، معین قریشی اور شوکت عزیز جیسے تجربات کر چکا ہے۔ ہم نے حقیقی نمائندہ سیاسی قوتوں کے مقابلے میں جعلی شجر کاری کر کے بھی دیکھ لیا۔ جس کا گلا دباو ¿، وہی آنکھیں نکالتا ہے۔

دیکھئے، ہماری قوم کا ایک جینئس ہے جو ہمارے وفاق کی بنت، ہمارے معاشرتی خدوخال، تاریخی تجربے اور معاشی حقائق سے مرتب ہوا ہے۔ ہم نے غیر نمائندہ حکومت کے تمام نمونوں کے مقابلے میں پارلیمانی جمہوریت کا انتخاب کیا ہے۔ ریاستی قوت سے جمہوری عمل کو بے بس کرنے سے قوم کا ضمیر مردہ ہو گا۔ معیشت کا امکان دم توڑ جائے گا، معاشرت کا تانا بانا بکھر جائے گا۔ سازش اور بحران کے نتیجے میں خلا پیدا ہوتا ہے، اس خلائی سفر میں نقطہ آغاز کا علم ہوتا ہے، اس کا دوسرا کنارہ معلوم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ جمہوری قوتوں کی کمزوریاں اپنی جگہ، لیکن گزشتہ سات دہائیوں میں پاکستان کی آتما کے لئے لڑائی جمہوری قوتوں ہی نے کی ہے۔ ریٹائرڈ مجرے کے لئے حقیقی جمہوری قوتیں سیاسی چندہ نہیں دیں گی۔ اور سوال تو یہ بھی ہے کہ چندہ جمع کر کے بلائی گئی مشتری خانم کس کس کو سلام کرے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).