راج کرے گا اپالوجسٹ باقی رہے نہ کو!


جن برسوں میں ہر چوتھے روز کہیں نہ کہیں سے بم دھماکے کی خبر آتی تھی، پھٹنے والوں کا سر دریافت ہوتا تھا، لواحقین سے گہرے دکھ کا اظہار کیا جاتا تھا، دہشت گردوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بیانات جاری ہوتے تھے، ان دنوں ایک جملہ بہت تواتر سے کہا جاتا تھا کہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں۔ یہ فلاں ملک کی سازش ہے، یہ ڈھمکانی لابی ہے، جو کچھ بھی سانحہ ہوتا اس کے بارے میں عام شہری یہ بیان ایسے ترنت دیتے جیسے مکھن میں سے بال نکالا جاتا ہے۔ پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ آرمی پبلک سکول والے سانحے کے بعد جب ایک مرتبہ دشمنوں کو جان لیا گیا تو اوپر تلے فوجی آپریشن ہوئے اور ڈرون بھی چن چن کر نشانوں پہ مارے گئے۔
آج خدا کے فضل سے ہم بہت بہتر حالات میں ہیں۔ لیکن کیوں ہیں؟ اگر ہمارا وہی رویہ رہتا، ہم اسی طرح بلی کو دیکھ کے آنکھیں بند کیے رہتے، ہم سوچتے رہتے کہ گڈ طالبان کن لوگوں کو کہا جائے اور بیڈ طالبان کا خطاب کسے دیں تو روم اسی طرح دھماکوں سے پھٹتا اور جلتا رہتا اور جو کام ہم کر رہے ہوتے وہ بانسری بجانا ہوتا۔ جو لوگ سب کچھ دیکھتے ہوئے، محسوس کرتے ہوئے، ظلم کی وجہ جانتے ہوئے بھی ایک ہی راگ الاپتے رہیں، آس پاس کے ماحول کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے جان بوجھ کے اس سے آنکھیں چراتے ہوئے بات کرتے رہیں وہ اپالوجسٹ کہلاتے ہیں۔

بورے والا میں جب ایک مسیحی بچے شیرون مسیح کو مبینہ طور پہ اس لیے مارا گیا کہ اس نے عام بچوں کے گلاس سے پانی پی لیا تھا تو اس وقت بھی یہی پھڈا ہوا۔ دوسرے دن پوری کہانی بدلنے کی کوشش کی گئی۔ نہیں بھئی، سکول کے ٹیچر گواہی دے رہے ہیں کہ واقعہ ایسے نہیں ہوا تھا۔ پولیس والوں کے بیانات ہیں کہ لڑکوں کا آپسی جھگڑا تھا۔ سوشل میڈیا پہ خدائی فوجداروں کی ایک پوری مہم چلی جو صرف یہ بتانے کے لیے تھی کہ جی قتل ہوا تھا، اسی بے دردی سے ہوا تھا لیکن پانی کا گلاس وجہ نہیں تھا۔ سوال صرف یہ ہے کہ مرنے والے کی ماں بھی کیا جھوٹ بولتی تھی؟ لڑکے کا باپ سوال کرتا تھا کہ داخلے کو ابھی دو دن ہی ہوئے تھے، دو دن میں کیا ایسا آپسی جھگڑا تھا جس میں بیٹا جان سے مارا گیا؟ وہ بھی غلط تھا؟ شیری رحمان کی طرف سے پیش کیے گئے قومی اسمبلی کے توجہ دلاؤ نوٹس میں بھی یہ بات عین اسی طرح مذکور رہی۔ وہ بھی جھوٹ تھی؟ آخری خبر یہی تھی کہ مسیحی بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے طور پہ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد وہ سکول شیرون مسیح کے نام سے منسوب کریں گے۔ نہیں بدلی تو یہاں بھی اپالوجسٹس کی روش نہیں بدلی، آج بھی پوچھیں گے تو وہ آپ کو سیدھے بورے والہ بھیجیں گے کہ جائیے وہاں جائیں اور پتہ کر آئیں۔ تو یہ چیز اپالوجسٹ پن کی صحیح ڈیفینیشن ہے کہ مرنے والے کی ماں، باپ، اس کے ملک کی قومی اسمبلی اور وہاں کا وزیر قانون ایک بات کرتے ہیں اور دوسری طرف کاں چٹے کا چٹا ہے (دیکھو کوا سفید ہونا)۔

جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف ابھی حیات ہیں اور مختاراں مائی تو بے چاری جہاں ہیں جیسے ہیں کی بنیاد پر زندگی گزار ہی رہی ہیں۔ اک ذرا گردن گھما کے دیکھا جائے تو 2005 میں واشنگٹن پوسٹ کو دیا گیا پرویز مشرف صاحب کا انٹرویو اب بھی انٹرنیٹ کے پنوں پر موجود ہے۔ “آپ کو پاکستان کے حالات کو سمجھنا چاہیے۔ یہ پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ باہر جانا چاہتے ہیں یا کینیڈا کی شہریت یا ویزہ لینا چاہتے ہیں تو خود کو ’ریپ‘ کروا لیں۔ “ کیا کہنے اس انصاف کے، سبحان اللہ، ملک کا سب سے بڑا عہدیدار یہ کہتا ہے کہ خود کو ریپ کروا لیں! اس کے بعد پھر اس اپالوجسٹ پن سے رجوع بھی کیا گیا لیکن واشنگٹن پوسٹ کے پاس ریکارڈنگ موجود تھی۔ ملک میں ریپ کی خبر آئے تو کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں ہوتا ہے، سوال یہ ہے بھئی کہ ادھر کیوں ہوا؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کیوں ہوا؟ اس کا جواب کچھ نہیں ملتا، مل بھی نہیں سکتا۔ تو پھر کم از کم رویہ ہی بدل لیا جائے، وہ بھی نہیں ہو سکتا۔ چونکہ رویے نہیں بدلتے اس لیے اپالوجسٹک رجحانات نام بدل بدل کے سامنے آتے رہتے ہیں۔

ابھی دو تین دن پہلے کا واقعہ ہے۔ ویسے یہ دو تین دن، دو چار برس، پانچ چھ دس سال، یہ صرف ہماری گنتی ہوتی ہے، جس کے ساتھ ایسا کچھ بھی ہوتا ہے وہ لمحہ موجود میں کبھی جی نہیں سکتا۔ ایک ریپ وکٹم جو باہر ملک چلی گئی ہو، کسی منیب کسی مغیث کی سیالکوٹ میں رہتی ماں، کسی مشال خان کا وکیلوں کے پیچھے گھومتا باپ، کسی شیرون مسیح کے گھر والے، کوئی بچی جس کا چہرہ جلایا گیا ہو، کوئی بچہ جس کا بچپن “نصاب” کی زد میں آ گیا ہو، وہ سب ان گزرتے برسوں کی گنتی نہیں جانتے، وہ اسی اذیت میں زندگی گزارتے ہیں جو حادثے کے دن ان کا مقدر بنی تھی۔

تو ایسا ہی ایک ظلم دو تین روز پہلے ڈیرہ اسمعیل خان میں ہوا تھا۔ آٹھ لوگ ایک معصوم لڑکی کو سربازار اپنے ساتھ ایک گھنٹہ زبردستی گھماتے رہے، اس کا لباس تار تار کر دیا، بھائی کے افئیر کا بدلہ بہن کی عصمت نے چکایا۔ متاثرہ لڑکی اپنے منہ سے بیان دے رہی ہے، سب کچھ ریکارڈ پر ہے، اسی دوران ایک طرف سے شوشہ چھوڑا جاتا ہے کہ جی سارا لباس نہیں پھاڑا تھا صرف بازو کے پاس سے قمیص پھاڑی تھی۔ بازو کے پاس؟ نہ ہی یہ عدالت ہے نہ کسی سستی ویب سائیٹ پہ موجود کلک بیٹ ہے جو یہ اصطلاح زیر بحث لائی جائے اور دریافت کیا جائے کہ اس “پاس” سے کیا مراد تھی۔ جب موقع کے گواہ میڈیا کو بیان دے چکے، تو پھر یہ درفنطنی چھوڑنے کی ضرورت کیا ہے؟ ضرورت وہی ہے جو بعض اوقات گاؤں دیہات میں ظلم و جبر کی پوری پوری داستان بدل دیتی ہے۔ کیا مقامی وقائع نگار، کیا پولیس، کیا وکیل، سب کے ساتھ پیٹ جڑا ہے۔ صبح خبر کا ورژن وہ نکلتا ہے جو اصل سے قریب تر ہوتا ہے۔ شام تک گرم چائے، روٹی اور بہت سی دوسری چیزوں کی بھاپ اسے دھندلا چکی ہوتی ہے۔

وہ دھندلاہٹ شروع انہیں ضرورتوں سے ہوتی ہے اور بعد میں گوانڈھیوں کا اپالوجسٹ پن اسے طاقت بخش دیتا ہے۔ خبر پہ غور کیجیے۔ بین الاقوامی ادارے کی ہے؛ “ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لڑکی کو مکمل برہنہ نہیں کیا گیا تھا بس بازو کے قریب سے قمیض پھاڑی گئی تھی۔” حالانکہ آگے جا کے وہی خبر مزید وضاحت دے رہی ہے کہ “چودھوان سے آزاد ذرائع نے بتایا کہ ملزمان نے لڑکی کو مکمل برہنہ کیا تھا اور انھیں گاؤں کی گلیوں میں چلنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ جب معاملہ میڈیا پر آیا تو ملزمان نے علاقے کے با اثر افراد سے رابطے بھی کیے تاکہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو سکے۔” لیکن برادران اپالوجی اسی گمنام پولیس والے کے بیان پہ اڑ جائیں گے کہ جی تھوڑی سی قمیص کھینچا تانی میں پھٹ گئی تھی، باقی اتنا بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

مسئلہ ہوتا ہے، مسئلہ ہے، مسئلہ گلا پھاڑ کے چیختا ہوا موجود ہے لیکن جب تک اپنے ساتھ نہ ہو ہم اسے تک تلے لانا (دیکھنا) پسند نہیں کرتے۔ ہمیں اسی رٹ کے چکر سے باہر نکلنا ہو گا کہ یہ نہیں ہو سکتا، ہم اچھے لوگ ہیں، یہ خبریں بریک کرنے والے پاکستان کا برا چہرہ باہر دکھاتے ہیں، ہمارے یہاں اچھے کام بھی بہت سے ہوتے ہیں، “ہمارے یہاں دنیا بھر سے زیادہ چیریٹی ہوتی ہے” وغیرہ وغیرہ۔ یہ بے کار گردان نہیں چھوڑتے تو ہم انجانے میں ان بدکردار ظالموں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہوں گے۔ یہ سب جہالت اس وقت کم ہو سکتی ہے جب ظلم کو ظلم سمجھا جائے۔ واقعہ ہونے سے پہلے ہی ستے خیراں کے نعرے لگنا شروع ہو جائیں تو سمجھ لیجیے اس بار پھر کاں چٹا ہے اور راج کرے گا اپالوجسٹ، باقی رہے نہ کو!

توجہ دلاؤ نوٹس؛ اس ایک گھنٹہ خیبر پختونخواہ کی مثالی پولیس کہاں تھی؟

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain