اسلامی ریاست میری جنت گم گشتہ تھی ۔۔۔۔


میرا تعلق پاکستان کے مڈل کلاس گھرانے سے ہے۔ اگرچہ میری امی صرف میٹرک تک پڑھی ہوئی تھیں۔ مگر اُن کو تاریخ اور ادب سے خاص لگاؤ تھا۔ انگریزوں کی تاریخ کو اُنہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے نقطہ نظر سے پڑھا اور ہمیں بھی وہی نقطہ نظر بتایا۔ اردو شاعری کے کلاسیکی شاعروں کا مشہور کلام انہیں یاد تھا۔ علامہ اقبال کا کلام ،خصوصاً شکوہ اور جواب شکوہ وہ خوبصورت ترنم سے ہمیں پڑھ کر سناتیں۔ اس سے اُن نظموں کا ایک ایک لفظ ہمارے دل میں اتر جاتا۔ وہ ہمیں بتاتیں کہ اقبال کے روحانی پیر رومی ہیں۔ جن کا پیغام انسانیت کے لئے محبت اور رحم دلی ہے۔ اُنہوں نے رومی کے کچھ اشعار بھی ازبر کر رکھے تھے۔ پنجابی شاعری سے بھی بہت لگاؤ تھا۔ بلھے شاہ کی کئی نظمیں انہیں یاد تھیں۔ بلھیا کیہ جانڑاں میں کونڑ ان کی پسندیدہ نظم تھی۔

 امی کا رحجان شیعہ فرقے کے طرف کچھ زیادہ تھا۔ وہ ہمیں بھی اکثر اپنے ساتھ امام بارگاہ لے کر جاتی تھیں۔ عاشورہ کے آخری تین دن وہ باقاعدگی سے مجلس میں شرکت کرتی تھیں۔ میرا بھائی وہابی، دیوبندی فرقے سے تھوڑا سا متاثر تھا۔ ایک بار اُس نے امی کو کہا کہ اٹک شہر کی جامع مسجد میں محرم کے لیے امام مسجد نے تقریر کا انتظام کیا ہے اور اُنہیں وہاں جانا چاہیے۔ امی اور میں وہاں گئے تو امام صاحب نے زیادہ تر شہادتِ عثمانؓ پر ہی بات کی۔ اُن کی تقریر کے ختم ہونے کے بعد امی مجھے لے کر امام بارگاہ چلی گئیں۔

میری نانی نے پشاور کے سکول سے پرائمری جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی اور بہت اچھے خط لکھ لیتی تھیں۔ وہ بتاتی تھیں کہ اُن کے دادا یا پردادا نے کابل سے ہجرت کی تھی کہ اُن کو خاندانی دشمنی کی وجہ سے اپنی جان کا خطرہ تھا۔ اُن دنوں کابل کے بارے میں سنتے تھے کہ وہاں عورتیں ٹرک اور بسیں چلاتی ہیں اور یونیورسٹیوں میں پڑھتی ہیں۔ مجھے یہ سوچ کر بہت فخر محسوس ہوتا کہ اُن میں سے میری کوئی دور کی رشتہ دار بھی ہوگی۔

میرے نانا نے دیر اور مردان میں نوکری کی تھی اور ریٹائرڈ ہونے بعد اپنے گاؤں منتقل ہوگئے۔ ہم گرمی کی چھٹیوں میں وہاں جاتے۔ وہ ہمیشہ نوائے وقت اخبار پڑھتے اور ہمیں بھی پڑھنے کو دیتے۔ اُنہوں نے دو اسلامی رسالے بھی لگوا رکھے تھے۔ وہ ہمیں اُن کے پڑھنے کی بھی تلقین کرتے اور قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھنے کو کہتے جو میں اُن کو خوش کرنے کے لیے کبھی کبھار پڑھ لیتی۔

ایک کتاب جو مجھے پسند تھی وہ امام ابو حنیفہ پر لکھی کتاب تھی۔ مجھے اُس کے لکھاری کا نام یاد نہیں کیونکہ  بدقسمتی سے نانا کی وفات کے بعد میری نانی نے اُن کی ساری کتابیں اور رسالے ردی میں فروخت کر دیے تھے۔ میرا خیال ہے کہ وہ شبلی نعمانی کی لکھی ہوئی تھی۔

مجھے امام ابو حنیفہ کے فتووں نے بہت متاثر کیا تھا۔ وہ لوگوں کے مشکل سے مشکل مسائل بہت مہارت اور احسن طریقے سے اس وقت کے حالات کے مطابق حل کرتے تھے۔ اسلام کی تاریخ پر تنقید اور اظہار رائے کو غلط نہیں سمجھتے تھے مگر اُس کو وجہ بنا کر مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے کے خلاف تھے۔ اُن سے کسی نے ایک بار پوچھا کہ اُن کا جنگ ِ جمل کے بارے میں کیا خیال ہے کہ کون حق پر تھا۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ اُنہیں ان باتوں کی فکر رہتی ہے جن کے جواب اُنہیں روزِ محشر اللہ کو دینے ہیں۔ اُنہیں یقین ہے کہ یہ سوال اُن سے وہاں نہیں پوچھا جائے گا۔ حالانکہ وہ اس جنگ کے بارے میں اپنی رائے رکھتے تھے مگر اُس وقت اُنہوں نے اُسے بتانے سے گریز کیا۔ شاید ان کو یہ محسوس ہوا ہو کہ پوچھنے والے کی نیت علم حاصل کرنے کی نہیں تھی۔

انہیں رسالوں اور کتابوں میں میں نے یہ پڑھا کہ خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کو یہ فکر ہوتی تھی کہ اُن کی مملکت میں کوئی بھوکا نہ رہ جائے۔ اُنہوں نے دودھ پیتے بچوں کے وظیفے مقرر کیے تھے۔ اُن کو جب معلوم ہوا کہ کچھ مائیں بچوں کو دوسری خوراک نہیں دیتی تھیں کہ بچہ دودھ پینا نہ چھوڑ دے تو اُنہوں نے وظیفے کی عمر بڑھا دی اور دودھ پینے کی شرط ختم کر دی۔ ایک بار اُن کے پاس ایک بیوہ عورت آئی جس نے بتایا کہ اُس کے پاس ذریعہ معاش نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ نے اُس کو بیت المال سے رقم دی تاکہ وہ اپنا کاروبار شروع کر سکے۔ انہوں نے عورتوں کو کاروباری منڈیوں میں سرکاری اہلکار بھی متعین کیا۔

اُس زمانے کی مسلمان عورتیں جنگوں میں مردوں کی قیادت کرتی تھیں ‘زخمیوں کی تیمارداری کرتی تھیں اور عورتوں اور مردوں کو اسلام کی تعلیم بھی دیتی تھیں۔

تاریخ کی انہی کتابوں میں پڑھا کہ مسلمانوں نے سپین کے 700سالہ دور میں اُس زمانے کی سب سے زیادہ رواداری اور مساوات کی بنیاد پر ریاست بنائی۔ یہ سب مسلمان اپنے نبی ﷺ کی سنت پر عمل کرتے تھے۔ ہمارے نبی ﷺانسانی برابری کے علمبردار تھے ، میثاقِ مدینہ اس کا ثبوت ہے۔ رسول اللہ ﷺکے بارے میں میں نے یہ بھی پڑھا کہ اُن کا دل ایک عورت سے زیادہ نرم تھا۔ یہ درست ہے کہ ریاست کے سربراہ اور کمانڈر ان چیف ہونے کی وجہ سے اُنہوں نے جنگیں لڑیں اور اپنے زمانے کے رواج کے مطابق جنگی قیدی بھی لیے۔ مگر اُنہوں نے ہمیشہ صلح کو ترجیح دی اور اُن کو جب بھی موقع ملا ، اُنہوں نے دوسرے فریق سے صلح کے معاہدے کیے۔ اُنہوں نے اپنے تمام دشمنوں کو فتح مکہ کے دوران معاف کر دیا تھا۔ اُس دشمن کو بھی جو اُن کے پیارے چچا حضرت حمزہ کے جنگ میں شہید ہونے کے بعد اُن کا کلیجہ نکال کر چبا گئی تھی۔ اس معافی کا اعلان ا س وقت کیا جب اُن کے پاس شہر کا مکمل کنٹرول تھا۔ اُن کے اوپر ایک عورت کوڑا پھینکتی تھی ایک روز آپ ﷺکو وہ عورت نظر نہ آئی تو وہ اُس کی عیادت کو چلے گئے۔ اسی وجہ سے اُن کو رحمت المعالمین کہتے ہیں۔ سارے جہانوں کے لیے رحمت ، صرف مسلمانوں کے لیے نہیں۔

ان ساری باتوں کو پڑھ کے میں نے اسلامی سلطنت کا ایک تصور اپنے ذہن میں بنا لیا تھا۔ اسلامی سلطنت وہ ہو گی جہاں مساوات ، رواداری اور انصاف کا بول بالا ہوگا۔ جہاں ہر شہری چاہے اُس کا کوئی بھی مذہب کیوں نہ ہو، برابر کا شہری ہوگا۔ عورت اور مرد دونوں معاشرے کی تعمیر میں برابر کے حصہ دار ہونگے۔ اسلامی سلطنت کا فرض یہ ہو گا کہ وہ اپنے شہریوں کو تحفظ دے اور کمزور اور مجبور شہریوں کی ضروریات کا خیال کرے۔ چوری کی سزاکا عمل صرف اسی وقت شروع ہوگا جب ہر شہری کی ضرورت پوری ہوجائے گی۔ اسلامی ریاست میرے لیے ایک جنتِ گم گشتہ تھی جس کا حصول ہر مسلمان کا فرض ہے۔

انہی دنوں فیض احمد فیض کی شاعری سے بھی دلچسپی پیدا ہوئی۔ ان کی نظمیں، اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا اور چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی، پڑھنے سے میں ان دیکھے اور ان جانے لوگوں کے دکھوں سے آشنا ہوئی جس نے اس ریاست کاملہ کے حصول کی خواہش کو تیز تر کر دیا۔

 1970ء میں پاکستان میں الیکشن ہوئے۔ میرا اُس وقت ووٹ نہیں تھا۔ مگر میں نے اس الیکشن میں بھرپور حصہ لیا۔ ہمارے گھر میں کوئی کسی پارٹی سے منسلک نہیں تھا مگر میری ساری ہمدردیاں جماعت اسلامی کے ساتھ تھیں۔ میں نے نہ تو مولانا مودودی کی کوئی کتاب پڑھی تھی اور نہ ہی مجھے اس پارٹی کے منشور کا علم تھا مگر مجھے معلوم تھا کہ یہ جماعت ،اسلامی ریاست قائم کرے گی۔ اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا تھا مگر میرا خیال تھا کہ اسلام کے نظام کے ساتھ کسی لاحقے کی ضرورت نہیں تھی۔ مشکل یہ تھی کہ جماعتِ اسلامی لوگوں میں مقبول نہیں تھی۔ حالانکہ اُنہوں نے بھی روٹی ،کپڑا اور مکان۔۔۔ سب کچھ دیتا ہے اسلام، کا نعرہ لگایا تھا۔

میں نے محلے کی عورتوں کو جماعت اسلامی کو ووٹ دینے کے لئے قائل کرنا شروع کر دیا۔ محلے کی ایک عورت سنوّر مجھے بہت پسند کرتی تھی کہ میں اسے اُس کے بھائی کے خط پڑھ کر سناتی تھی اور اُسے خط لکھ دیتی تھی۔ سنوّر ذات کی مصلی تھی اور کسی قریبی گائوں سے روزگار کے سلسلے میں ہمارے محلے میں آباد ہوئی تھی۔ میں نے جب اُس سے بات کی تو اُس نے مجھے بتایا کہ وہ لوگ بھٹو کو ووٹ دے رہے ہیں۔ میں نے اُسے اسلامی ریاست کے فوائد بتائے تو اُس نے مجھ سے وعدہ کر لیا کہ وہ ضرور جماعت اسلامی کو ووٹ دینے کا سوچے گی۔ میں گائوں گئی تو عجائب ماسی سے ووٹ ڈالنے کی بات کی۔ عجائب ماسی تین لڑکوں کی ماں تھیں۔ اُن کے شوہر فوج میں سپاہی تھے اور بعد ازاں 1971 کی جنگ میں شہید ہوگئے تھے۔ وہ ہمارے گھر میں کام کرتی تھیں۔ اُنہوں نے مجھے صاف صاف بتایا کہ وہ بھٹو کو ووٹ دے رہی ہیں کہ بھٹو سے پہلے کبھی اس ملک میں کسی نے غریبوں کے حق میں بات نہیں کی۔

وہ کہنے لگیں کہ مولوی پہلے کہاں تھے۔ اُنہوں نے کبھی غریب کی بات کیوں نہیں کی۔ میں نے بتایا کہ پہلے کبھی الیکشن نہیں ہوئے۔ اب ان کو موقع ملا ہے۔ عجائب ماسی بولیں کہ اُنہیں معلوم ہے کہ مولوی حکومت میں آکر اُسے برقع پہنائیں گے۔ وہ پھر مجھ سے پوچھنے لگیں کہ کیا وہ برقعہ پہن کر لوگوں کے گھروں میں کام کر سکتی ہیں۔ لکڑیاں چننے جا سکتی ہیں۔ نہر پر کپڑے دھونے جا سکتی ہیں اور گرمی میں کھیتوں میں کام کرسکتی ہیں۔ میں نے کہا کہ برقعہ پہنانا اسلامی ریاست کا کام نہیں ہوگا ،وہ ریاست آپ کو بزنس کرنے کے ذرائع فراہم کرے گی۔ وہ کہنے لگیں ، (اردو ترجمہ یہ ہے) ’’غزالہ۔۔۔ میں عمر میں تم سے بڑی ہوں اور ان سب کو تم سے زیادہ جانتی ہوں۔ ان کو غریب کے مسائل کا کچھ علم نہیں اور کچھ پرواہ نہیں۔ مجھے ان سے کوئی امید نہیں ہے۔ الحمد للہ میں مسلمان ہوں اور مجھے ان کے اسلام کی ضرورت نہیں‘‘۔

مجھے عجائب ماسی پر بہت غصہ آیا اور میں نے سوچا کہ کاش وہ پڑھی لکھی ہوتیں اور وہ ساری کتابیں پڑھ سکتیں جو میں نے پڑھی ہیں تو ایک فلاحی معاشرے کے فوائد کو سمجھ پاتیں۔ البتہ میں نے اُن کے تیور دیکھتے ہوئے اُن سے مزید بحث نہیں کی۔

اس الیکشن میں بھٹو کی متوقع جیت ہوئی۔ پھر دھاندلی کا شور مچ گیا۔ حالانکہ مجھ تیرہ، چودہ سالہ بچی کو بھی علم تھا کہ بھٹو کی جیت کسی دھاندلی کا نتیجہ نہیں ۔ بھٹو نے سوشلزم کے وعدے کو نبھانے کے لئے صنعتوں کو قومیایا مگر زمین ہاریوں میں تقسیم نہیں کی۔ اسلامی سوشلزم کے اسلام کے لئے اُنہوں نے مولویوں کے ساتھ مل کر احمدیوں کو کافر قرار دیا۔ جمعہ کی چھٹی منظور کی اور شراب کی دکانوں کو بند کروایا۔ اس کے باوجود نظامِ مصطفی کی تحریک چلا دی گئی۔ مجھے یاد ہے کہ میں اٹک شہر کے بازار سے گزر رہی تھی کہ وہاں اس تحریک کا ایک بہت بڑا جلوس گزر رہا تھا۔ اُسی راستے میں بھٹو کے کچھ حامی مودودی امریکہ کا پٹھو ہے ، کے نعرے لگا رہے تھے۔

اس کے بعد جنرل ضیا الحق کا مارشل لا لگ گیا اور بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے۔ میرا بھائی یہ خبر سن کر گھر آیا اور روتے ہوئے کہنے لگا کہ اگرچہ بھٹو کو کسی کے قتل کے الزام میں پھانسی لگی ہے مگر کیا وجہ ہے کہ اُس کا دل بہت اداس ہے۔ میرے ماموں آسٹریلیا میں مقیم تھے۔ اُنہوں نے غصے سے پاکستانی سفارت خانے جا کر اپنا پاکستانی پاسپورٹ واپس کر دیا اور پاکستانی شہریت سے دستبردار ہو گئے۔ اس کے بعد پاکستان میں دس سال کے لئے جمہوریت کا خاتمہ ہو گیا۔

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi