طلباء یا مستقبل کے دہشت گرد؟


دہشتگردی پوری دنیا کے لیئے  دور حاضر کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیئے تمام بڑی طاقتیں کوشاں دکھائی دیتی ہیں اور اپنی اپنی بساط کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے میں مصروف ہیں لیکن اس کے خاتمے میں اب تک ناکامی دکھائی دیتی ہے۔

پاکستان کو بھی دہشتگردی کے اس چیلنج کا سامنا ہے اور لاتعداد قربانیوں اور لازوال جدوجہد کے بعد پاکستان دہشتگردی کے خاتمے میں کافی حد تک کامیابیاں حاصل کر چکا ہے لیکن یہ مسئلہ اب ایک نئے انداز میں چیلنج کر رہا ہے۔ وہ  اعلی تعلیم یافتہ افراد کا دہشتگردی میں ملوث ہونا ہے۔

حالیہ کچھ واقعات کے بعد یہ خوفناک انکشافات ہوئے کہ اب دہشتگرد صرف پسماندہ اور جاہل نہیں بلکہ اعلی تعلیم یافتہ افراد اور طلباء اب ان واقعات میں ملوث ہیں۔ پہلے آئی بی اے کے طالب علم  پھر پنجاب یونیورسٹی سے طلباء کے ساتھ اساتذہ کا دہشتگردی میں ملوث ہونا اور پھر جامعہ کراچی سے انصارالشریعہ سے تعلق رکھنے والے افراد کا برآمد ہونا اس بات کا ثبوت ہے۔

اس کا ہرگز یہ مطلب نہین نکلتا کہ جامعات ان واقعات کی موجب ہیں نہ ہی جامعات میں طلباء کو اس کی تعلیم دی جاتی ہے بلکہ جامعات تو خود دیگر بہت سے مسائل سے دوچار دکھائی دیتی ہیں۔ حالیہ واقعات کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جامعات کے خلاف ایک مخصوص محاذ کھول دیا گیا ہے جس کا مقصد جامعات کا تصور معاشرے میں منفی بنانا ہے تاکہ مستقبل میں لوگ جامعات کے حوالے سے تشویش کا شکار ہو جائیں اور جامعات کے نام کو دہشت گردی کی نرسری کے طور پر بدنام کردیا جائے۔

جامعہ کراچی سے تعلق رکھنے والے مبینہ دہشتگردوں کی گرفتاری کے بعد طلباء سے پولیس میں کریکٹر سرٹیفیکیٹ کا یقینی اندراج، ان کا ریکارڈ حساس اداروں کو دینے اور طلباء سے دہشتگردی میں شامل نہ ہونے کا حلف لینے کی خبریں بھی سامنے آئیں۔

سیکیورٹی اداروں کی جانب سے ایسے اقدامات بہتری کے بجائے مزید انتشار کی فضا پیدا کریں گے کیونکہ درحقیقت اگر یہ مسئلہ پیدا ہورہا ہے تو اسکی ذمہ دار جامعات ہرگز نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کا خستہ بوسیدہ اور فرسودہ نظام ہے۔

اگر اس بات کو حقیقت تسلیم کر بھی لیا جائے کہ اعلی تعلیم یافتہ اور جامعات کے طلباء  دہشتگردی کی کاروائیوں میں ملوث ہونے لگے ہیں توسوال یہ  پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجوہات ہیں کہ مستقبل کے معمار اب مستقبل کے دہشتگرد بننے کی جانب راغب ہیں ؟ کیا اب جامعات باشعور افراد اور ملک و قوم کی خدمت کرنے والے افراد کے بجائے اب دہشتگرد اگلیں گی؟ ان سوالات کے جوابات کے لیئے ہمیں اپنے معاشرے کی طبقاتی تقسیم اور ان کی تعلیم و تربیت پر غور کرنا ہوگا۔

ہمارا ملک آبادی اور وسائل کے لحاظ سے تین طبقات میں منقسم ہے۔ غریب طبقہ جو سب سے نچلا طبقہ ہے ۔ اس طبقہ کی بنیادی سوچ صرف زندہ رہنے کی خاطر پیٹ بھرنا ہے ۔تعلیم کا اس طبقے سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس طبقے سے تعلق رکھنے والے فرد کو بچپن سے ہی کام پر لگا دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے خاندان کا مالی سہارا بنے۔ اگر کوئی بھولا بھٹکا تعلیم کی طرف غور کر بھی لے تو اس طبقے کے لیئے صرف سرکاری اسکول میسر ہیں جن میں تعلیم کا وہ برا حال ہے کہ اسکولوں میں طلباء کے بجائے گھوڑے گدھے باندھے جاتے ہیں ۔

کہیں ٹیچر کا یہ حال ہے کہ اسے پرائمری کے انگریزی ہجے تک نہیں آتے تو اس بدترین حالت کے بعد اس اسکول سے پڑھنے والوں سے آگے بڑھنے کی توقع رکھنا ایک معجزہ ہے۔ چناچہ اس طبقے کی سوچ ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ بس زندگی گزار جائے۔ پھر ایک طبقہ ہےجو  اشرافیہ پر مشتمل ہے ۔ جو آبادی کے تناسب سے صرف دو سے تین فیصد ہے اس طبقے کا پاکستان کی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ اس طبقے کا فرد تعلیم کے لیئے یورپ جاتا ہے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے ملک واپس آکر اونچے عہدوں پر فائز ہو جاتا ہے۔

ان دو انتہاؤں کے درمیان مڈل کلاس طبقہ ہوتا ہے جسکے پاؤں تو زمین پر ہوتے ہیں لیکن وہ آسمان چھونے کی خواہش رکھتا ہے۔ وہ چھلانگ لگا کر اوپری طبقے میں پہنچنے کا خواہشمند ہوتا ہے۔ اور اسکے لیئے اسکے پاس واحد ذریعہ تعلیم ہوتا ہے۔ اس طبقے کے افراد کی تعلیم کے لیئے پرائیویٹ اسکول ہوتے ہیں جہاں وہ بھاری فیسوں کا بوجھ اپنے ماں باپ پر ڈالنے کے بعد تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

اسکول کے بعد کالج کا مرحلہ آتا ہے جہاں سرکاری کالجوں میں اسے سیاسی تنظیموں کا دباؤ بھی سہنا پڑتا ہے بصورت دیگر اچھے ماحول کے لیئے پرایئویٹ کالج بھی موجود ہیں جہاں بھاری رقوم کے عوض اسے مناسب معیار کی تعلیم مل جاتی ہے۔ اسکے بعد جامعات کا مرحلہ آتا ہے ۔

جامعات کی بھاری رقوم پرمبنی فیس اس طبقے کے ہر فرد کے لیئے قابل برداشت نہیں ہوتی چناچہ اکثر اپنے خوابوں کو وہیں خیرآباد کہ کر کسی شارٹ کٹ کے ذریعے کم وقت میں ذیادہ پیسے کے حصول میں لگ جاتے ہیں ۔ اور جو فیس بھرنے کے اہل ہوتے ہیں وہ پھر سے بھاری رقوم کے عوض تعلیم خریدتے ہیں۔ اور اس تمام جدوجہد کا مقصد صرف ایک ہوتا ہے کہ اچھی نوکری حاصل کرکے جلد سے جلدایک پرآسائش زندگی گزاری جاسکے۔ شدید محنت اور بے انتہا پیسہ خرچ کرنے کے بعد جب نوکری کا وقت آتا ہے تو ان اعلی تعلیم یافتہ افراد کے لیئے نوکری موجود نہیں ہوتی ۔کیونکہ سرکاری نوکری یا تو سفارش کے عوض ملتی ہے یا رشوت دیکر ۔ پھر اگر وہ رشوت دیکر نوکری حاصل کرلیں تو وہ خود اپنی  لگائی گئی رقم کی سود سمیت وصولی کے لیئے رشوت اور کرپشن کے ریکارڈز قائم کرتے ہیں۔ اور اگر رشوت دینے کو اسکے پاس رقم۔نا ہو تو وہ جرائم بھی کرتے ہیں اور صحیح اور غلط کی تمیز کو بھلا کر ہر ممکن طریقے سے امیر ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

وہ معاشرے کے لیئے الگ بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔پھر یہ صوتحال ایک غیر یقینی کی کیفیت کو جنم دیتی ہے مستقبل کا خوف اور اپنے محفوظ مستقبل کی ضمانت نہ ہونے کے باعث ایک پڑھا لکھا نوجوان پھر دھشتگردی بھی کرتا ہے اور کرپشن بھی ،وہ پھر ریاست کے خلاف زہر اگلتا بھی ہے اور ریاست میں زہر بیچنے کا کاروبار بھی کرتا ہے۔ان وجوہات کی بنا پر ایک اعلی تعلیم یافتہ شخص دہشتگردوں کا آلہ کار بنتا ہے کیونکہ اسے اپنی لگائی گئی رقم اور ریاست سے اپنا بدلہ اسی صورت میں ملتا دکھائی دیتا ہے۔ یہی فرسودہ نظام  پاکستان میں عرصے سے چلتا آرہا ہے۔ اور اب اسی صورتحال سے تنگ اور بدظن تعلیم یافتہ نوجوان اب دہشتگردوں کا آلہ کار بننے لگے ہیں ۔ ابھی ان واقعات کی ابتدا ہوئی ہے انکا جلد سدباب نا کیا گیا  تومستقبل میں ان واقعات میں بہت تیزی آئیگی۔ پھریہ واقعات متواترہونگے ۔

نوجوان جو قوم۔کا مستقبل اور سرمایہ ہوتے ہیں انہیں انکا مستقبل تاریک دکھائی دیگا تو آپکی جامعات ایک کے بعد ایک دہشتگرد پیدا کریں گی۔ پھر جامعات سے کرپٹ افراد نکلیں گے ۔ پھر یہی جامعات مستقبل کے معماروں کے بجائے مستقبل کے قاتل پیدا کرینگی اور اسکا آغاز ہو چکا ہے۔ اس مسئلے کا حل طلبأء سے ریکارڈ لینے یا حلف لینے میں نہیں بلکہ ایسے اقدامات توانہیں ریاست سے مزید متنفر کرتے جائیں گے ۔اس مسئلے کا حل نظام درست کرنے میں ہے آپ صرف میرٹ کو یقینی بنادیں سفارش اور رشوت کے عوض اور سیاسی بھرتیاں کرنے کے عمل کو مکمل ختم کردیں ۔ طلباء کا مستقبل محفوظ بنا دیں تو کچھ ہی عرصے بعد ہر طالب علم ملک کی ترقی کی ضمانت ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).