محمد ابراھیم جویو انتقال کر گئے


برصغیر کے ممتاز ادیب، مترجم، معلم اور دانشور محمد ابراہیم جویو 102 برس کی عمر میں کچھ دیر قبل حیدرآباد میں انتقال کر گئے ہیں۔ ۔ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ ان کو کہاں پر دفنایا جائے گا۔ جویو صاحب کے فکر و فلسفہ سے سندھ کے سیاستدانوں، دانشوروں اور ادیبوں سمیت عوام کی بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے۔

محمد ابراہیم جویو 13 اگست، 1915ء کو گوٹھ آباد، ضلع دادو موجودہ ضلع جامشورو، سندھ میں پیدا ہوئے۔ وہ تین برس کے تھے کہ ان کے والد محمد خان جویو انتقال کر گئے تھے۔ غربت میں بھی ہمت نہیں ہاری اور چار درجے سندھی پڑہنے کے بعد سن کے اسکول میں پڑہنے کے لئے پہچے۔ سن سائین جی ایم سید کا گوٹھ ہے۔ اس دن سے ان کا تعلق سائین جی ایم سید کے ساتھ ایسا جڑا کہ ان کی آخری سانس تک جڑا رہا۔ جویو صاحب کی تعلیم، تربیت، اخراجات، ذاتی، علمی، روحانی، مادی معاملات میں سائین جی ایم سید ان کی زندگی کے ساتھ ایک شفیق استاد اور والد کی طرح جڑے رہے۔ یہ تعلق دو طرفہ رہا اورابراہیم جویو نے سائین جی ایم سید کی وفات کے بعد بھی ان کے پیغام سندھ پر کام جاری رکھا اور سید صاحب کی سندھی، اردو اور انگریزی کی 70 سے زائد کتابوں کے مزید چھاپوں کی نوک پلک سنوارتے رہے۔

ابراہیم جویو نے سندھ مدرسۃ الاسلام، ڈی جے کالج اور بمبئی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ جویو صاحب نے 1934 میں سندھ مدرسۃ الاسلام سے مئٹرک کے امتحان میں دوسری پوزیشن حاصل کی تو ان کی بیس روپے ماہوار اسکالرشپ شروع ہو گئی۔ 1938 میں انہوں نے ڈی جے کالیج کرا چی سے بی اے کیا۔ ڈی جے کالیج میں ڈاکٹر گربخشانی، بھیرو مل مھرچند آڈوانی اور منگھارام ملکانی جیسے عالم فاضل ان کے استاد تھے۔ وہ 1941ء میں سندھ مدرسۃ الاسلام سے بطور استاد وابستہ ہوئے۔ اسی زمانے میں ایک کتاب Save Sindh Save Continent لکھنے کی پاداش میں ملازمت سے برطرف کردیے گئے۔ تقسیم ہند کے بعد 1951ء میں سندھی ادبی بورڈ حیدرآباد کے سکریٹری بنے اور ایک طویل عرصے تک اس ادارے سے وابستہ رہے

محمد ابراہیم جویو ایک صاحب نثرنگار اور مترجم بھی تھے۔ ان کے قلم میں منطق، فلسفہ، تاریخ، شاعری اور انقلابی ادب کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے اپنے ترجموں کے ذریعے سندھی ادب کو جدید فکرو نظر سے مالامال کیا ہے ان کے موضوعات کے کی اہمیت کا اندازا ان عنوانات سے لگایا جاسکتا ہے۔ اسلام کا تاریخی کارنامہ، بچوں کی تعلیم، فکر ی آزادی، گلیلیوکی زندگی، بچوں کا مسیح، مظلوموں کی تعلیم وتدریس، سماجی ابھیاس، شاعری کے سماجی تقاضے، جدید دور میں بین الاقوامی تعاون کا مسئلہ، باغی، غریبوں کا نجات دہندہ۔ بھٹو کی زندگی اور عہد اور پاکستان: خواب اور حقیقت۔ منظومات میں عنوانات کا پھیلاؤ دیکھیے، اُو سندھ، محنت کش کے غم محنت کش کے یا ر، آپ اپنی پرستش کرنے والے۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے سائین جی ایم سید، عبد اللہ داؤدپوتہ، پیر حسام الدین راشدی اور دیگر اہم علمی وادبی شخصیات کے خاکے بھی لکھے ہیں ان کی تصانیف میں Save Sindh Save Continent، بارن جو مسیح (ترجمہ)، شاہ سچل سامی، ماٹھوء جو بھاگ (کہانیاں)، مھکریء جا مضمون (سماجیات)، فکر جی آزادی (سیاسیات)، وحشی جیوت جا نشان (حیوانیات)، تاریخ پاکستان (تاریخ) شامل ہیں ساتھ ہی انہوں نے سندھی، اردو اور انگریزی میں سینکڑوں اخباری مضمون لکھے۔

میں نے سو برس کی عمر میں بھی جویو صاحب کو روزانہ اخبار اور کتابیں پڑہتے ہوئےاور کچھ لکھتے ہوئے ہی دیکھا۔ ان کے حیدرآباد میں واقع گھر میں ان کے رہنے اور سونے والے بڑے کمرے میں ان کے اپنے بیڈ کی صرف اتنی جگہ خالی ہوتی تھی جس پر ایک آدمی مشکل سے سو سکے باقی ہر جگہ کتابیں ہی کتابیں۔ مہمان آتے تو ان کے لئے بھی بیٹھنے کی جگہ بنانے کے لئے کتابیں ہٹانا پڑتی تھیں۔
حکومت پاکستان نے ان کے فن کے اعتراف میں 14 اگست 2009ء کو صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی اور 2013ء میں اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ادب انعام برائے سال 2011ء دیا گیا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).