سعودی عرب میں تاج اور تخت کی جنگ شروع ہو چکی ہے


چند روز پہلے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے گیارہ کزن شہزادوں، کئی اہم وزرا اور اس سلطنت کے اہم ترین تاجروں کو گرفتار کر لیا ہے۔ انہوں نے کئی مقامی وزارتوں میں تبدیلیوں اور ایک طاقتور اینٹی کرپشن کمیٹی کا بھی اعلان کیا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ کیا یہ ایک بغاوت تھی؟ کیا کسی بغاوت کو ناکام بنا دیا گیا ہے یا پھر سعودی شاہی خاندان میں تطہیر کا عمل شروع کر دیا گیا ہے؟
ایک بات صاف نظر آ رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان تمام کارروائیوں کے نتیجے میں طاقت ایک شخص میں مرکوز ہوتی جا رہی ہے اور وہ شاہ سلمان کے بیٹے اور مستقل میں سعودی تخت کے مالک محمد بن سلمان ہیں۔

گزشتہ دو برسوں کے دوران وہ پہلے ہی بہت زیاہ طاقت اور عہدے اپنے پاس جمع کر چکے ہیں۔ وزیر دفاع اور اپنے والد کے نائب ہونے کی وجہ سے وہ عملی طور پر اس وقت بھی سعودی عرب کے طاقتور ترین شخص ہیں۔

بتیس سالہ محمد بن سلمان کے طاقت جمع کرنے کے عمل نے شاہی خاندان اور اس کے باہر بھی مزاحمت پیدا کی ہے۔ محمد بن سلمان کو جب ولی عہد بنایا گیا تھا تو اس وقت بھی انہیں سب کی حمایت حاصل نہیں تھی۔

آل سعود میں طاقت کی تقسیم ابھی تک بڑی واضح تھی اور اچھے طریقے سے چلی آ رہی تھی۔ شاہ عبداللہ کئی عشروں تک نیشنل گارڈ کے سربراہ تھے اور ان کی وفات کے بعد یہ عہدہ ان کے بیٹے متعب بن عبد اللہ کے ہاتھ میں آیا۔ پرنس نایف سینتیس برس تک وزیر داخلہ رہے اور ان کے انتقال کے بعد اس عہدے پر ان کا بیٹا آیا۔ پرنس سلطان تقریبا نصف صدی تک وزیر دفاع رہے اور ان کے نائب ان کے بیٹے خالد بنے۔

محمد بن سلمان اس نظام کو ہی ختم کر رہے ہیں۔ ان میں سے متعدد عہدے وہ خود اپنے پاس رکھ رہے ہیں اور کچھ اپنی ہی خاندانی لڑی یا پھر قریبی دوستوں کو دے رہے ہیں۔ اب تمام طاقت خاندان کی ایک لڑی میں جمع ہو رہی ہے اور وہ موجودہ شاہ سلمان کی خاندانی لڑی ہے۔ محمد بن سلمان کے ایک بھائی امریکہ میں بطور سفیر تعینات ہو چکے ہیں۔

پرنس متعب بن عبد اللہ کو نیشنل گارڈز کے اہم عہدے سے ہٹانا ہی بتاتا ہے کہ تاج اور تخت کی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ محمد بن سلمان نہیں چاہتے کہ اس سلطنت کی فوجی طاقت ان کے کسی حریف کے ہاتھ میں ہو۔ اسی طرح سلطنت کے امیر ترین ارب پتی پرنس اور بین الاقوامی سرمایہ کار خالد بن ولید کی گرفتاری بھی بتاتی ہے کہ کوئی بھی گرفت سے باہر نہیں ہے۔

سینکڑوں اہل شہزادوں کی موجودگی میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ محمد بن سلمان مستقل میں بادشاہت صرف اپنی اولاد اور شاہ سلمان کی نسل تک ہی محدود رکھنا چاہتے ہوں۔ اور ایسا کرنے کے لیے بھی انہیں ہر طرح کی طاقت کی ضرورت ہے۔

محمد بن سلمان شاہ سلمان کے سب سے بڑے بیٹے نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں بطور ولی عہد مقرر کیا گیا تھا۔ اس وقت تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ شاہ سلمان کی نظر میں محمد ایک سخت اور ضرورت کے مطابق وقت پر فیصلے کرنا والا شخص ہے۔ اور چند دن پہلے شاید انہوں نے ایسا ہی کیا ہے۔

لیکن جب سب کچھ آہستہ آہستہ چل رہا تھا تو ایک دم ایسی بڑی کارروائیاں کیوں کی گئی ہیں؟ اس کا جواب ابھی تک واضح نہیں ہے لیکن یہ شکوک بڑھ گئے ہیں کہ یا تو بغاوت کی کوئی کوشش شروع ہونے والی تھی یا پھر ایسے کسی منصوبے کی اطلاع محمد بن سلمان تک پہنچ چکی تھی۔ اتنی عجلت میں ایسی بڑی کارروائیاں اسی وقت ہوتی ہیں، جب خطرہ شدید ہو۔

اسی طرح اتوار کو ہونے والے ہیلی کاپٹر حادثے اور اس کے نتیجے میں ایک سعودی پرنس اور متعدد اعلیٰ اہلکاروں کی ہلاکت کے بارے میں بھی شکوک پائے جا رہے ہیں۔ یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا یہ واقعی ایک حادثہ تھا؟

چند ماہ پہلے ایک اسرائیلی تھنک ٹینک نے لکھا تھا کہ اکیاسی سالہ شاہ سلمان کو صحت کے شدید مسائل کا سامنا ہے اور محمد بن سلمان جلد ہی اپنے والد کی جگہ لے سکتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ محمد یہ وقت آنے سے پہلے پہلے اپنے تمام مخالفین اور ناقدین کو راستے سے ہٹانا چاہتے ہوں۔

تمام کی تمام طاقت کے ایک شخص میں جمع ہونے سے امریکہ اور سعودی عرب کو کس قدر فائدہ ہوگا اور فیصلہ سازی کا عمل کس قدر آسان ہو جائے گا؟ اس سوال کا جواب شاید آج سے کئی برس بعد ملے۔ لیکن ابھی تک صرف یہ واضح ہے کہ محمد بن سلمان اپنے اصلاحات پر مبنی ایجنڈے کو ہر صورت آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ وہ ایک اعتدال پسند سعودی عرب اور اسرائیل کی مدد سے خطے میں ایران کو سبق سکھانا بھی چاہتے ہیں۔ ان کے فیصلے سعودی شاہی خاندان کی اندرونی جنگ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں بھی شدت پیدا کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).