میں ہوں ملالہ


یہ کتاب میں نے یو این میں تقریر کرنے کے بعد شائع کی تھی اور یہ اکتوبر 2013ء کا سال تھا مگر اس کے بعد میری زندگی میں بہت کچھ نیا سامنے آیا ہے۔ جو اہم واقعات تھے، ان میں ملالہ یوسفزئی فنڈ کا قائم ہونا تھا جس کے ذریعے ہم نے کئی ممالک کے وزٹ کیے۔ میں نائجیریا گئی، وہاں پر میں نے ان بچوں کے حق میں بات کی جنھیں بوکو حرام نے اغوا کیا تھا۔ اس کے علاوہ ہم لبنان اور اردن گئے جہاں ہم نے شام کے بچوں کے لیے آواز اٹھائی اور اس کے ساتھ ساتھ پھر 2014ء میں مجھے نوبیل پیس پرائز سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ میں اسکول میں بھی اپنی تعلیم حاصل کرتی رہی۔ یہ ایک بہت ہی مصروف وقت تھا۔

میرا خیال ہے میری کتاب میں جو خاصیت ہے، وہ اس میں میری کہانی ہے۔ ایک شخص کی کہانی بہت طاقت ور ہوتی ہے اور اس میں جو پیغام پوشیدہ ہوتا ہے، وہ لوگوں کے دلوں تک پہنچتا ہے۔ تو اس کتاب میں مَیں نے اپنی زندگی کے حالات اور واقعات پر مبنی کہانی شیئر کی ہے جو بہت سے لوگوں کے لیے ایک متاثر کردینے والی کہانی ہے، جس سے وہ سیکھتے ہیں کہ کس طرح کچھ بچے اپنی تعلیم کے لیے جدوجہد کرتے ہیں جس کے دوران انھیں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کے سامنے دنیا کی ایک نئی حقیقت سامنے آتی ہے۔ تو اس لیے یہ کتاب لوگوں کے دلوں تک پہنچتی ہے۔ ہم نے سچ لکھا ہے اور جب آپ سچ لکھتے ہیں تو وہ لوگوں پر اثر کرتی ہے۔

ملالہ یوسفزئی فنڈ کے ذریعے زیادہ توجہ پاکستان پر دی جا رہی ہے اور وہاں پر ہی زیادہ پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ رفیوجی چلڈرن (پناہ گزین بچوں) کی تعلیم ہے، تو ان دونوں پہ ہم بہت زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ اگر میں ملالہ یوسفزئی فنڈ کے کام کو تقسیم کروں تو ہمارے پاس تین چیزیں ہیں جو ہمارے پیش نظر ہیں۔ پہلی چیز ایڈووکیسی اور کمپیننگ ہے تاکہ ہم تعلیم کی کمپین کو دنیا کے لیڈرز تک پہنچائیں۔ دوسرا اگر اقوامِ متحدہ میں بولنے کا موقع ملتا ہے تو میں اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں بات کروں۔

اس مقصد کے لیے میں نے اقوام متحدہ میں باقاعدہ مہم چلائی ہے جس میں ہم نے بہت زیادہ کامیابی حاصل کی ہے۔ میں نے یو این کے تمام ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ بارہ سال تک کی مفت اور معیاری تعلیم ہر بچے اور بچی کو دیں۔ اس کے علاوہ ہماری تیسری ترجیح پناہ گزین بچوں کی تعلیم ہے جس کے لیے میں نے بہت سارے کانفرنسوں اور سیمیناروں میں بات کی ہے۔ اس مقصد کے لیے میں نے ڈونر ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے اس مد میں کافی رقم بھی خرچ کی ہے۔ لبنان اور اردن میں شام کے پناہ گزین بچوں کے لیے ہم نے اسکول بنائے ہیں۔ اس کے علاوہ نائجیریا میں بھی ہم نے ان بچوں کے لیے کام کیا ہے جو بوکو حرام کے چنگل سے فرار ہوئے تھے۔ پاکستان میں ہم نے سب سے زیادہ رقم سوات اور شانگلہ میں خرچ کی ہے۔

جتنا کچھ مجھے اپنی مختصر زندگی میں ملا ہے، میں نے کبھی اس کی خواہش نہیں کی تھی۔ میں نے خدا سے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ مجھے انگلینڈ میں پہنچا دیں یا مجھے نوبل پیس پرائز دیں یا مجھے شہرت دیں۔ میں نے کبھی ایک بار بھی خدا سے اس طرح کی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا، البتہ جب میں دس بارہ سال کی تھی تو اللہ سے ہمیشہ یہ دعا کرتی تھی کہ اے خدا! مجھے طاقت دیں تا کہ میں ظلم کے خلاف بولوں، مجھے حوصلہ دیں تا کہ میں عورتوں کے حقوق کے لیے اُٹھ کھڑی ہوسکوں، میں بچوں کے لیے آواز بلند کرسکوں اور یہ جو لوگ دہشت پھیلا رہے ہیں، میں ان کے خلاف ایک علامت بن جاؤں۔ یہی دعا کی تھی اور کرتی رہوں گی کہ میں لوگوں کے لیے کچھ اچھا کرسکوں۔
ملالہ یوسف زئی

ملالہ کو آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا ہے۔
(ملالہ یوسفزئی کی کتاب ”آئی ایم ملالہ“ کا اردو ترجمہ جلد ہی مشعل بکس کی طرف سے پاکستان میں شائع ہو رہا ہے۔ )

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).