اسموگ کی آفت اور پنجاب حکومت کی اداکاری


پنجاب میں سموگ نے زندگی مفلوج کرکے رکھ دی ہے، ادھرپیر تک چند دنوں میں سموگ کی وجہ سے ہونیوالے ٹریفک حادثات میں 22 قیمتی جانیں چلی گئی ہیں جبکہ سو سے زاید افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ پنجاب بالخصوص لاہور میں معاملات زندگی رک سے گئے ہیں۔ تیزی کے ساتھ پھیلتی سموگ کی وجہ سے موٹروے جیسی محفوظ روڈ کو بھی سرشام بند کرنا پڑا رہا ہے جبکہ دیگر سڑکوں پر سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ پنجاب حکومت وہی کررہی ہے جوکہ اس کا وطیرہ رہا ہے کہ جب خطرناک صورتحال عوام کو گھیر لیتی ہے تو پھر ان کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ اس سال بھی پچھلے سال کی طرح سموگ نے جب چاروں اطراف سے گھیر لیا ہے تو وزیراعلی پنجاب شہبازشریف اور ان کے درباریوں نے اخبارات میں سموگ کے نام پر بیان بازی کے ذریعے لوگوں کو بے وقوف بنانے کا ڈرامہ شروع کردیاہے۔

دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ حکومت جانتی ہے کہ سموگ کے خاتمہ کے لئے فوری طور پر کوئی حل موجود نہیں بلکہ اس کے لئے دوررس پالیسی کی ضرورت ہو گی۔ ماحول کو انسان دوست بنانے کے لئے محنت کرنی ہوگی۔ درختوں کے ساتھ دوستی کرکے سموگ جیسی خطرناک چیز کو روکنا ہوگا لیکن یہ سارا کچھ اس وقت ممکن ہوگا جب حکومت ماحول کو عوام دوست بنانے کے لئے حقیقی معنوں میں اقدامات کرے گی۔ ڈرامہ بازی نہیں کرے گی۔ پنجاب کے مرکزی شہر لاہور کی صورت حال سب کے سامنے ہے کہ وہاں پر لیگی حکومت نے ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں درختوں کو کاٹ کر لاہور شہر کو گنجا کر دیا ہے۔ حکومت کے کارندوں کو جو بھی درخت نظر آیاہے، اس کو کاٹنے سے ذرا دیر نہیں لگائی۔ لاہور کے لوگ اپنے پیارے شہر کو گنجا ہونے سے بچانے کے لئے عدالتوں کی طرف بھاگے لیکن عام شہریوں کے پاس اتنے وسائل کہاں تھے کہ پنجاب حکومت کے خلاف بڑے وکیل کرتے اور مقدمہ جیت کر ماحول دوست درختوں کی زندگیوں کو بچا لیتے۔ یوں پنجاب حکومت کو من مانی کا موقع مل گیا اور اس کا کیا دھرا ہے کہ اب لاہورکے لوگ زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر بھگت رہے ہیں۔ دفاتر، سکول، کاروباراور دیگر مقاصد کے لئے گھر سے نکلنا اب ان کے لئے خطرناک ہے۔ اطلاعات ہیں کہ لوگ سانس کی بیماریوں سے لے کر دل، کنیسر اور دیگر خطرناک امراض کا بڑے پیمانے پر تیزی سے شکار ہو رہے ہیں۔ ادھر پنجاب کے دوردراز علاقوں میں تو صورتحال اور بھی ابتر ہے۔ سموگ نے وہاں پر بھی لوگوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ سموگ کی پہلی واردات لیہ کی متوقع تحصیل چوک اعظم میں اس وقت دیکھنے کو ملی جب سکول جاتے( 3) معصوم طالب علم سموگ کی شدت کی وجہ سے ٹریفک حادثہ میں مارے گئے ہیں اور ان کے خاندان پر قیامت ٹوٹ پڑی، اسی طرح لیہ کے علاوہ پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی سموگ کی وجہ سے سفر محفوظ نہیں رہاہے۔


افسوس اس بات پر ہے کہ سموگ کی وجہ سے جان لیوا صورتحال میں پنجاب حکومت کی وہی ڈانگ پٹاؤ کارروائی چل رہی ہے اور اخبارات میں سموگ سے بچاؤ کے لئے صرف اشتہاری مہم ہی کافی سمجھی جارہی ہے۔ مان لیا کہ وقتی طورپر عوام کو اس سے سموگ سے آنکھین چرانے میں مدد ملے گی لیکن اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ اشتہاری مہم کے ساتھ ہی سموگ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گی۔ لاہور میں سموگ کی خطرناک صورتحال کے پیچھے چھپی وجوہات کے بارے میں تو لاہور کے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ جب درخت نام کی چیز ہی حکومت ختم کرنے پر تل جائے گی تو پھر چاروں اطراف سموگ ہی ہوگی، انسانی زندگی تو کپڑوں میں لپٹی ہی ملے گی۔ ادھر پنجاب کے دیگر ا ضلاع میں جو سموگ حملہ آور ہے۔ اس کے پیچھے دیگر عوامل کے ساتھ ایک بڑی وجہ سیلاب ہیں خاص طورپر 2010 ء میں آنے والے سیلاب نے تباہی کے ریکارڈ قائم کر دیے تھے۔ دریاسندھ کچہ کے علاقہ چھوڑ تھل کے علاقوں میں اپنی طاقت کے زور پر پہنچ گیا تھا۔ انفرسٹرکچر کا ستیاناس کر دیا تھا۔ سیلاب کے دنوں میں حکومت نظرآتی رہی لیکن جونہی پانی لوگوں کے سرسے پیروں تک آیا، حکومت غائب ہو گئی۔ ان کے نمائندوں کی اکثریت انہی کاموں پر لگی جوکہ ان کا طرہ امیتازہے کہ عوام کو اس قابل نہ چھوڑو کہ اپنے ساتھ ہونیوالی نا انصافی کے بارے میں سوچ بھی سکیں۔ مال بناؤ پالیسی پر چل کر خاندان کے لئے جو ملتا ہے اکٹھا کرو۔ سیلاب کی بڑے پیمانے پر تباہی کے بعد لوگوں کو سر چھپانے کے لئے گھروں کی ضرورت تھی۔ اس کے لئے پکی اینٹوں کی ضرورت تھی، اینٹ کے لئے ضروری تھا کہ اینٹوں کی پکائی کے لئے بھٹہ لگائے جائیں۔ یوں اچانک بڑے پیمانے پر اینٹوں کے بھٹوں کی کھیپ ان علاقوں میں لگنا شروع ہو گئی جو سیلابی پانی سے بچ گئے تھے۔ اب اینٹوں کی بھٹوں کو چلایا کس طرح جائے؟ یوں ماحول دوست اور سموگ جیسی خطرناک چیز کا مقابلہ کرنے والے درختوں کی شامت آ گئی اور ان کی خرید وفروخت اور کٹائی بڑے پیمانے پر شروع ہوگئی۔ کوئی اس طرف دھیان نہیں دے رہاتھا کہ سیلاب کی بڑی وجہ بھی درختوں کی کٹائی تھا اور اب سیلاب کی تباہی کے بعد بھی درختوں کو بچانے کی بجائے ان کو بیدردی سے بھٹوں میں ڈالاجارہاہے۔ حکومت نے بھٹہ مالکان کو بھٹوں میں درختوں کے استعمال کی بجائے کوئی متبادل ذریعہ دینے کی بجائے مجرمانہ خاموشی کو ترجیح دی۔ جو علاقے ایک وقت میں درختوں کے گھر سمجھے جاتے تھے، اب بھٹوں کا پیٹ بھرنے کے لئے خالی ہو کر رہ گئے۔ سرکاری جنگلات کو حکومتوں میں شامل نمائندوں کے کارندوں نے اپنی طاقت کے بل بوتے پرصاف کردیا۔ ادھر نہروں کے اردگر روڈ بنانے کے نام پر بھی درختوں پر آری چلتی رہی اور حکومت خاموشی تماشائی بنی رہی۔

اسی طرح درختوں کے ساتھ ایک ظلم اس وقت شروع ہوا جب پنجاب بالخصوص جنوبی پنجاب میں گنا کی فصل بڑے پیمانے پر کاشت ہونا شروع ہوگئی۔ کپاس جیسی انمو ل فصل سرمایہ داروں کی پیسہ پالیسی کی بدولت غائب کردی گئی اور چاروں اطراف گنا کی فصل نے کھیتوں کو سنھبال لیا۔ منافع کی دھن میں اور حکومت کی نا اہلی کے اثرات اس وقت دیکھنے کو ملے جب گنا بھی درختوں کا دشمن یوں بن گیاکہ فروری، مارچ میں درختوں کے لگانے اور بڑھتوی کا موسم ہوتا ہے، اسی وقت گنا کے کھیت خالی ہوجاتے ہیں۔ گنا کے کاشتکار گنا کی پتری کو آگ لگاتے ہیں جوکہ پٹرول جتنی شدت کی ساتھ جلتی ہے اور لمحوں میں اس کے شعلے آسمان کی طرف بڑھتے اور جو چیز اس کے قریب ہوتی ہے اس کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ گنا کی پتری کا بڑا شکار جو سب سے زیادہ چیز ہوتی ہے، وہ درخت ہوتے ہیں، اس میں بڑے چھوٹے درخت سارے ہی اس آگ کی شدت سے بری طرح متاثرہوتے ہیں۔ یوں کچہ کے علاقہ جوکہ دریاسندھ کے قریب پائے جاتے ہیں اور گنا کے لئے موزوں سمجھے جاتے ہیں، وہاں پر درخت کو بڑھوتی کے دنوں میں گنا کی پتری کو جلانے پر لگنی والی آگ اس کی زندگی کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیتی ہے۔ لیکن پنجاب حکومت سے لے کر ضلعی حکومت تک کوئی بھی درختوں کی زندگی بچانے کے لئے آگے نہیں آرہاہے۔ سب سموگ کے دنوں میں ادکاری کرتے ہیں اور پھر وہی ٹھندپروگرام چلتاہے۔ حکومت ایک وقت میں عوام میں مفت درخت تقسیم کرتی تھی۔ اب مدت ہوگئی ہے کہ حکومت اس اہم کام سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔ اور یوں تیزی کیساتھ سموگ نے لوگوں کی زندگیوں کو زہر آلودہ کردیاہے اور وہ موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ اگر واقعی پنجاب میں حکومت ہے تو فوری طورپر اس بار کی شجرکاری مہم میں بڑے پیمانے پر عوام کو درخت مفت لگانے کے لئے دے، اسی طرح بھٹہ مالکان کو پانبدکرے کہ وہ درخت استعمال نہیں کریں گے بلکہ متبادل ذرائع سے اینٹ کی پکائی کریں۔ ادھر گنا کے علاقوں میں ضلعی انتظامیہ اس بات پر پابندی لگائے کہ گنا کی پتری کو کھیت میں آگ نہیں لگائی جائے گی۔ سرکاری جنگلات جوکہ اب خال خال ملتے ہیں، ان کی بحالی کے لئے بھی حکومت کام کرے۔ اب بھی وقت ہے کہ سموگ کا مقابلہ کرنے کے لئے درخت دوست پالیس اپنائی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).