مشرق و مغرب کی تہذیبی کشمکش اور اقبال


مغربی تہذیب، جس کا اس وقت دنیا پر غلبہ نظر آتا ہے، اس کا جنم سولہویں صدی میں ہوا جب یورپ میں حریت فکر (Freedom of thinking) کی تحریک شروع ہوئی۔ یہ تحریک دراصل پاپائیت (کلیسا کی حکومت) کے ظلم واستحصال اور فرسودہ مذہبی روایات کا علمی، سائنسی اور تحقیقاتی رد تھا کیونکہ عیسائی پادریوں نے الہامی کتاب اور دینی تعلیمات کو اپنی خواہشات کے تحت بدل ڈالا تھا۔ انہوں نے مذہب کے نام پر اپنی مرضی کے فیصلے عوام الناس پرمسلط کر رکھے تھے۔

ایک طرف تو مغربی عوام پاپائیت (Theocracy) کے ظلم کے خلاف اپنے حقوق کے حصول کے لیے اٹھے تھے اور انہوں نے مذہب کو ظلم و وحشت کی بنیاد قرار دے کر رد کردیا تھا۔ دوسری طرف وہ علمی اور تحقیقاتی کام کرنے والے صاحبان فکر تھے جن کی نئی تحقیقات کی روشنی میں تحریف شدہ بائبل کی تعلیمات کادفاع نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جس کا لازمی نتیجہ پاپائیت اور مذہب سے بغاوت کی صورت نکلتا تھا۔

اس لیے ان دونوں قسم کے لوگوں سے پادریوں اوراس دور کے بادشاہوں نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے ان پرظلم کے پہاڑ توڑے جبکہ حریت فکر اوراستحصال کے خلاف اٹھنے والی تحریک قوت پکڑتی گئی۔ اس تحریک کا تمام تر رجحان مذہب مخالف تھا۔ ان کے نزدیک مذہب ہی انسانوں کی تقسیم اور برائی کی بنیادتھا۔ اس تحریک کی کامیابی سے جونئی تہذیب ابھری، اس نے مذہب کو تمام معاشرتی و سیاسی معاملات سے بے دخل کرکے اس کو شخصی مسئلہ قرار دے دیا۔

نتیجتاً ایک ایسے معاشرے نے جنم لیا جس کے نزدیک مادی ترقی، اسی کے لیے سائنسی و علمی تحقیق اور انسانی نفس کی اتباع ہی مقصدِ زندگی ٹھہرا۔ ایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جس کامقصد نفسانی لذات کا حصول تھا، جس کی اقدار (Ethics) کی بنیاد مادی مفاد کے گرد گھومتی تھی۔ گو مغرب نے سائنسی اور فکری تحقیق بہت کی مگر وہ سماجی اقدار و اخلاقیات اور باطنی و روحانی پاکیزگی سے محروم تھا، جو انسانی زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ اس تبدیلی نے مغربی معاشرت کو تباہی کے دہانے لا کھڑا کیا تھا۔

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیج میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک کو سحر کر نہ سکا

اقبال وہ شخصیت تھے جنہوں نے برصغیر کے مغلوب اور محکوم معاشرے میں جنم لیا تھا۔ مگر انہیں تہذیبِ مغرب، جس کے تسلط میں پوری امت تھی، کو بنظرِ عمیق دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ وہ اس کی خوبیوں اورخامیوں سے باخبر تھے۔ اس دور کے جتنے لوگوں نے انگلستان یا دیگر مغربی ممالک کاسفر کیا تھا اکثر فرنگی تہذیب سے متاثر اور مرعوب نظر آتے تھے۔ دراصل ذہنی غلامی کا خمیر ہی مرعوبیت سے اٹھتا ہے۔ مگر اقبال نے مغربی تہذیب کی فسوں کاری کو سمجھ لیا تھا، وہ اس کے اسرار ورموز سے پوری طرح آگاہ تھے۔

عذابِ دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھوں کا خاک مدینہ و نجف

یورپ کے تہذیبی افلاس کا مشاہدہ علامہ اقبال نے 1905ء سے 1908ء تک اپنے قیام انگلستان کے دوران کیا۔ انہوں نے اپنی ایک نظم میں اس پرکڑی تنقید کرتے ہوئے لکھا:

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہاں میخانہ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زر کم عیار ہوگا

اس تہذیب کے مسلمانوں پر براہ راست اثرات اس وقت شروع ہوئے جب ایک طرف 1857ء میں برصغیر پر انگریزوں نے قبضہ کیا اور دوسری جانب اس سے پون صدی بعد مسلمانوں کی عظمت رفتہ کے نشان خلافت عثمانیہ کو ختم کر کے اس کے حصے بخرے کردیے۔
حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے سونے کو جس طرح کر دیتا ہے گاز

انہوں نے مغرب کی اسلام کے خلاف سازشوں اور امت مسلمہ کی حالت زار پر اپنا درد یوں بیان کیا:
یہ پیر کلیسا کے کرامات ہیں آج
بجلی کے چراغوں سے منور کیے افکار
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ دشوار

اس دور میں مسلم ملکوں پر مغربی نظام مسلط کیے گئے۔ تعلیم، معاشرت، سیاست حتی کہ دین پر مغربی انداز فکر کو لاگو کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ مسلم معاشرے جو دین سے دور ہوکر زوال کا شکار تھے، ان کی سوچ اور فکر پر جمود طاری تھا، وہ مغربی افکار کا اثر قبول کرنے لگے۔ معیشت سودزدہ ہوگئی، تعلیم کا مقصد فقط روزگار کاحصول ٹھہرا، سیاست و حکومت جمہوریت کی مخلوق ٹھہری اور دین زندگی کے تمام پہلوؤں سے نکال کر مسجد ومدرسہ کی چار دیواری تک محدود کیا گیا اور پھررفتہ رفتہ سوچوں اور ذہنوں پر مغربی شان وشوکت کارعب بیٹھنے لگا اور معاشروں میں مغربی غلام پیدا ہونے لگے۔ مغربی تہذیب جو کہ اس وقت مسلمانوں کے درد کا داماں نہیں تھی بلکہ اس نے ملت کو مزید زوال اور نا امیدی کے بھنورمیں ڈال دیا تھا۔

انہوں نے اس دور میں مشرقی تقلید و جمود کے بتوں کو بھی توڑنے کی کوشش کی اور مغربی تہذیب کی گمراہیوں کو بھی آشکار کرتے رہے۔ ان کے نزدیک مشرق سائنس و تحقیق اور ہنر کی دنیا سے نا آشنا ہے تو مغرب اگرچہ اس ضمن میں آگے بڑھ رہا ہے مگر انسانی زندگی اور معاشروں کی اخلاقی بنیادوں کو کھو کر انتشار و افتراق کاشکارہے۔

یہاں مرض کا سبب ہے غلامی و تقلید
وہاں مرض کا سبب ہے نظام جمہوری
نہ مشرق اس سے بری، نہ مغرب اس سے بری
جہاں میں عام ہے قلب و نظر کی رنجوری

بیسویں صدی میں بہت سی مسلم ریاستوں نے مغربی تسلط اور نو آبادیاتی قبضے سے آزادی حاصل کرلی۔ برصغیر میں پاکستان معرض وجود میں آیا، مشرق بعید اور وسط ایشیا میں بہت سی مسلم ریاستیں آزاد ہوئیں یا انہوں نے علیحدہ وجود میں حاصل مگر ایک عرصہ استعماری قبضے میں رہنے کے باعث غلامی کے اثرات ختم نہ ہوئے۔ ابھی تک مسلمان ذہنی طور پر اہل مغرب کے غلام نظر آتے ہیں۔ مغرب کی ظاہری ترقی، بلند و بالا عمارات، سیاسی و معاشرتی ادارے، مواصلات و ابلاغ کی ترقی اور مہ و قمر پر کمندیں ڈالنے کی جستجو نے ان ذہنوں پر ایسارعب ڈالا ہے کہ وہ تہذیب مغرب کے دلدادہ نظر آتے ہیں۔ وہ تہذیب جس نے انسان کو اس کے مقام سے گرادیا ہے، خاندان اور معاشرے کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے، عورت کو زینت بازار بنا کر اس کی عفت وعصمت کو پامال کیا ہے، نسوانی حقوق اور آزادی کے نام پر اسے اپنی حرص و ہوس کا نشانہ بنایا ہے۔

دوسری جانب اس تہذیب کی کارکردگی یہ ہے کہ گزشتہ صدی میں اس نے لاکھوں انسانوں کو لقمہ اجل بنایا، مارکس کا کیمونزم ہو یا ہٹلر اور مسولینی کافاشزم، مغربی جمہوریت ہو یا سوشلزم سب کا خمیر مذہب بیزاری کے عمل اور حریت فکر کی تحریک سے اٹھا ہے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمان مغرب کی ظاہری خوشحالی سے متاثر و مرعوب ہیں اور ’چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر‘ کے غلام بنے ہوئے ہیں۔ اقبال اس کا گلہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تو
مجھ کو گلا تجھ سے ہے یورپ سے نہیں

آج مسلمان مغرب کی ظاہری خوشحالی سے متاثر ہو کر اس کے تاریک تر باطن کو اپنا رہے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ لباس، تراش خراش، انداز و اطوار اور زبان میں ہم اہل مغرب کے احسان مند ہیں۔ تعلیم، سیاست، معاشرت اور معیشت میں سے دین کو نامکمل اور عصرحاضر کے تقاضوں سے ناموافق قرار دے کر اس میں مغرب کی فرمانروائی قبول کرلی ہے۔ چہ جائے کہ ہم سائنس و ٹیکنالوجی اور علم وتحقیق کو اسلام کے تقاضوں پر ترتیب دیتے ہوئے آگے بڑھتے اور مغربی تہذیب میں جو خامیاں تھیں ان کا مداوا کرتے، ہم نے تو مغرب کو مکمل تہذیبی رب تسلیم کرلیا۔

ذہنی غلامی کا تسلط اس قدر مسلم معاشروں پر قائم ہے کہ کوئی بڑی مسلم آبادی اس سے ماورا نظر نہیں آتی۔ ان کے مدارس، بازار، انجمنیں، گھر حتیٰ کہ اجسام اپنی زبان سے شہادت دے رہے ہیں کہ ان پر مغرب کے افکار و نظریات اور علوم و فنون حکمراں ہیں۔ اُسی نظر سے ہر چیز کو جانچتے ہیں، چاہے اس کاشعور انہیں ہو یا نہ ہو۔ ان کے ذہنوں پر یہ مفروضہ مسلط ہے کہ ہر وہ چیز درست ہے جسے مغرب نے درست تسلیم کیا ہے اور ہروہ چیز غلط ہے جسے مغرب نے غلط کہا ہے۔ یہ اپنے دین و ایمان، افکار و تخیلات، تہذیب وشائستگی، اخلاق وآداب سب کو اسی معیار پر جانچتے ہیں۔ جو چیز اس معیار پر پورا اترتی ہے اسے درست سمجھتے ہیں، اس پر مطمئن ہوتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں کہ ہماری فلاں چیز مغرب کے معیار پر پوری اتر آئی ہے اور جوچیز پوری نہیں اترتی اسے شعوری یا غیر شعوری طور پر غلط سمجھتے ہیں۔ اسی کیفیت کے متعلق حکیم الامت نے کہا تھا:

تھا جو ’ناخوب‘ بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

ہم ذرا اپنی مارکیٹوں میں نکل کر دیکھیں، سڑکوں اور شاہراؤں پر دوڑتی زندگی پرغور کریں، سیاست و حکومت کی طرف نظر دوڑائیں، تعلیمی اداروں میں قدم رکھیں، کلاس میں کھڑے استاد اور پروفیسر سے مکالمہ کریں۔ کیسے کیسے غلامی ومحکومی کے مظاہر نظربآتے ہیں۔ اسی کے متعلق اقبال نے کہا تھا:

خواجگی میں کوئی مشکل رہتی نہیں باقی
پختہ ہو جاتے ہیں خوئے غلامی میں جب غلام

اہل مغرب نے اپنی تہذیب کاتسلط قائم رکھنے اور بیداری کی کسی بھی تحریک کو ناکام کرنے کے لیے خوئے غلامی میں رنگے ہوئے کچھ ایسے غلام پیدا کیے ہیں جوتعلیم، سیاست اور صحافت کے ارباب بن کر دن رات مغرب کے گن گاتے ہیں۔ قوم کو مغرب کی ترقی اور اس کی خوشنما تصویر دکھا کر اس کے احسان گنواتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں نسل نو کے نوخیز ذہنوں کو غلامئی افرنگ پر رضا مند کرتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک ایسے غلامانہ ذہن کے دانشور ہر غلام قوم میں رہے ہیں جو غیروں کا تسلط قائم رکھنے کا کام کرتے ہیں اور یہی استعمار کے تنخواہ خور یا مرعوب ذہن قوموں کے زوال کا باعث رہے ہیں۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کو بنیاد پرست، انتہاپسند اوردہشت گرد ثابت کرتے ہیں جبکہ مغرب کو ترقی، امن پسندی اور آزادی کا تمغہ دیتے ہیں، کبھی حقوق نسواں کا نعرہ لگائیں گے، کبھی حقوق انسانی کے علمبردار بنیں گے اور کبھی معاملات کی تاویلیں کرکے قوم کو میٹھی گولی کھلائیں گے:

شاعر بھی ہیں پیدا علما بھی حکما بھی
خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ
مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک
ہر ایک ہے گو شرح معانی میں یگانہ
بہتر ہے شیروں کو سکھا دیں رم آہو
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضا مند
تاویل مسائل کو بناتے ہیں بہانہ

ایسے اسلام بیزار روشن خیال وکیلان مغرب سے وہ سوال کرتے ہیں۔
باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے
مشرق میں اگر جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ یورپ سے درگزر؟

دنیامیں ازل سے تہذیبوں کی ایک جنگ بپاہے اور افکار و نظریات کا تصادم اس جنگ کا حصہ ہے۔ کسی بھی تہذیب کی بقاء اور کامیابی اس بات میں ہے کہ وہ انسانوں کے مسائل کوطکس قدر حل کرسکتی ہے اور قوموں کو متاثر کرنے کی صلاحیت کتنی ہے۔ انہوں نے ازل سے جاری تہذیبوں کے تصادم کی جانب یوں اشارہ کیا تھا:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرار بو لہبی

اقبال نے اس بات کو جانتے تھے کہ مغربی تہذیب کا انجام موت ہے۔ کیونکہ اس نے انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیاہے اور یہ اپنی موت کا سامان آپ کرے گی۔ اس لیے انہوں نے امت مسلمہ کو اس کے دام سے نکلنے اور اسلام کی روشن اور متوازن تہذیب کی نشاۃ ثانیہ کے لیے مسلمانوں کو تیار کرنے کی کوشش کی تھی اور تہذیب افرنگ کی بے ثباتی کو بھی عیاں کرنے کی بھی:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کر ے گی
شاخِ نازک پہ جو آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

اس لئے ہمیں مغرب کی تقلید سے گریز کرتے ہوئے اسلام کی روشن روایات کو زندہ کرنا چاہیے کیونکہ غلامی کی خواہش رکھنے والی قومیں ہمیشہ غلام ہی رہتی ہیں جبکہ دنیا میں سربلندی حاصل کرنے والی قومیں اپنی روایات پر قائم ہوتی ہیں۔ پھر اسلام تو وہ دین ہے جو آسمان سے انسانوں کے لئے تاقیامت اترا ہے اور جو دنیا و آخرت کی کامیابی کا ضامن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).