کراچی میں دیگ ہی الٹ گئی


راچی کی سیاست میں چوبیس گھنٹے میں واقع ہونے والی برق رفتار تبدیلیاں دیکھ کر ایسا لگا کہ اس شہر کی کچی پکی سیاسی ڈش کھلانے کی جلدی میں دیگ ہی الٹ گئی ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے اس سیاسی ملغوبے کی تیاری میں ناکامی کا ملبہ اپنے سر تھوپنے کی کوشش بھی جس مہارت اور سرعت سے ناکام بنائی وہ بھی دیدنی تھی۔

متحدہ کی سیاست کے گڑھ کراچی نے چوبیس گھنٹوں میں جو دیکھا وہ ہضم کرنے میں دقت پیش آ رہی ہے۔ آخر ایسی برق رفتاری کی انجنیئرئنگ کون کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

ادھر سیاسی اتحاد کی ہانڈی ابھی چولھے پر پورے طریقے سے چڑھی بھی نہیں تھی کہ دبئی میں تشریف فرما سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے اس کا خیرمقدم بھی کر دیا۔

کراچی کے سیاسی ڈرامے سے ایک سبق اس کے انجنیئروں کو ضرور ملا ہے کہ سیاسی حل نکالنا منٹوں یا دنوں کا نہیں بلکہ طویل الوقت اور وسائل طلب ہوتا ہے۔

ابھی لوگوں کے ذہنوں سے فاروق ستار اور مصطفی کمال کی اچانک مشترکہ پریس کانفرنس کے حوالے سے کئی سوالوں کے جواب تلاش ہی کیے جا رہے تھے کہ تمام صورتحال نے نیا رخ اختیار کر لیا۔

سب سے پہلے تو اس بات پر قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ اس مشترکہ اتحاد کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ فاروق ستار نے اپنی پریس کانفرنس میں سیاسی قبضے اور اس کے نتیجے میں بٹنے والے مہاجر ووٹ کی بات کی، جس کا تعلق متحدہ کے درجنوں کارکنان کی پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت سے ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جامعہ کراچی کے پروفیسر جعفر احمد نے کہا کہ ’کہیں نہ کہیں دونوں جماعتوں میں یہ سوچ ہے کہ اگر دونوں الگ الگ رہتے ہیں تو آنے والے انتخابات میں دونوں جماعتوں کے لیے صورتحال مایوس کن ہو جائے گی کیونکہ بنیادی حقائق یہ ہیں کہ باقی سیاسی عناصر بھی میدان میں موجود ہیں جس بات کا اندازہ یوں ہوتا ہے کہ پچھلے سال سے لے کر اب تک متحدہ کے کئی کارکنان نے پیپلز پارٹی میں شمولیت لی اور اب پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کی بات کی جارہی ہے جس سے ووٹ تقسیم ہونے کا خدشہ ہے ـ تو انھوں نے سوچا کہ ضرورت یہی ہے کے ہم ایک ساتھ ہوجائیں ـ‘

متحدہ کے منحرف کارکنان دیگر جماعتوں میں شمولیت کی بڑی وجہ الطاف حسین کی 22 اگست کی تقریر سے زیادہ متحدہ کے خلاف کراچی میں ہونے والا آپریشن بتاتے ہیں جس میں ان کے کئی کارکنان اب تک لاپتہ ہیں ـ

اس مشترکہ اتحاد کی ضرورت کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اب تک مصطفی کمال کو انتخابات میں نہیں آزمایا گیا ہے جس کے لیے انھیں متحدہ کی ضرورت ہےـ جعفر احمد کہتے ہیں کہ یہ بات تب سامنے آئی جب مصطفی کمال نے پاکستان کے نام پر اپنی جماعت تو تشکیل کر دی لیکن بعد میں دیکھنے میں یہ آیا کہ ان کا ووٹر اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ مہاجروں میں ہی ہوسکتا ہے کیونکہ سندھ کے پختون یا سندھی ان کی طرف مائل نہیں ہیں ـ ’یہ یوں ثابت ہوا جب حیدرآباد کے جلسے میں صرف اردو بولنے والے ہی شامل ہوئے۔‘

اور دوسری طرف متحدہ کو اپنی سیاسی ساخت پی پی پی کے ہاتھوں کھونے کے ڈر سے پاک سر زمین کے نتیجے میں تقسیم ہونے والے مہاجر ووٹ کی ضرورت ہے۔

لیکن جعفر احمد کہتے ہیں کہ یہ اتحاد کے نقات یہاں تک کے منشور تک واضح نہیں ہے اور لگتا ہے کہ ’اتحاد بنانے کا فیصلہ اجلت میں کیا گیا ہے جو فاروق ستار کی پریس کانفرنس کے دوران ان کے چہرے پر ظاہر تھی۔‘

اس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اتحاد بنایا گیا ہے؟

اس بارے میں جعفر احمد کہتے ہیں کہ ’یہ اتحاد مصنوئی معلوم ہوتا ہے جو کچھ حد تک اسٹیبلیشمنٹ کے زور میں آکر بھی بنایا گیا ہے کیونکہ وہ بھی سمجھتے ہیں کہ سندھ کے شہروں کو دوسری جماعتوں کے لیے کھولنے سے بہتر ہے کہ انھی سے کام چلایا جائے اور ان کی آپس میں صلح کرائی جائےـ‘

انھوں نے کہا کہ انجینئرنگ کا ہونا کوئی حیرانگی کی بات اس لیے نہیں ہے کیونکہ ایسے کام پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ اس کی مثال انھوں نے این اے 120 کے الیکشن کی دی جہاں نواز شریف کا ووٹ بینک نئی جماعتوں کی ذریعے توڑنے کی کوشش کی گئی۔

پریس کانفرنس کے دوران فاروق ستار نے مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کی جدوجہد کو بھی تسلیم کیا۔

لیکن ان حالات میں کیا حقیقی کو اتحاد میں شامل کیا جائے گا؟

’بہت مشکل لگتا ہے۔ کیونکہ اتنے سالوں میں حقیقی کا سیاسی کام نظر نہیں آیا، کسی وقت میں وہ طاقتور تھے لیکن اس وقت یہی دو جماعتیں ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ مصطفیٰ کمال نے اپنے آپ کو متحدہ کے مہاجر نعرے سے کافی حد تک الگ کرتے ہوئے پاکستان کی باقی قومیتوں کا نام لیا جس سے دونوں جماعتوں میں فاصلہ بہت حد تک بڑھ گیا۔ لیکن آخر میں دونوں جماعتوں کو ووٹ لینے ایک ہی ووٹر کے پاس جانا پڑے گا اور ایک ہے نعرہ بلند کرنا پڑے گاـ

فرحان صدیقی کا تعلق قائد اعظم یونیورسٹی کے سکول آف پولیٹکس سے ہے جہاں وہ ایسوسئیٹ پروفیسر ہیں۔ انھوں نے پاکستان کی لسانی سیاست پر سندھی، مہاجر اور بلوچ موومنٹ پر کتاب لکھی ہےـ ان کا کہنا ہے کہ متحدہ کے پچھلے بیس سالوں کی سیاست میں مہاجر نعرہ نہیں سنائی دے رہا تھاـ ’اس مشترکہ اتحاد سے وہ نعرہ پھر سے ابھرا ہےـ جس کی وجہ ایک طرف ان کے خلاف آپریشن کا ہونا اور دوسری جانب ان کو مقامی سطح پر اقتدار کی منتقلی کا نہ ملنا ہےـ تو ایک طرف صوبائی مسائل ہیں اور دوسری طرف ریاست کے ساتھ ان کے مسائل ہیں جن کی وجہ سے یہ نعرہ دوبارہ سے گونجا ہےـ‘

انھوں نے ساتھ میں یہ بھی کہا کہ ’فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کی سیاست بنیادی طور پر لسانی نہیں ہے تبھی ایک متحدہ قومی موومنٹ ہے اور دوسری پاک سرزمین کے نام سے ہے۔ لیکن بنیادی مسائل کو ایڈریس کرنے کے علاوہ جو اہم لڑائی ہے وہ پھر سے پی پی پی اور متحدہ کے بیچ میں لڑی جاۓ گی۔‘

اس بارے میں جعفر احمد نے کہا کہ دونوں جماعتوں کا ووٹر ایک ہے لیکن ’چاہے ان کا سیاسی اتحاد سابق صدر پرویز مشرف کے ساتھ بنے یا آپس میں، لیکن الطاف حسین کی اپنے ووٹرز کے ساتھ جو ایک جذباتی وابستگی تھی وہ اپیل باقیوں میں نہیں ہے۔ حالانکہ بہت حد تک ایم کیو ایم مائنس الطاف ہوبھی جائے گی لیکن الطاف حسین والا رحجان اگر تو ختم ہوگیا ہے تو وہ دوبارہ نہیں بن پاۓ گا۔‘

فاروق ستار کی سیاست سے دستبرادی اور پھر دو گھنٹوں میں واپسی کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ انجینیئر دوبارہ اتحاد کی کوشش کرتے ہیں یا یہ اب ایک قصہ پارینہ بن چکا ہے۔

سحر بلوچ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp