فیمینسٹ بکری اور بکرے کا سینگ


حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک پاکستانی اداکارہ کی جہاز میں فلمائی گئی ایک متنازع ویڈیو دیکھی، جس میں وہ کسی صاحب کو فلمانے پر بضد تھیں۔ اس کے نتیجے میں آنے والے کچھ جذباتی نوجوانوں کی آرا پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ پہلے تو ذہن میں ایک معروف محاورہ ابھرا، ”جب بکری نے مارا، بکرے کو سینگ؛ تو بکرا بھی مارے گا، بکری کو سینگ“۔ ( اس محاورے میں بکرا، بکری کو حسب صورت احوال، ادھر ادھر کی جا سکتا ہے)

خیر! اس وِڈیو کے ردِعمل میں کسی ”کاکے“ نے یہ شوشا چھوڑا کہ ایسی حرکت کسی لڑکے نے خاتون کے ساتھ کی ہوتی، تو جنگل میں آگ لگ جاتی؛ دُنیا ختم ہو جاتی؛ وغیرہ۔ (آگ بہرحال اس پہ بھی لگ ہی گئی) نیز اسی جملے نے میرے چھوٹے سے دماغ کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ”فیمن ازم کا نعرہ لگانے والو! اب بھگتو!“

ہمارے یہاں آج کل کے بچوں کو چھہ کلمے نہیں آتے، لیکن فیمن ازم کی تعریف معلوم ہے۔ ایک تو فیمن ازم کی ”تعریف“ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ مغربی لفظ ہے، اس کی ”ڈیفینیشن“ ہی ہونا چاہیے۔ جناب! فیمن ازم کا مطلب ہے، کہ مرد اور عورت معاشرے میں برابر کے حقوق رکھتے ہیں۔ چناں چہ اس نظریے کے تحت دیکھا جائے تو ”بکرا بکری اور سینگ“ والی مثال، بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔ اگر آپ اس مثال کو بوگس کہہ کر رد کردیں، تو پھر یہ بتائیے اور بھلا کس طرح سے برابری ہوگی؟

اس فیمن ازم کے ٹنٹنے کی وجہ سے وہ دن دور نہیں، جب مغرب کی یہ وبا ہمارے اونچے طبقے سے ہوتے ہوئے درمیانی طبقے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہوگی۔ محلے کی کوئی خاتون جب کھڑکی سے منہ نکال کر پڑوس کے بچے سے دہی منگوانا چاہیں گی، تو جواب ملے گا آپ خود لے آئیں جا کر، اب آپ اور ہم برابر ہیں۔

میں خدانخواستہ عورتوں کے حقوق کے خلاف بات نہیں کررہی، بلکہ کچھ عرصہ قبل میں خود کو فیمنسٹ کہتی رہی ہوں، مگر اس نام کی آڑ میں جس طرح ہماری خواتین کو بھٹکایا جارہا ہے، اور جس طرح اس کا غلط پرچار کیا جاتا ہے، میں اس کے خلاف ہوں۔ میں نے ایک فیس بک فورم پر ایک برانگیختہ خاتون کی پوسٹ دیکھی، جس میں وہ اس بات پر ناراضی کا اظہار کر رہی تھیں، کہ بیویوں پر بنائے گئے طنزیہ لطیفے ہماری صنف پر کھلا حملہ ہیں۔ اب بتائیے جس معاشرے میں اس فیمن ازم کے نام پر لوگوں کی حس مزاح سلب کی جا رہی ہو، وہ کیسا خشک رنگ ہو جائے گا؛ شاید ایک وقت آئے گا، جب قومی اسمبلی میں ایسے مزاح کو ”ہراسمینٹ“ قرار دینے کا بل پیش ہوگا۔

عورتوں کے حقوق، اس فیمن ازم کی بوتل کے جن سے کہیں زیادہ قدآور اور وسیع ہیں۔ وہ کسی نے کہا ہے ناں کہ عورتیں مردوں کی برابری کے لیے پیدا نہیں ہوئیں، بلکہ وہ کام کرنے کے لیے پیدا ہوئی ہیں، جو مرد بھی نہیں کر سکتے۔

اس تحریک کو لے کر کے ہمارے معاشرے میں جو تذبذب پایا جاتا ہے، وہ مجھے اس وقت سمجھ آیا جب ایک دن میری سہیلی کا غم و غصے سے بھرا مسیج آیا، کہ ”ہم عورتیں صرف غلام ہیں ان مردوں کی، چاہے بیوی کے روپ ہی میں کیوں نہ ہوں“۔

میں نے گھبرا کر فورا اسے فون کیا اور ماجرا پوچھا تو اس نے بتایا کہ اسے شوہر سے نوکری کی اجازت نہیں مل رہی، کیوں کہ وہ کہتا ہے میری کمائی ہماری اگلی نسل کے لیے کافی ہے۔ یوں اس بات پر جھگڑا ہو گیا۔ میں نے اسے تسلی دی اور پھر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد اجازت لی۔ اس کے بعد میں مسلسل یہی سوچتی رہی، جب تک کہ اگلی صبح گھر کی صفائی کرنے والی نازو نہیں آگئی۔ میں نے اس سے پوچھا، کل کہاں غائب تھیں تم؟ اس نے بتایا گھر والے سے جھگڑا ہوا تھا۔ کہتا ہے اور کام ڈھونڈ، صبح جا کر دُپہر کو آ بھی جاتی ہے، مسٹنڈی۔ میں نے بھی ضد میں آ کے کہا، نہیں کرتی میں نوکری!

میں اس کی بات پر ششدر سی رہ گئی۔ کل شام کی اپنی اعلی تعلیم یافتہ دوست کا جملہ میرے کانوں میں گونجنے لگا اور میں اس مخمصے کو سلجھانے کا طریقہ ڈھونڈنے لگی لیکن اب تک الجھی ہوئی ہوں۔

بس اتنا سمجھ سکی ہوں کہ ہمارا معاشرہ اس کشتی والی جھولے میں سوار ہو گیا ہے، وہ جو پہلے ایک سرے کی اونچائی پر جاتا ہے، تو دوسرا سرا زمیں سے لگنے لگتا ہے اور پھر یہی عمل دوسرا کونا دُہراتا ہے۔ اس کشتی کے ایک کونے پر حقوق نسواں کے شدت پسند علم بردار سوار ہیں اور دوسرے سرے پر شاونسٹ مرد۔ بیچ میں وہ لوگ ہیں جو اونچائی پر جاتے سرے کو دیکھ دیکھ بس اپنی گردنیں گھماتے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).