کیا پاکستان میں کوئی عورت ”سیکرٹ سوپرسٹار“ بن سکتی ہے؟


 

عامر خان جب بھی سلور سکرین پر جلوہ گر ہوتے ہیں کمال کر دیتے ہیں۔ ان کی فلموں میں ہمیشہ کسی نہ کسی سماجی مسئلے پر روشنی ڈالی کر معاشرے میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پچھلے ہفتے گھر والوں کے ساتھ سیکرٹ سوپر سٹاردیکھی اور تب سے اس فلم کا سحر ہم سب پر طاری ہے۔

یہ فلم ہمارے گھروں کی کہانی ہے۔ یہ ایک ایسے سخت گیر باپ کی کہانی ہے جو گھر میں داخل ہوتے ہی چہرے پر غصہ اور منہ پر قفل ڈال لیتا ہے اور ذرا ذرا سی بات پر بیوی کو مارنے پیٹنے لگتا ہے۔ یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو شوہر کو ناپسند کرتے ہوئے بھی اس کے ساتھ رہنے پر مجبور ہے۔ وجہ وہی روائیتی ہے کہ یہاں سے نکل کر میں کہاں جاؤں گی؟ میرے بچوں کا کیا ہوگا؟ یہ ایک ایسے گھرانے کی کہانی ہے جہاں بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔ ایک ایسا گھرانہ جہاں بیٹیوں کو صرف اسی لیے پڑھایا جاتا ہے تا کہ ان کی اچھی جگہ شادی ہو سکے۔ یہاں بیٹیوں کو شادی کا خواب دیکھنے کے علاوہ اور کوئی خواب دیکھنے کی اجازت نہیں۔

ہمارے ہاں بھی ہر دوسرے گھر میں بھی یہی صورتحال ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ ہم میں سے بیشتر اس کو قبول نہیں کرتے۔ یاد رکھیں کہ جب تک ایک مسئلے کو قبول نہیں کیا جائے گا تب تک اس کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے معاشرے کو ایک بہتر معاشرہ بنانے کے لیے ہمارا پہلا قدم مسائل کی نشاندہی اور ان کو قبول کرنا ہونا چاہئیے۔

عامر خان کی فلم سیکرٹ سوپرسٹار میں مرکزی کردار نبھانے والی زائرہ وسیم (انسو) سوپر ستارہ ہے۔ ایک سخت گیر باپ کی وجہ سے وہ اپنا موسیقی کا شوق ایک برقعے کے پیچھے چھپ کر پورا کرتی ہے۔ کیسے وہ ایک عام لڑکی سے ایک جانی مانی گلوکارہ بنتی ہے، کہانی اس بارے میں ہے۔ اس سفر میں اس کا ساتھ اس کی والدہ دیتی ہیں۔ انسو کی امی اس فلم کی اصل سیکرٹ سوپر سٹار ہیں۔ وہ ان سب عورتوں کے لیے ایک مثال ہیں جو ایک اَن چاہے بندھن میں تمام تر تکالیف کے باوجود بھی بندھی رہتی ہیں۔ کبھی بچوں کے مستقبل کا خوف ان کے قدم روک لیتا ہے تو کبھی خاندان کی عزت ان کے پاؤں پکڑ لیتی ہے۔ انسو کی امی بھی اپنے شوہر کا ہر ظلم انہی وجوہات کی بناء پر چُپ چاپ برداشت کرتی ہیں۔ وہ اپنے شوہر سے مار کھاتی ہیں، اس کے گھر آنے پر سہم جاتی ہیں اور اُس کے گھر سے جانے پر اطمعنان محسوس کرتی ہیں۔ یہ کیسا رشتہ ہے؟ اس سب کے باوجود وہ اس شادی کو ختم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ انسو انہیں طلاق لینے پر مجبور کرتی ہے مگر وہ اس کو جھڑک دیتی ہیں۔ آخر میں وہ اپنی بیٹی کے شوق کے لیے اپنے شوہر کے سامنے ڈٹ جاتی ہیں اور اس سے الگ ہو جاتی ہیں۔ اس سین پر سنیما میں موجود تمام لوگ تالیاں بجانے لگے جو ہمارے معاشرے میں دبے قدموں آنے والی تبدیلی کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔

میں سوشل میڈیا پر کافی متحرک ہوں۔ مختلف پیجز اور گروپس میں شمولیت اختیار کی ہوئی ہے۔ دو چار خواتین کے گروپ میں بھی شامل ہوں۔ ان گروپس میں اکثر شادی شدہ خواتین ایک دوسرے سے اپنے مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے پائی جاتی ہیں۔ کسی کو شوہر کو سدھارنے کے لیے وظیفہ چاہیے تو کوئی ساس کے مظالم سے پریشان ہے۔ کسی کو سسرال والے اپنے گھر نہیں جانے دیتے تو کسی کو اس کی ساس بچے نہیں سنبھالنے دیتی۔ میں ان خواتین سے ہمیشہ پوچھتی ہوں کہ اتنے مسائل کے باوجود بھی آپ اس شادی کو کیوں قائم رکھے ہوئے ہیں؟ بیشتر خواتین جواب دیتی ہیں کہ یہ سب تو زندگی کا حصہ ہے اور بطور عورت قربانی دینا ان کا فرض ہے۔ دوسری وجہ ان کے بچے ہیں جن کی زندگی وہ اپنی طلاق کی وجہ سے خراب نہیں کرنا چاہتیں۔

ایک عورت نے بتایا کہ اس کی ساس اسے اپنے بچوں کی دیکھ بھال بھی نہیں کرنے دیتی۔ جیسے ہی بچہ پیدا ہوتا ہے وہ اس کو اپنے قبضے میں کر لیتی ہیں اور ماں کے پاس صرف دودھ پینے کے لیے بھیجتی ہیں۔ وہ عورت بہت پریشانی میں تھی۔ اپنے بچوں کو ہی پیار نہیں کر سکتی، انہیں جی بھر کر دیکھ بھی نہیں سکتی، اپنے ہاتھ سے کھلا بھی نہیں سکتی۔ ساس کا کہنا ہے کہ تم ان کی تربیت نہیں کر سکتی۔ یہ ہمارے بچے ہیں انہیں تمہارے سائے سے بھی دور رکھنا چاہتی ہوں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اتنی تذلیل کے بعد بھی آپ اسی جگہ کیوں رہ رہی ہیں؟ اس نے کہا کہ میں پھر کہاں جاؤں گیَ؟ نہ تعلیم ہے، نہ ماں باپ اب زندہ ہیں، بھائی اپنے اپنے گھروں کے ہیں۔ بس ایک اللہ ہے جس کے سہارے میں یہاں رہ رہی ہوں۔ وہ ایک دن ضرور ان لوگوں کے دل بدلے گا۔

اسی طرح کئی خواتین ہیں جن کے شوہر ان کے ہوتے ہوئے کسی اور عورت کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ ان کی موجودگی میں ہی فون پر لمبی لمبی گفتگو کرتے ہیں مگر پھر بھی یہ ان کے ساتھ رہ رہی ہیں۔

مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ کوئی انسان کیسے اپنی زندگی ضائع کر سکتا ہے۔ ایک ناکام شادی میں زبردستی بندھے رہنا نا صرف ان دونوں کی ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ بچوں کی زندگی کو بھی تباہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ زندگی ایک بار ملتی ہے لیکن زندگی کا ساتھی دوبارہ مل سکتا ہے۔ یہ جاننے کے باوجود بھی ہمارے ہاں کی ”مشرقی خواتین“ اپنی تذلیل کے باوجود اس رشتے میں بندھی رہتی ہیں۔

یہ خواتین بھی کیا کریں۔ جس معاشرے میں لڑکیوں کا نصیب ایک مرد کو سمجھا جاتا ہو وہاں ان کا اپنے پیروں پر کھڑا ہونا کسے پسند آ سکتا ہے۔ انٹر کی پوزیشن ہولڈر وردہ پر ہونے والا ظلم اس بات کا ثبوت ہے۔ جہاں عورتوں کو شادی سے انکارپر قتل کرنے کی کوشش کی جاتی ہو وہاں طلاق لینے پر ان کا کیا حال کیا جاتا ہوگا، اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہم لوگ سنیما سکرین پر سیکرٹ سوپرسٹار دیکھ کر تالی بجا سکتے ہیں مگر ہمارے اردگرد کسی عورت کو ”سیکرٹ سوپرسٹار“ بنتا دیکھ کر ہمارے منہ سے بس طعنہ ہی نکلتا ہے۔ جانے ہمارے منہ کب بند ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).