قوم کو بنانے والی سوچ یا پھر دائمی نا خواندگی


میری ایک کولیگ کا تعلق نیوزی لینڈ سے ہے۔ وہ چالیس سال سے پاکستان میں مقیم ہیں، یعنی انھوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ پاکستان میں گزارا ہے۔ اُنھیں کریلے بہت پسند ہیں۔ وہ اکثر کہتی ہیں کہ جب وہ رِٹائر ہو کر واپس نیوزی لینڈ چلی جائیں گی، تو کریلوں کو بہت یاد کریں گی؛ کیوں کہ نیوزی لینڈ میں یہ سبزی نہیں اُگائی جاتی۔ اُن کو ہر سال اپنے ویزے کی معیاد بڑھانا پڑتی ہے اور اکثر یہ عمل کٹھن بھی ہوجاتا ہے۔ ایک دِن کہنے لگیں کہ ”میں ایمبسی والوں سے کہوں گی، مجھے ویزا دیا جائے، کیوں کہ میں کریلے کھائے بغیر کیسے رہ سکتی ہوں“۔

میں نے اُن سے کہا، کہ وہ نیوزی لینڈ میں کسی انڈین مارکیٹ سے خرید سکتی ہیں؛ انھوں نے جوابا کہا کہ ”وہ تازہ نہیں ہوں گے“۔ میں نے ایک اور مشورہ دیا کہ وہ یہاں سے بیج لے جائیں اور وہاں یہ سبزی اگائیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ایسا بھی نہیں کرسکتیں، کیوں کہ ایسا کرنے پر ایک تو اُن کو جرمانہ ادا کرنا ہو گا اور پھر نیوزی لینڈ کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے اور اگر یہاں کے بیج میں کوئی خاص کیڑا یا پودوں کی بیماری وغیرہ ہوئی تو ہمیں نقصان ہو سکتا ہے، اِس لیے وہ ایسا نہیں کریں گی۔

میں حیران ہوئی کہ اِتنے بڑے ملک میں چند گز کی زمین پر پاکستان سے لے جائے ہوئے بیج کو اُگانے سے، ملک بھر کی فصلوں پر کیا اثر ہو سکتا ہے؛ اور اگر واقعی اُس بیج میں کوئی خاص کیڑا ہوا، یا پودوں کی کوئی بیماری ہوئی تو اُس کے پھیلنے میں تو کئی سال لگ جائیں گے؛ لیکن ترقی یافتہ ممالک کے باشندوں کے سامنے ایک ”بگ پکچر“ ہوتی ہے۔ وہ ہم سے سو سال آگے کا سوچتے ہیں، جو اُن کی ذہنی خواندگی کا ثبوت دیتا ہے۔

دائمی امراض کا تو آپ نے سُنا ہی ہو گا! امریکا میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق دائمی امراض لاعلاج ہیں۔ بظاہر اگر ان کے اثرات دکھائی نہ بھی دیں، تو بھی یہ بیماریاں جسم میں موجود رہتی ہیں۔ دائمی بیماری کو کنٹرول تو کیا جا سکتا ہے، لیکن اِسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ امریکا میں 65 سال کی عمر میں تقریباً ہر امریکی کسی ایک دائمی مرض کا شکار ہو جاتا ہے، جو تا دَمِ مرگ رہتی ہے۔

پاکستان کی شرح خواندگی ساٹھ فی صد بتائی جاتی ہے۔ ایک حد تک تو یہ خوش آیند بات ہے، کہ ماضی کی نسبت ہماری شرح خواندگی بڑھ رہی ہے، لیکن بحیثیت پاکستانی قوم ہمیں جسمانی دائمی بیماریوں کے علاوہ ذہنی ’’دائمی ناخواندگی‘‘ کا مرض بھی لاحق ہے۔ تعلیم شعور پیدا کرتی ہے۔ اچھی اخلاقیات اور ملک و قوم کی اجتماعی ترقی کی سوچ بھی تعلیم سے وابستہ ہے، اور جو تعلیم ایسا کرنے سے قاصر ہو اُسے ناخواندگی کے زُمرے میں شامل کیا جاتا ہے۔

گزرے دِنوں دفتر میں کسی نے بتایا کہ گوجرنوالہ میں سبزیاں تلف کر دی گئی ہیں، جو ملک بھر کی مختلف منڈیوں میں سپلائی ہونے والی تھیں، کیوں کہ اِن سبزیوں کو فیکٹریوں کے آلودہ پانی سے سراب کیا گیا تھا۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو پودوں کی بیماریوں کے بارے میں فکر مند ہیں اور سو سال آگے کا سوچتے ہیں اور ایک طرف ہم ہیں کہ انسانی جان کی بھی قدر نہیں ہے۔ ممکن ہے، اِن سبزی فروشوں نے تعلیم بھی حاصل کی ہو اور اِن کے اندراج میں ’’خواندہ‘‘ بھی لکھا ہو، لیکن دائمی ذہنی ناخواندگی و پس ماندگی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ سو سال آگے کی سوچنا تو محال، ہم چند ماہ آگے کا سوچنے سے بھی قاصر ہیں۔ میں اُس دِن سے یہی سوچ رہی ہوں، کہ اگر یہ سبزیاں منڈی میں آجاتیں اور اِن کے مالکان بیج بھی محفوظ کر لیتے تو کیا ہوتا!

ایک دِن جرمنی میں مقیم ایک پاکستانی دوست نے ایک پوسٹ شیئر کی۔ وہ بتاتے ہیں کہ جرمنی میں اُن کے گھر کے قریب بس سٹاپ پر تین ڈِبے پڑے ہوتے ہیں، جس میں لوگ پیسے ڈالتے ہیں۔ یہ ڈِبے کسی خیراتی ادراے یا مذہبی عمارت کی تعمیر کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اِن ڈِبوں میں مختلف میڈیا گروپوں کے اخبارات ہوتے ہیں۔ جرمن شہری ڈِبے میں مطلوبہ اخبار کی قیمت کے مطابق سکہ ڈالتے ہیں اور اپنی پسند کے میڈیا گروپ کا اخبار اُٹھا لیتے ہیں۔ اخبارات کو کسی تالے میں نہیں رکھا جاتا بلکہ یہ سرِعام ڈِبوں کے اوپر رکھے ہوتے ہیں۔ وہاں کوئی کیمرا نصب نہیں کیا گیا۔

مزید لکھا کہ ایک دِن ایک بزرگ آئے۔ انھوں نے اپنے بٹوے میں سکہ تلاش کیا، جو مل کے نہ دیا؛ بزرگوار واپس جانے لگے تھے، کہ ایک دوست نے اُنھیں سکے کی پیش کش کی۔ بزرگ نے شکریہ ادا کرتے انکار کیا اور کہا کہ وہ قریبی مارکیٹ سے ریزگاری لے آتے ہیں۔ وہ مارکیٹ گئے، وہاں سے ریزگاری لی اور ڈبے میں سکہ ڈال کر اخبار اُٹھالیا۔ دوست نے کہا کہ ”آپ کل بھی تو سکہ ڈال سکتے تھے“، جس پر محترم نے کہا کہ ڈال تو سکتا تھا، اگر اخبار والے آج کے فروخت ہونے والے اخبار کا حساب کرتے اور ایک اخبار کی قیمت فروخت کم پڑتی، تو جرمن قوم پر سے ان کا اعتبار اُٹھ جاتا۔

ترقی یافتہ اور یورپ کے ممالک کے باشندوں کے اِس طرح کے واقعات آپ نے بھی سُنے ہوں گے۔ میں جب جب انفرادی ذہنی خواندگی کے واقعات سُنتی ہوں تو حیران ہوتی ہوں کہ ساٹھ فی صد تک شرح خواندگی کے باوجود ہمارے یہاں ایسا کلچر کیوں فروغ نہیں پارہا، جس میں عملی معنوں میں یہ دیکھا جا سکے کہ ’’توں لنگ جا، ساڈی خیر اے“۔ (تم پہلے گزر جاو، میں بعد میں گزر جاوں گا) یہ فقرہ آپ نے اکثر ٹرکوں اور رکشوں کے پیچھے لکھا دیکھا ہوگا، لیکن حقیقت میں ہم اِس کے برعکس ہیں، کہ ’’ٹھیر زرا، مجھے گزرنے دے، باقی تو جا بھاڑ میں‘‘۔

میں ہر روز آفس سے واپسی پر جب گھر جاتی ہوئی، تو مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے میں کمپیوٹر کی کسی وِڈیو گیم میں آ گئی ہوں، اور اِس گیم کا رِموٹ کنٹرول ایسے بچوں کے ہاتھ میں ہے جو اپنے آگے آنے والی ہر گاڑی کو تباہ کرتے جا رہے ہیں؛ گویا ایسا کرنے ہی سے وہ جیت سکتے ہیں۔

ایک دوست نے سڑک پر ہونے والا روزمرہ کا ایک واقعہ سنایا، کہ ریل گاڑی کا گزر تھا اور پھاٹک بند کردیا گیا تھا۔ گاڑی کے آنے میں کچھ تاخیر تھی تو موٹر سائیکل سوار پھاٹک کا بیریئر اُٹھا کر گزرتے جاتے تھے۔ ایک شخص نے ایک چھابڑی والے کو مشورہ دیا کہ ’’تو کیوں انتظار کررہا ہے؛ بیریئر اُٹھا اور نکل جا‘‘۔ موصوف خود بھی ایسے ہی گزرنے لگے۔ موٹر سائیکل پر اُن کے ساتھ اُن کا نوخیز بیٹا بھی تھا۔ بہت سے موٹر سائیکل سوار اپنے بچوں کو اسکول لے جا رہے تھے اور سب ہی پھاٹک کے بیریئر اُٹھا کر گزر رہے تھے؛ یوں وہ ’’دائمی نا خواندگی‘‘ کی بیماری اپنی اگلی نسل تک بھی بڑی جاں فشانی سے منتقل کرتے جا رہے تھے۔

ہماری قوم تعلیم حاصل کرنے یا کاروبار حاصل کرنے میں پانچ چھہ سال تو بڑی آسانی سے ضائع کر دیتی ہے، لیکن جب سڑک پر آتے ہیں تو ایک سیکنڈ بھی لیٹ ہونا پسند نہیں کرتے۔

میں سوچتی ہوں کہ آخر اِس بیماری کا کوئی نہ کوئی تو علاج ہوگا؟ یعنی ’’دائمی ناخوندگی‘‘ کا۔ چلو بیماری ختم نہ ہو، لیکن کنٹرول تو کیا جا سکتا ہے۔ یہی سوچ رہی تھی کہ ایک اور دوست نے پاکستان میں ہونے والا ایک واقعہ شیئر کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک دِن وہ اپنے چار سالہ بھانجے کے ساتھ کہیں جا رہے تھے، کہ سرخ بتی پر رک گئے۔ بھانجے نے دریافت کیا کہ یہاں کیوں رُکا گیا ہے۔ جواب پر بچے کو ٹریفک قوانین کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ واپسی پر وارڈن نے زرد بتی ہی پر گزرنے کا اشارہ کردیا، کیوں کہ ٹریفک زیادہ نہیں تھی۔ اِس پر بچے نے پھر دریافت کیا کہ ہمیں تو سبز بتی پر آگے بڑھا تھا پھر زرد بتی پر کیوں گاڑی چلادی گئی؟ دوست کو بچے کو یہ بات سمجھانے میں خاصی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔

اگر ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اِس ’’دائمی ناخواندگی‘‘ کی بیماری سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں، یا اِس بیماری پر قابو پانا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنے بچوں سے یہ کام شروع کرنا ہوگا؛ کیوں کہ آج کے بچے کل کا مستقبل ہیں۔ اگر یہی بچے ہماری ذہنی خواندگی کا عملی مظاہرہ دیکھتے جوان ہوئے، تو وہ اِسی عمل کو دہرائیں گے۔ قومیں بیٹھے بٹھائے ہی عظیم نہیں بن جاتیں، بلکہ اِس کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ محنت کی تربیت کے آغاز کی صحیح عمر بچپن ہے۔ حضرت سلیمان ؓ کا فرمان ہے:
’’لڑکے (بچے) کی اُس راہ میں تربیت کر، جس پر اُسے جانا ہے، وہ بوڑھا ہوکر بھی اُس سے نہیں مڑے گا‘‘۔
(الکتاب، امثال 6:22 )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).