اسٹیبلشمنٹ کی ڈگڈگی اور ایم کیو ایم


پہلے پہل تھا کوٹہ سسٹم کے خلاف جنگ، پھر اردو اسپیکنگز کو لالچ دیا گیا کہ سرکاری نوکری دلوائیں گے۔ پھر خوف دلایا کہ تم سے نفرت کی جاتی ہے ہتھیار اٹھا لو، پھر ہر تھالی کے چٹے بٹے بنے، ہر قوم سے تعصب رکھا، قوم کے تعلیم یافتہ سے لے کر جاہل تک سب صرف اور صرف محرومیوں کا رونا روتے رہے اور دوسری طرف محلات، شادی ہال اور شاپنگ مالز پر مشتمل جائیدادیں بنتی رہیں۔ جو لیاقت آباد، اورنگی ٹاون، پی آئی بی، عزیز آباد کی پارٹی ہوا کرتی تھی اس نے ڈیفنس، دوبئی، لندن اور امریکا میں مزے لینے شروع کیے۔ قیادت قوم کو وہی مرثیہ سناتی رہی، قتل و غارت کے سلسلے بھی چلتے رہے اور گورنمنٹ کے مزے بھی لوٹتے رہے۔ سرکاری خزانے سے کراچی کا فنڈ بھی آتا رہا اور تاجر، صنعتکار سے لے کر ٹھیلے پتھارے والے کی جیب سے بھتہ بھی جاتا رہا۔ دھونس دھمکی اور جبر ظلم سب سامنے تھا مگر آفرین ہے اردو اسپیکنگز پہ جو پھر بھی ایسے کیچڑ کو ماتھے پہ سجانے پر راضی تھے کہ چلو تنکے کا سہارا ہی تو ہے۔ برابر کی ذمہ دار وہ اسٹیبلشمنٹ بھی تھی جس کی کوکھ سے اس پراگندہ جماعت کا جنم ہوا جس نے ہزاروں نوجوان نگل لیے۔

گالیاں بھی سب سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کو دی جاتیں اور اس کی گود میں سب سے زیادہ جھولے بھی یہی جماعت جھولتی۔ جب جبری سامعین کو زندہ لاشیں کہا تو زندہ لاشوں اور مجبور میڈیا ہاوسز میں جان پڑ گئی اور کسی حد تک سہی، تھوڑا بہت بولنے کا حوصلہ ملا۔ بات پھر عشروں بعد بھی جوں کی توں تھی تو لوگوں کو بیوقوف بنانے کو ایک اور لالی پاپ دے دیا کہ ’منزل نہیں رہنما چاہیے‘ یعنی وہ رہنما جس کی لغو زبان اور ظالمانہ ذہنیت سب پہ واضح تھی مگر پھر بھی قوم نے اپنی رہنمائی اس کے سپرد کی۔ لاکھوں یا کروڑوں نہیں بلکہ اربوں کا بھتہ دینے والا شہر اس قابل بھی نہ تھا کہ ایک صوبے کا گورنر، نظامت اور متعدد پارلیمینٹیرین رکھتے ہوئے بھی کبھی بھولے بھٹکے ہی کوٹہ سسٹم پہ آواز تو اٹھائے۔ قتل و غارت، ہڑتالیں، دنگا فساد، بھتہ خوری، دھونس دھمکی اور چائنہ کٹنگ کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی مگر کہیں سے تو آشیرواد حاصل تھا ہی جو دو کروڑ آبادی کا شہر منٹوں میں بند ہوجاتا تھا۔

کہتے ہیں جب سانپ سپیرے کے قابو سے باہر ہونے لگے تو اس سے جان چھڑانی پڑتی ہے۔ ایسا ہی کچھ اس جماعت کے ساتھ ہوا۔ ایک ٹھیکیدار نے یونیورسٹی کے نام پہ اس جماعت کی قبر کھودنی شروع کی۔ کمال دکھانے والے ناظم کو اپنا ملازم رکھا اور خود اس جماعت کی نبض پہ ہاتھ۔ کمزوریاں جان کر پہلے بازو مروڑنا شروع کیا۔ لاچار و مجبور میڈیا میں بھی جان پڑ گئی اور اس کی بھی آواز نکلنے لگی کچھ کام موصوف رہنما کے شبینہ شوق نے پورا کیا۔ آہستہ آہستہ صنعتکار، پتھارے دار سب نے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا۔ جب الیکشن میں واضح ہو گیا کہ لوگ واقعی جان چھڑانا چاہ رہے ہیں تو فرشتوں کو فیصلہ کرنے میں مشکل نہ ہوئی۔

لیکن کہتے ہیں کہ میدان کھلا نہیں دینا چاہیے۔ چنانچہ لانڈری لگائی گئی۔ ٹھیکیدار کے کمال کرنے کے شوق نے جماعت کے کپڑے مزید اتارنے شروع کیے۔ آئے دن میڈیا پہ تماشا لگتا رہا اور کچھ نہ کچھ اندرون خانہ پکتا رہا۔ ڈیڑھ سالہ ناٹک کے اختتام پہ اب اصرار کرتے ہیں کہ کراچی کا مینڈیٹ بچا رہے ہیں۔ ارے جناب صاف کہیں کہ کھلا میدان نہیں چھوڑ رہے۔ پچھلے انتخابات میں لوگوں نے بتا دیا تھا کہ ایک متبادل وجود میں آچکا ہے اب آپ پھر مظلومیت بھری قوم کو ایک خوف دلاتے ہیں کہ تمہارے شہر پہ قبضہ ہونے لگا ہے۔ قبضہ تو آپ کا تھا۔ آج جب چہار سو دیکھو تو کچرے کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں، پانی پینے کا نہیں، بجلی کا بحران ہے، ماحولیاتی آلودگی کے سد باب کے لئے کوئی منصوبہ نہیں، نوجوان جن کی سوچ اور زندگیاں آپ نے برباد کر دیں ان کے لئے کوئی منصوبہ نہیں، وزارت صحت آپ لیتے تھے ہسپتالوں کی حالت کیا ہوئی، گورنر صاحب اپنے نام کے کالج تو بنا گئے مگر یہ نہ سوچا کہ ان گریجویٹس کو سسٹم میں کہاں اور کیسے ایڈجسٹ کریں گے۔ جب لاشوں کی ریس تھمی ہے تو آپ کہتے ہیں بھول جاؤ سب۔ کیسے بھول جائیں بلدیہ فیکٹری کے راکھ ہوئے غریب۔ کچھ کروڑ کے پیچھے آپ سب کے نام آتے ہیں چاہے ’پاک‘ والے ہوں یا ’ناپاک ’ والے۔

کہا جاتا ہے کہ جب ظلمت ضیاء نے جماعت اسلامی کو پٹہ ڈالنا تھا تو ایم کیو ایم کے سر پہ ہاتھ رکھا گیا۔ یہ سمجھ سے باہر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا کونسا بلونگڑا زیادہ خونخوار اور تباہ کن ثابت ہوا۔ تازہ تازہ تو یہ پھڈا تھا کہ پارک ہتھیانے کے چکر میں ٹھیکیدار صاحب نے جو 5 ارب یا بہت سے لوگوں کے مطابق 10 ارب کراچی کا کچرا صاف کرنے کے نام پر ناظم صاحب کو عطیہ کیے تھے وہ کس کس کے اکاونٹ میں پہنچے کیونکہ جناب کچرے کے پہاڑ تو وہیں کے وہیں ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ اتنے سال شہر پہ قابض رہنے والوں نے آبادی کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو دیکھتے ہوئے شہر کی صحت و صفائی کے بارے میں کبھی کچھ نہ سوچا؟

آج سبق پڑھاتے ہیں کہ ”اس ہی بھائی کی کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کرائیں گے“ تو جناب کھوئی عظمتیں صرف ذلت کی شکل اختیار کرتی ہیں۔ بھائی ہو یا قصائی، آپ حساب دیں کہ اردو اسپیکنگ قوم کو اب کونسے اور کتنے لالی پاپ دینے باقی ہیں۔

ابھی یہ کالم لکھا جا رہا ہے اور تین گھنٹے سے نیوز چینلز پر ایک ڈرامہ چل رہا تھا۔ چلیں خاتمہ بالخیر ہوا کہ امی صاحبہ آگئیں ورنہ ایک تو لڑکا کہہ رہا تھا میں خود کو گولی مار لونگا۔ یاللہ یہ مارتے مارتے تھک گئے تو اب مرتے مرتے مریں گے۔ خیر اسٹیبلشمنٹ کے گملے میں لگے ایسے کتنے ہی پودے اپنی شاخوں سے خون اگلتے رہے اور شاید آگے بھی یہ سلسلہ چلتا رہے۔ کبھی لسانیت تو کبھی مذہب کے نام پر۔ پکڑا جائے گا تو صرف ادنی کارکن۔ وہی رینجرز، وہی پولیس، وہی فوج اور آخر میں وہی قیادت ہو گی جو ہمیں بتایا جائے گا کہ ”ہنسی خوشی رہنے لگے“ کیونکہ اس شہر کی قسمت عشروں سے وہ لکھ رہے ہیں جو نہ نوری ہیں نہ ناری ہیں۔ اللہ میرے شہر کو اس کی مستحق حیثیت لوٹائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).