مدارس میں اصلاح: کچھ گزارشات


کسی بھی طالب علم کے لیے اس سے زیادہ باعث افتخار کیا ہو سکتا ہے کہ اس کی کسی بات کو اس کا استاد جواب دینے کے لائق سمجھے۔ مدرسۃ الاصلاح میں جتنے دن بھی میں نے کسب فیض کیا، اس پورے عرصے میں جن اساتذہ نے مجھ پر خصوصی شفقت فرمائی، ان میں مولانا محمد عمر اسلم اصلاحی دام ظلہ کا نام سر فہرست ہے۔ مولانا کے دروس کی مجالس میں بیٹھ کر علم کے جو دریچے کھلے، ان سے حقیر آج تک استفادہ کررہا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے ایسی عظیم درس گاہ سے علم حاصل کیا اور ایسے جلیل القدر اساتذہ کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کر سکا۔ مدارس میں اصلاحات کے حوالے سے میرے مضامین پر استاذ محترم کا مضمون سہ روزہ دعوت مورخہ 10 نومبر 2017ء صفحہ نمبر 4 میں ایک مضمون ”استدراک بر ایک تلخ حقیقت کا اظہار“ نظروں سے گزرا۔ استاذ عالی مرتبت کو جواب دینے کی نہ تو میں جسارت کر سکتا ہوں، نہ میرا مقام ہے، لیکن ان کی مجلسوں میں شاگردوں کو علمی مباحثے کی نہ صرف اجازت ہوتی ہے، بلکہ استاذِ محترم اس کی حوصلہ افزائی بھی فرماتے ہیں اس لیے میں انتہائی ادب کے ساتھ کچھ نکات کے ذریعے اپنا موقف پیش کرنا چاہتا ہوں۔

مولانا نے اپنے مضمون کے ابتدائی حصے میں فرمایا ہے، کہ مدارس میں اصلاح کے حوالے سے میرا مضمون سہ روزہ دعوت 22 اکتوبر 2017ء کے شمارے میں ’’ایک تلخ حقیقت کا اظہار‘‘ کے عنوان سے جو کہ معروف ویب پورٹل ”ہم سب“ میں بھی ”مدارس کے طلباء کا ذہنی لیول“ کے نام سے شائع ہو چکا ہے، کو دیکھ کر انھیں مایوسی ہوئی۔ ان کا کہنا ہے چوں کہ سوشل میڈیا پر مضمون پہلے ہی وائرل ہو چکا تھا اور اس پر مدارس سے وابستہ افراد نے سخت اعتراضات اٹھائے تھے، اس لیے انھیں لگتا تھا کہ میں یہ باب بند کردوں گا۔ ان کے بقول وہ سمجھتے ہیں کہ میں نے میڈیا کا باقاعدہ کورس کرکے دن کے اجالے میں اس میں قدم رکھا ہے، اس لیے مدرسۃ الاصلاح کی بھی بہتر نمایندگی کروں گا۔

استاذِ محترم کی خدمت میں میری گزارش یہی ہے کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے اگر اس سے میرا مقصود محض تخریب کاری، لوگوں کو چڑانا، اکسانا یا مزے لینا ہوتا تو میں سوشل میڈیا پر ہلچل مچنے کے بعد اپنا کلیجا ٹھنڈا کرکے بات ختم کر دیتا، لیکن میں نے وہ مضمون خلوص نیت کے ساتھ لکھا تھا۔ مدرسۃ الاصلاح میں مجھے یہی سبق ملا ہے کہ جہاں کہیں اصلاح طلب بات نظر آئے اس کی طرف نشان دہی کی جائے اور اس کام میں یہ تفریق بالکل نہ کی جائے کہ یہ معاملہ گھر کا ہے یا باہر کا۔ آگے بڑھنے سے قبل استاذ محترم اور دیگر قارئین کی خدمت میں اس امر کا اظہار ضروری خیال کرتا ہوں کہ مضمون عمومیت کو سامنے رکھتے ہوئے لکھا گیا تھا اور مدرسۃ الاصلاح کا نام محض جملہ معترضہ کے طور پر آیا تھا، وہ اس لئے کہ دیگر مدارس کے مقابلے میں وہاں کا نصاب بہرحال منفرد اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔

خیر آمدم بر سر مطلب، استاد محترم میرا مضمون مدارس اور اسکولوں کے درمیان تقابل پر تھا ہی نہیں۔ فارغین مدارس ریاستی نصاب کے درجہ آٹھ کی سطح کی اہلیت نہیں رکھتے، اس سے میرا مقصد یہ عرض کرنا تھا، کہ اس دور میں ایک پڑھے لکھے انسان سے دنیاوی معاملات اور مسائل کے حوالہ سے جو کم از کم معلومات کی توقع دنیا رکھتی ہے، ہمارے زیادہ تر فارغین مدارس کے پاس وہ آگہی بھی نہیں ہوتی۔ آٹھویں درجے کی مثال میں نے قصدا اس لیے دی تھی کہ اس درجے تک طالب علم کو ذہنی طور پر دنیاوی معاملات سے باخبر کیا جاتا ہے۔ اس درجے تک اسے درخواست لکھنا، ریاست کی زبان میں اپنا مافی الضمیر ضبط تحریر میں لانا، سائنس، سماجیات، جغرافیہ اور تاریخ کا بنیادی تعارف، ضروری انگریزی اور حساب یہ تمام چیزیں سکھا دی جاتی ہیں۔ اب اس بات کو سامنے رکھ کر اگر میں ایسے فارغین مدارس کو پاؤں جو میونسپلٹی میں پانی نہ آنے کا، شکایتی خط لکھنے سے معذور ہوں، پولیس میں چوری کی شکایت درج کرانے کی درخواست تک ترتیب نہ دے سکتے ہوں، بی اے میں داخلہ کا فارم بھرنے کے لئے یونیورسٹی ہی کے کسی طالب علم کے محتاج ہوں، سائنس، تاریخ اور جغرافیے کے بنیادی تصورات سے بے خبری میں مبتلا ملیں تو میں اسے کیا سمجھوں؟ میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا، کہ میں ریلوے اسٹیشن کی ٹکٹ بکنگ لائن میں کھڑے ایسے بہت سے فارغین مدارس سے ملا ہوں جو ریزرویشن کا فارم تک نہیں بھر پاتے۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ ایسے بھی ہیں جو اس دائرے میں نہیں آتے لیکن جو آتے ہیں وہ اتنے ہیں کہ انھیں استثنا کے دائرے میں ہرگز نہیں رکھ سکتے۔

استاذ محترم نے فرمایا، کہ انھوں نے لفظ مُسَدَّس مدرسہ اور اسکول کے بچوں سے پڑھوا کر دیکھا۔ اسکول والوں نے مسدس غلط پڑھا اور مدرسے والوں نے صحیح تلفظ بتایا۔ انتہائی ادب سے عرض کروں کہ اگر انھوں نے یہی امتحان اردو لفظ پڑھنے کے بجائے کوئی سائنسی سوال، تاریخ، جغرافیہ، سماجیات، انگریزی، حساب یا فنون لطیفہ سے متعلق کیا ہوتا تو کیا انھیں یقین ہے کہ مدرسے کے طالب علم کی کارکردگی اسکول کے طلبا سے بہتر ہوتی؟

استاذ عالی قدر فرماتے ہیں کہ اگر مدارس کے طلبا کا معیار اتنا خراب ہے تو انھیں یونیورسٹیوں میں بی اے میں داخلہ کیسے مل جاتا ہے؟ اس کا جواب زرا تلخ ہے لیکن موقف کے اظہار کے لیے مجھے کہنا پڑے گا۔ یونیورسٹیوں میں بی اے میں داخلہ پانے والے نوے فی صد مدارس اسلامیات، عربی، اردو اور کچھ فارسی کے شعبوں میں داخلہ پاتے ہیں۔ ان شعبوں میں داخلے کی درخواست صرف مدارس کے فارغین ہی دیتے ہیں، اس لیے جیسا بھی ہو کورس چلانے کے لیے یونیورسٹی والوں کو طالب علم تو لینے ہی ہیں۔ میری بات کی تصدیق کے لیے کسی بھی یونیورسٹی کے مذکورہ شعبوں میں جاکر معلوم کیجیے کہ کتنے طلبہ مدارس سے فارغ نہیں ہیں؟ آپ کو شاید ہی کوئی ایک آدھ طالب علم ملے گا۔ بات تو اس وقت بنتی جب مدارس کے فارغین کو سماجی امور، سماجیات، نفسیات، جغرافیہ، تاریخ، لائبریری سائنس، سیاحت میں بی اے میں داخلہ مل جاتا۔

استاد محترم کے ایک اور سوال کے جواب میں، میں زیادہ تفصیل میں جائے بغیر عرض کرنا چاہوں گا، کہ 2006ء میں مدرسے کے ایک قاسمی استاذ کی مخالفت میں زمین آسمان کس طرح ایک کیا گیا، اس پوری ٹریجڈی کے پیچھے کون لوگ تھے؟ مثالیں اور بھی ہیں لیکن میں صرف اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔ ان کی کتنی قدر ہے؟ اسی سے اندازہ لگائیے کہ ان کی تمام ترعلمی لیاقتوں کا اعتراف اور عزت افزائی کے بجائے انتظامیہ نے انھیں نہ نکالنے کی جو وجہ بتائی، وہ یہ تھی کہ مولانا سب سے زیادہ چندہ لاتے ہیں۔ تنقید اور اصلاح کی تدبیر سے کس کو مفر ہے، لیکن تنقید اور تذلیل کے درمیان بڑا فرق ہے اور میں اس کو نہیں مان سکتا کہ اصلاح کے معزز اساتذہ اس فرق سے اتنے غافل ہوں گے کہ گفتگو میں غلطی سے حدِ فاصل کو عبور کر جاتے ہوں گے۔

مدارس میں اصلاح کے بارے میں میری گزارشات سے نالاں مخالفین کے لیے ”گِدھ کی طرح نوچنے“ کی تعبیر استعمال کرنے پر بھی استاد محترم کو اعتراض ہے۔ اس بابت فارغین اور ذمہ داران مدارس نے میری جن الفاظ میں مذمت کی ان کو اگر میں نقل کردوں، تو استاذ محترم کو اندازہ ہوگا کہ میں نے گِدھ کی طرح نوچنے کا محاورہ بہت کم کرکے استعمال کیا ہے۔ تنقید سے مجھے کہاں تکلیف ہے لیکن میری ذاتی زندگی کے بارے میں جو باتیں سوشل میڈیا پر کہی گئیں، مجھے کافر اور ملحد قرار دیا گیا، ہنود اور یہودیوں کا چمچا بتایا گیا، مجھے پھر سے کلمہ پڑھنے کے مشورے دیے گئے۔ یہ سب مدارس کے فارغین اور ذمہ داروں نے کیا۔ اس صورت احوال کو میں ”گِدھ کی طرح نوچنا“ نہ کہوں تو کیا علمی مباحثے کا نام دوں؟

حضرت نے کئی جدید شعبوں کی فہرست گناتے ہوئے لکھا ہے کہ فضلائے مدارس ان تمام شعبوں میں موجود ہیں۔ مجھے تسلیم ہے لیکن تلخ پہلو یہ ہے کہ ان شعبوں میں مدارس کے فارغین کی موجودگی اتنی کم ہے، کہ اس کو استثنا کہے بغیر چارہ نہیں۔ لاکھوں فارغین میں چند ایک کے وکیل، ڈاکٹر، لیکچرر بننے کا اطلاق تمام یا اکثر فارغین مدارس کے کریئر پر نہیں ہوتا۔ یہ طلبا بھی ان شعبوں میں یونیورسٹیوں کے طفیل میں پہنچے ہیں۔ جہاں تک یونیورسٹی کے فارغین کی نوکریوں کا سوال ہے تو اول تو زیادہ تر کو اچھی ملازمتیں مل جاتی ہیں اور جو نوکریاں نہیں حاصل کر پاتے وہ بھی کسی علمی شعبے ہی میں ذریعہ معاش کی کوئی راہ نکال لیتے ہیں، یا سماج میں کہیں نہ کہیں فٹ ہو ہی جاتے ہیں، جس طرح مدارس کا ہر فارغ اعلیٰ عہدے پر نہیں، اسی طرح یونیورسٹی کے ہر فارغ کا بھی آئی اے ایس افسر ہونا لازمی نہیں ہے۔ یونیورسٹیوں سے نکلے طلبا کے روزگار اور مدارس کے فارغین کے روزگار کا تناسب دیکھیں، تو مدارس والے شاید کہیں نہ ٹھیریں۔

ہندوستان میں روزانہ تیس ہزار افراد روزگار کے لائق بن کر مارکیٹ میں آتے ہیں، ایسے میں کچھ افراد کو ملازمت ملنے میں ہونے والی تاخیر کوئی حیران کن امر نہیں ہے۔ مدارس والے ذریعہ معاش کے لیے جو کام اور اجرت پاتے ہیں، کیا اس کا تقابل دنیاوی اداروں کے فارغین کی ملازمت اور تنخواہ سے ہو سکتا ہے؟
استاذ کا فرمانا ہے کہ مدارس سے نکلنے والے طلبا میں قابلیت کی کمی ہی کا ذکر کیوں؟ جدید علوم کے قابل افراد کی بھی تو قلت ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ قابلیت کی قلت عموما رہتی ہی ہے لیکن یہ بھی توجہ طلب پہلو ہے کہ ادھر تیس چالیس برس کے درمیان ہندوستان میں کوئی ایسا بڑا عالم دین نظر نہیں آتا، جس نے غیر معمولی کارنامہ انجام دیا ہو۔ دعوت کے کام کی ہی بات لیجیے تو ڈاکٹر ذاکر نائک کا نام سامنے ہے۔ نظریاتی اختلافات سے قطع نظر اسلام کی دعوت دینے کے معاملے میں اس شخص نے منفرد کام کیا، لیکن کیا وہ مدرسے سے فارغ ہیں؟ دنیا ستاروں پر کمندیں ڈال رہی ہے؛ جب کہ ہم ابھی تک ایک دوسرے کی تکفیر اور حیض و حلالہ کی بحثوں ہی میں الجھے ہوئے ہیں۔ پھر یہ بھی کہ ہر مسلمان کے علمی کارنامے کو مدرسے کا کارنامہ گرداننا میرے لیے مشکل ہے۔ میرے سامنے تاریخ ہے جس میں لکھا ہے کہ جدید علوم کے ان باباوں کے ساتھ اہل مدارس کا رویہ بہت دُرشت اور تحقیر آمیز رہا ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سارے علوم مدارس والوں نے ہی دیے ہیں، تو پھر میرا طالب علمانہ سوال یہ ہے کہ اس خوش فہمی پر ابھی کتنی صدیوں تک مسلمان اور جئیں گے؟

اوروں کی طرح استاذ محترم نے بھی سچر کمیٹی کے اعداد و شمار، چار اور چھیانوے فیصد والی بات کہی ہے یعنی مدارس میں محض چار فی صد ہی مسلم طلبا پڑھنے جاتے ہیں، باقی 96 فیصد اسکول کا رخ کرتے ہیں، اس لیے محض چار کی فکر نہ کرکے چھیانوے کی فکر کرنی چاہیے۔ میرا عرض کرنا اتنا ہے، فکر تو چار نہ چھیانوے، صد فی صد کی کرنی چاہیے، چوں کہ یہاں اعداد و شمار کی بات کی گئی ہے تو بتا دوں کہ یہ آنکڑا ہی اپنے آپ میں انتہائی ناقص ہے۔ اگر میں صرف اسی کا جواب لکھنے بیٹھوں تو ایک مضمون تیار ہو جائے گا۔ اس لیے اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں یہ واضح کرتا چلوں کہ یہ تعداد مصدقہ نہیں ہے، کیوں کہ سرکاری ایجنسیوں کے پاس صرف ان مدرسوں کے اعداد و شمار ہیں، جو کسی بورڈ سے منظور ہیں جب کہ یہ بورڈ صرف بارہ ریاستوں میں ہے اور ان ریاستوں میں بھی بہار و بنگال اور کیرل کے علاوہ برائے نام، پھر ان میں بھی بے ضابطہ مدرسوں کی تعداد منظور شدہ مدرسوں سے کئی گنا زیادہ ہے جن کا کوئی لیکھا جوکھا کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس پر ایک مفصل مضمون زیرِترتیب ہے۔

ملک کے نظام میں اہل مدارس کی شمولیت کے حوالے سے میری گزارش، بس اتنی سی ہے کہ مدارس کے طلبہ مملکت کے معاملات سے اتنے بد ظن نہ کر دیے جائیں، کہ انھیں اس سے کچھ تعلق ہی نہ رہے۔ ملک میں سیاسی نمایندگی، فیصلہ سازی کے عمل کے دوران ہونے والے مباحث، ملک کو درپیش سفارتی، اقتصادی، داخلی اور دیگر مسائل پر اپنا نقطہ نظر رکھنے کے معاملے میں مدارس والوں کو بالکل کورا نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں ملک کی تعمیر کے عمل میں ایسی واضح شمولیت ادا کرنی ہے کہ خود کسی کو بتانے کی نوبت نہ آئے، بلکہ دنیا نوٹس لے۔

استاد محترم، میں نے مدرستہ اصلاح کے جس دور کا ذکر کیا ہے اس وقت میں مدرسے کی اچھی خاصی جماعتیں پاس کر چکا تھا، ایسے میں دنیاوی معاملات سے میری بے خبری کو معلومات کے ارتقائی مراحل پر محمول نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت اسکول میں میری عمر کے طلبا ملک کی کئی ریاستوں اور شاید نظام کے بارے میں خاصی بنیادیں جان چکے تھے، لیکن میری مادر علمی میں ان بنیادی باتوں سے آگاہ کیا جانا ضروری نہیں سمجھا گیا، اس لیے میں اور میرے ہم درس افراد اس سے بے خبری میں تھے۔ بارِ خاطر نہ ہو تو عرض کروں کہ مدارس میں عام طور پر عمدا طلبا کو دنیا سے کاٹ دیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ ان کی بنیادی امور سے لاعلمی کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ استاذ محترم مولانا محمد عمر اسلم اصلاحی صاحب کی جوتیاں سیدھی کرنے کے طفیل یہ حقیر اتنی سمجھ تو رکھتا ہی ہے کہ اس دور میں مدرسے میں بتائی جانے والی باتوں کی نوعیت کا تعین کر سکے۔ وہ باتیں کسی جماعت کے خلاف نہیں ہوتی تھیں بلکہ اس قسم کے جملے ہوتے تھے جن کا اطلاق بہرحال پورے ملک اور اس کے نظام پر ہوتا ہے۔ بار بار کہا جاتا کہ دشمن چال چل رہے ہیں، ہمیں نقصان پہنچانے کی سازش ہو رہی ہے، فلاں فلاں قدم کا مقصد ہمیں برباد کرنا ہے۔ پولیس اور حکومت ہندتو نواز ہیں، یہ افراد مسلمانوں کو مارتے ہیں، فسادات میں پولیس مسلمان بہنوں کی عزتیں لوٹتی ہے۔ یہ ساری باتیں اس صراحت کے بغیر بیان ہوتیں کہ فلاں جماعت کی حکومت ہے، فلاں معاملہ ریاست کی عمل داری میں آتا ہے اور فلاں مرکز کی۔ جہاں بے خبری کا یہ عالم ہو کہ طلبا کو بنیادی دنیاوی معاملات کی سمجھ تک نہیں دی گئی ہو وہاں اس قسم کی باتیں طلبا کے ذہنوں پر کیا اثر ڈال سکتی ہیں؟

میرے مضمون پر اعتراض کرتے استاذی نے بے نکیل اسے صحافت سے تعبیر فرمایا ہے۔ میرا ایک ہی مقصد رہا ہے کہ اصلاح طلب امور کی طرف نشان دہی ہو اور اس کے لیے پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ میں نے ایک لفظ بھی ایسا نہیں لکھا جو زیادتی، الزام یا بدکلامی کے زُمرے میں آتا ہو۔ مدارس سے متعلق افراد کو اگر اصلاح طلب امور کی نشان دہی کیے جانے سے تکلیف ہوئی ہے، تو ظاہر ہے شرمندگی چھپانے کے لیے ان کے پاس آسان ترین حربہ یہی ہوسکتا تھا کہ وہ مجھ پر بد زبانی اور غلط بیانی کا الزام دھر دیں۔ یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ میں نے یک طرفہ اور سخت باتیں کہی ہیں، کاش! وہ باتیں درج بھی کردی جاتیں تاکہ اس طالب علم کی رہنمائی ہوجاتی۔

مزید عرض یہ ہے کہ جب دو ہزار گیارہ میں کچھ دنوں کے لیے ڈاکٹراشتیاق احمد ظلی صاحب (موجودہ ڈائریکٹر دارالمصنفین، اعظم گڑھ) کو مدرسۃ الاصلاح کا ناظم بنایا گیا تھا، اور انھوں نے مدرسے میں تشویش ناک حد تک داخلے کی شرح میں کمی کا شکوہ کرتے ہوئے اصلاح کے طلبائے قدیم سے مشورہ چاہا تھا کہ کیسے مدرسے کے معیار کو بلند کیا جائے اور تشویش پر قابو پایا جائے تو لگ بھگ پانچ صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی خط، ناچیز کی جانب سے (6 فروری 2011ء) انھیں ارسال کیا تھا۔ یہ خط ای میل اور ڈاک دونوں ذریعوں سے بھیجا گیا تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے خط کو پڑھنے کے بعد جناب ڈاکٹر علاء الدین اصلاحی صاحب نے فون کال بھی کی تھی، اور اس بات پر خوشی کا اظہار کیا تھا کہ میں نے کئی اہم امور پر توجہ دلائی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ میرے علاوہ بھی کئی دیگر ہم دردوں نے خطوط ارسال کیے تھے اور کمیٹی نے ان کی روشنی میں انتظامیہ کو سفارشیں بھی سونپ دی تھیں، لیکن افسوس تا ہنوز اس پر کچھ بھی عمل نہیں ہو سکا۔ اس سلسلے کی حالیہ پیش رفت بھی بتاتا چلوں، اسی خط کی روشنی میں ہم چند احباب ملک بھر کے سرکردہ مدارس کے جملہ ذمہ داران و سربرہان کو ایک سفارشی خط ارسال کر رہے ہیں، جس میں ان سے حالات کے تقاضوں کے مدنظر مدارس کے نصاب میں تبدیلیوں کی گزارش کی گئی ہے، اس سلسلے میں میرے دوست اسماعیل کرخی ندوی نے بھی دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ناظم حضرت مولانا رابع حسنی ندوی صاحب کو ایک تفصیلی خط ارسال کیا ہے۔
مضمون کے آخری حصے میں استاذ گرامی نے مجھے جن دعاؤں سے نوازا ہے وہ میرے لیے تبرک ہیں۔ آپ نے خود اعتراف فرمایا ہے کہ مدارس میں تبدیلی اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اب ان معترضین کو بتانا چاہیے کہ مولانا محمد عمراسلم اصلاحی جیسے جید اور معتبر عالم دین بھی اس بات سے اتفاق فرما رہے ہیں، کیا اب وہ لوگ میری بات سے متفق ہوں گے؟

مجھے یقین ہے کہ قوم کا یہ عظیم سرمایہ ہی قرآن و سنت اور اس کی دائمی سعادت کا منبع ہیں، جن کے ہوتے ہوئے، آدمی کو مایوسی، بے اعتمادی، خوف و ہراس میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، مگر اتفاق سے ہمارے ہندوستان یا پاکستان وغیرہ میں علما کی اکثریت انھی بیماریوں کی شکار ہے، اور ان خطرات کے مارے کبھی انھوں نے اپنے دائرے سے باہر قدم نہیں نکالا۔ یہ واقعی افسوس ناک صورت احوال ہے کہ جس طبقے پر امت کو ہمت و حوصلہ دینے کی ذمہ داری عائد تھی، وہی طبقہ سب سے زیادہ خوف و ہراس کا شکار رہا ہے۔ کیا ہمارے اسلاف نے قرون اولی میں فلسفہ و کلام سیکھ کر دین کا دفاع نہیں کیا۔ کیا یہ اس دور کے جدید علوم نہ تھے اور کیا ان علوم کے فروغ میں ان کا تاریخی کردار نہیں، آٹھویں دسویں صدی میں اگر فلسفہ اور کلام سیکھنا، سقراط، ارسطو اور فلاطون کو پڑھنا فرض تھا تو آج سائنس، ریاضی، سماجی علوم اور جدید فلسفہ پڑھنا ان پر بدرجہ اولی فرض ہے۔ مدارس کے نصاب میں جس طرح کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ان کے بیان کی خاطر ایک الگ اور جامع مقالے کی تیاری کی ضرورت ہے۔ آپ حضرات کی دعائیں اور تعاون حاصل ہوں تو یہ کام بھی ان شا اللہ پایۂ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 168 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah