مسجد تو بھر دی شب بھر میں ایماں کی عدالت والوں نے


مملکت خداداد میں حکومت نا اہل، نکمی اور کرپٹ نکلے تو قاضی اس پر گرفت کرتا ہے۔ شرط بس یہی ہے کہ قاضی نیک ہو۔ خدا کا شکر ہے کہ سب سے پہلے تو آزاد کشمیر سپریم کورٹ سے خبر آئی کہ ادھر اہلکاروں کی ترقی وغیرہ کا فیصلہ کرتے ہوئے ان کی باجماعت نمازوں کو گنا جائے گا۔ پھر اسلام آباد ہائی کورٹ سے پے در پے اتنی اچھی خبریں آنے لگیں کہ اندیشہ پیدا ہوا کہ عدالتی حکم پر پاکستان میں فسق و فجور کا ایک بڑا منبع یعنی انٹرنیٹ بند کر دیا جائے گا اور ہم پاکستانی بھی مغرب کے گمراہ کن خیالات سے بچ کر شمالی کوریا کے خوش اور خوش حال شہریوں کی سی زندگی بسر کرنے لگیں گے۔ اور اب خبر آئی ہے کہ ایک قانون شکن بدمعاش کو اپنے محلے کی مسجد میں تین برس تک نماز باجماعت ادا کرنے کی سزا دی گئی ہے۔

محمد یوسف نامی ایک شخص سنہ 2014 میں غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے جرم میں پکڑا گیا تھا۔ اب 2017 کے آخر میں اس نے پولیس کی مسلسل تبلیغ کے زیراثر اپنا جرم قبول کر لیا تو سیشن کورٹ کے عزت مآب جج حلیم احمد صاحب نے اسے تین سال تک اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ عدالتی حکم کے مطابق نماز کی بروقت ادائیگی کی نگرانی امام مسجد کریں گے جبکہ ایک عدالتی اہلکار ان سے مجرم کی روزانہ کارکردگی کی رپورٹ طلب کرے گا۔

خدا جانے یہ محلے کی مسجد یوسف صاحب کے مسلک کی ہے یا بطور سزا انہیں کسی دوسرے مسلک کے امام کے پیچھے نمازیں پڑھنی ہوں گی۔ یہ بھی واضح ہے کہ شریعت میں قضا کی گنجائش ہو تو ہو، مگر عدالتی حکم میں مجرم کو یہ رعایت نہیں دی گئی۔ پتہ نہیں یہ بدمعاش کام دھندا کیا کرتا تھا لیکن جو بھِی کرتا تھا اب اسے عین ظہر اور عصر کے وقت اذان کی صدا بلند ہوتے ہی اسی طرح اپنے محلے کی مسجد میں نمودار ہونا ہو گا جیسے الہ دین کا جن چراغ رگڑتے ہی نمودار ہوتا تھا۔

لیکن ایک اندیشہ ہے۔ اگر یہ پاپی سچے دل سے نماز پڑھنے کی بجائے مکر کرتا رہا، یا دیگر نیک لوگوں کو بہکانے لگا تو کیا ہو گا؟ ایسا نہ ہو کہ خطیب صاحب منبر پر کھڑے جہاد کی فضیلت پر خطبہ دے رہے ہوں اور پچھلی صف میں یہ نمازیوں کو غیر قانونی اسلحہ بیچ رہا ہو۔ معزز جج صاحب کو اس پر غور کرنا چاہیے اور متعلقہ تھانیدار صاحب کو بھی مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کا پابند کر دینا چاہیے۔

لیکن ان بدمعاشوں سے زبردستی مسجد بھرنے سے کیا ہو گا۔ ان پاپیوں کی نیت پر حکیم الامت بھی غالباً ایسا تبصرہ کر گئے ہیں
مسجد تو بھر دی شب بھر میں ایماں کی عدالت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

ایک اور اندیشہ بھی ہے۔ اگر محلے کی مسجد میں کالعدم جہادی تنظیموں کے اراکین کا آنا جانا ہوا تو کہیں یہ پاپی ان سے نہ جا ملے اور غائب ہو جائے۔ کچھ عرصہ پہلے مظفر گڑھ میں چند چرسیوں کو پولیس نے پکڑا تھا۔ ایک سال ان سے تفتیش کی گئی، اور پھر ایک سال عدالت میں ان کا کیس چلا۔ معزز جج صاحب نے ان کو ایک سال تک علی پور شہر کی صفائی کرنے کا حکم دیا۔ ہمارا گمان تھا کہ جج صاحب نے یہ سوچا ہو گا کہ ان چرسیوں کے دماغ میں جب گٹر صاف کرتے ہوئے بدبو جائے گی تو نشے کا خیال ہوا ہو جائے گا اور وہ توبہ کریں گے۔

لیکن سرکاری وکیل صاحب نے بتایا کہ ان کو شہر کی نالیاں یا گٹر صاف کرنے کا نہیں کہا گیا تھا۔ ان کو گھاس کاٹنے کی سزا بھی دی جا سکتی ہے اور پودے لگانے کی بھی۔ اس کا فیصلہ میونسپل کمیٹی کرے گی۔ پولیس کے ساتھ اس سزا کو یقینی بنانے کی ذمہ داری میونسپل کمیٹی اور ایک پروبیشن افسر کو دی گئی تھی۔

لیکن تھانے والوں سے پوچھا گیا تو علم ہوا کہ یہ نشئی اپنی موج میں کہیں نکل گئے ہیں اور صفائی کرنے حاضر نہیں ہوئے۔ آخری خبریں آنے تک پولیس کی ٹیم ان کو تلاش کرنے نکلی ہوئی تھی۔ پولیس والے بتاتے ہیں کہ یہ غریب چرسی تھے اور مزدوری کے لئے شہر سے باہر چلے گئے۔ ایک ملتان چلا گیا، دوسرا کراچی تو تیسرا حیدر آباد۔ آخری خبریں آنے تک پولیس والے اب ان کے ورثا پر پریشر ڈالنے کا سوچ رہے تھے۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ اگر کراچی کا یہ پاپی بھی فرار ہو گیا تو جج صاحب یا متعلقہ تھانیدار صاحب بدلے میں اس کے گھر والوں کو محلے کی مسجد میں بروقت باجماعت نماز پڑھنے کی سزا دینے پر غور کریں۔ ایسے فیصلوں پر صادق، امین اور خوف خدا سے لرزاں عدلیہ کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ سو باتوں کی ایک بات، مملکت خداداد میں جیلوں کا بدمعاشوں سے بھرنا بدنامی کا باعث ہے، مسجدیں بھریں تو اچھا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar