مورین کی مصوری اور بڑھاپے کی محبت


میں جب اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے غیر معمولی واقعات کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرے ذہن کی سکرین پر ایک بزرگ خاتون کا چہرہ ابھرتا ہے جن کا نام مورین (MAUREEN) تھا۔ وہ جب مجھ سے مشورہ کرنے آئیں تو بہت دکھی تھیں۔ اس سے پہلے کہ ان کے ہونٹوں سے الفاظ نکلتے ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے شروع ہو گئے۔ میں نے رونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے اپنے پرس سے ایک تڑا مڑا کاغذ کا ٹکڑا نکال کر مجھے دیا۔ میں نے وہ کاغذ کھول کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا ’ میں نے تمہارے ساتھ جو پینتیس برس گزارے ہیں وہ وقت کا زیاں تھا‘ مورین نے مجھے بتایا کہ پینتیس برس کی شادی کے بعد ایک صبح ناشتے کی میز پر ان کے شوہر نے انہیں یہ کاغذ کا ٹکڑا دیا۔ پھر وہ اپنا سوٹ کیس لے کر گھر سے چلے گئے اور پھر کبھی لوٹ کر نہ آئے۔ مورین کے اپنے شوہر کے ساتھ زندگی کے آخری سنہری دن گزارنے کے خوابوں کے شیش محل چکنا چور ہو گئے۔ وہ اداس ہو گئیں۔ ذہنی طور پر بکھر گئی۔

مجھ سے مشورہ کرنے سے پہلے مورین نے دو اور ماہرینِ نفسیات سے مشورہ کیا تھا جنہوں نے ان کی تشخیص ڈیپریشن کی تھی اور ادویہ سے ان کا علاج کرنا چاہا تھا لیکن ان ادویہ کا کوئی فائدہ نہ ہوا تھا اور پھر ان کے فیملی ڈاکٹر نے انہیں کہا کہ وہ مجھ سے مشورہ کروں کیونکہ میں ادویہ کی بجائے سائیکوتھیریپی سے علاج کرتا ہوں۔

کئی ہفتوں کی تھیریپی کے بعد جب مورین نے اپنی شادی کے پینتیس برس کی اونچ نیچ کے سارے واقعات ‘حادثات اور تاثرات مجھے سنا دیے ‘ اپنے شوہر کی ساری شکایتیں کر لیں اور دل کا بوجھ ہلکا کر لیا تو میں نے مورین سے پوچھا ’ اپنے شوہر سے ملاقات سے پہلے آپ کیا کرتی تھیں؟‘

’ میں ایک آرٹ ٹیچر تھی اور بہت خوش تھی۔‘

’آپ مجھے اس دور کے بارے میں بتائیں‘

جب مورین نے ماضی کے بارے میں بتانا شروع کیا تو ان کے اداس چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ ایک کامیاب آرٹسٹ اور استاد تھیں۔ ان کے شاگرد ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ ان کی پینٹنگز کی نمائش ہوتی تھی۔ میں نے مورین کو مشورہ دیا کہ وہ دوبارہ پینٹنگ کرنا شروع کریں اس سے ان کی اداسی کم ہو گی۔ مورین کہنے لگیں ’ آپ خود ایک شاعر ہیں آپ میرے کہنے پر تو نظم نہیں لکھ سکتے، نظم خود آپ کے پاس آتی ہے آپ اس کے پاس نہیں جاتے‘ میں نے مسکرا کر کہا ’جب میں نئی نظم کا انتظار کرتا رہتا ہوں تو وہ جلد آتی ہے‘۔ میں نے مشورہ دیا کہ وہ ایک ایزل‘ برش اور پینٹ خریدیں اور ہفتے میں دو گھنٹے اس ایزل کا سامنے بیٹھیں چاہے کچھ بھی پینٹ نہ کریں۔ میں نے کہا یہ آپ کی تھیریپی کا حصہ ہے۔ مورین بادلِ ناخواستہ مان گئیں اور ہر ہفتے دو گھنٹے ایزل کا سامنے سادہ کاغذ کے سامنے بلینک کینوس کے سامنے بیٹھی رہیں۔

پہلے چھ ہفتے کچھ نہ ہوا لیکن اس کے بعد انہیں تحریک ہونی شروع ہوئی اور تین ہفتوں میں انہوں نے ایک خوبصورت پینٹنگ تخلیق کی۔ وہ جس اپارٹمنٹ بلڈنگ میں رہتی تھیں وہ سینیر سٹیزنز کی بلڈنگ تھی جہاں ہر ماہ سینیرز کی میٹنگ ہوتی تھی۔ ان کی ایک دوست نے مورین کی پینٹنگ سب کو دکھائی اور ایک سینیر خاتون نے چار سو ڈالر دے کر وہ پینٹنگ اپنی جوان بیٹی کے لیے خرید لی۔

اس کے بعد مورین نے دوسری پینٹنگ بنائی جو تین سو ڈالر میں بک گئی

تیسری پینٹنگ سات سو ڈالر میں بکی۔

تین پینٹنگز بنانے کے بعد مورین کو پینٹ کرنے میں بہت مزا آنے لگا۔ ان کی اداسی اور ڈیپریشن آہستہ آہستہ کم ہونے لگی۔ میں نے مشورہ دیا کہ وہ فنکاروں کے کلب کی ممبر بن جائیں۔ وہاں ان کی دوسرے آرٹسٹوں سے ملاقاتیں ہونے لگیں۔

ایک دن مورین نے مجھے دعوت دی کہ میں مقامی لائبریری میں آئوں جہاں ان کی پینٹنگز کی نمائش تھی۔ میں وہاں گیا تو انہوں نے ایک مرد آرٹسٹ JOHN سے میرا تعارف کروایا۔ مورین آئل سے پینٹ کرتی تھیں وہ بزرگ آرٹسٹ واٹر کلر کرتے تھے۔ دونوں کی دوستی ہو گئی۔

ایک دن مورین نے مجھے بتایا کہ ان کی عمر پینسٹھ سال ہے اور جون کی عمر ستر برس ہے اور وہ دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے ہیں۔ کہنے لگیں بڑھاپے کی محبت جوانی کی محبت سے بہت مختلف ہوتی ہے وہ زیادہ آزاد ہوتی ہے کیونکہ اس میں شادی کرنے کا خواب شامل نہیں ہوتا اور نہ اس کی پرواہ کہ ’لوگ کیا کہیں گے‘۔ پھر مورین کہنے لگیں کہ میں اپنے محبوب کے ساتھ اس کے شہر میں نقلِ مکانی کرنے جا رہی ہوں اور آپ کو خدا حافظ کہنے آئی ہوں۔ مورین کہنے لگیں کہ جب میں آپ کے کلینک آئی تھی اور آپ نے CREATIVE PSYCHOTHERAPY کا ذکر کیا تھا تو مجھے سمجھ نہیں آیا تھا کہ اس کا کیا مطلب ہے لیکن اب مجھے سمجھ آ گیا ہے۔

میں نے مورین کا شکریہ ادا کیا۔ جانے سے پہلے کہنے لگیں میں آپ کے لیے ایک تحفہ لائی ہوں۔ پھر مورین نے مجھے میرا پورٹریٹ دیا جو انہوں نے خود بنایا تھا۔ اس واقعے کو کئی سال بلکہ کئی دہائیاں بیت گئیں۔ میری جب مورین سے ملاقات ہوئی تھی میری عمر بتیس سال تھی اور مورین کی عمر پینسٹھ برس۔ وہ بزرگ خاتون میری والدہ کی عمر کی تھیں۔ اب میں خود پینسٹھ برس کا ہو گیا ہوں لیکن مورین کا تحفہ اب تک میرے پاس ہے اور میرے لیے ان کی یاد کو تازہ رکھتا ہے۔

میں اپنے مریضوں سے بہت کچھ سیکھتا ہوں۔ میں نے مورین سے تھیریپی کے دوران بھی زندگی‘ فن اور تھیریپی کے کچھ راز سیکھے جنہوں نے مجھے بہتر انسان اور بہتر تھیریپسٹ بننے اور انسانیت کی خدمت کرنے میں مدد کی۔ مورین اب حیات نہیں ہیں لیکن میں مورین کا تاحیات شکر گزار رہوں گا۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail