متحدہ قومی موومنٹ، دی ری میک


ہندو دھرم میں ایک عقیدہ ہے، جس کو آواگون کہتے ہیں۔ اس عقیدے کے مطابق ایک منش سات مرتبہ جنم لیتا ہے، اور ہر جنم میں مبینہ طور پر پہلے سے الگ جسم اور ساخت میں منش کی پیدائش ہوتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک جنم کے کرموں کا پھل، اگلے جنم میں ملتا ہے۔ اگر ایک جنم میں منش نائیک (اچھا آدمی) ہو تو اگلے جنم میں سکھی رہے گا۔ اگر کھل نائیک (برا آدمی) ہو تو اگلے جنم میں اپنے پاپوں کی سزا پائے گا اور پرائشچت کرے گا۔ اگر پرائشچت سپھل ہو جائے تو مکتی ملے گی۔

پڑوسی ملک میں اس عقیدے پر مبنی کئی فلمیں بنائی گئیں۔ ان میں سے کچھ فلمیں بلاک بسٹر ثابت ہوئیں۔ ”کرن ارجن“، ”اوم شانتی اوم“ اور ”قرض“ نامی فلموں نے دھوم مچا دی۔ اول الذکر دو فلموں میں ہیرو کی دوبارہ پیدائش اسی جسم کے ساتھ ہوئی، جس میں اس کی موت ہوئی تھی۔ قرض ایک ایسی فلم ہے جس میں ہیرو (راج کرن) کا مرنے کے بعد ایک نئے روپ (رشی کپور) میں پنرجنم (نیا جنم) ہوا۔ ان فلموں کا مرکزی خیال یہ تھا کہ اگر ہیرو کی موت واقع ہو جائے، یا وہ قتل کر دیا جائے تو اس کا دوسرا جنم اس لیے ہوتا ہے، کہ وہ اپنا ادھورا کام مکمل سکے۔ یا قاتل سے اپنے قتل کا انتقام لے سکے۔

ہمارے ملک میں پڑوسی ملک کی فلموں کی بے تحاشا مقبولیت کے باوجود، اس نظریے کو پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔ اس کی ایک وجہ تو ہمارا دین ہے، جو اس عقیدے کی نفی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک میں آج تک ایسا کوئی انسان نہیں دیکھا گیا، جس نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ اس نے دوبارہ جنم لیا ہے۔ غالبا اس وجہ سے ہمارے ملک میں اس موضوع پر کوئی فلم نہیں بنائی گئی۔ اگر بنائی گئی ہو تو راقم الحروف کی کم علمی سے درگزر فرمائیے گا۔

مگر کل رات پاکستان میں اس موضوع پر تین گھنٹے اور تینتالیس منٹ طویل ایک دھماکا خیز فلم ریلیز ہوئی۔ اس فلم کی نہ تو پہلے سے کوئی تشہیر کی گئی، نہ ہی کوئی ٹریلر جاری ہوا۔ فلم بینوں نے بلکہ اس فلم کو براہ راست اپنے ٹیلی وژن کی اسکرینوں پر ملاحظہ کیا۔ ایک نئے مرکزی کردار کے ساتھ پرانی کہانی پر مبنی یہ فلم ابتدائی دو سوا دو گھنٹوں تک سپر ہٹ جا رہی تھی۔ نیا مرکزی کردار اپنی بہترین اداکاری کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ مگر انٹرول کے بعد کہانی کے متوقع اختتام کی بدولت یہ دھماکا خیز فلم تہلکہ نہ مچا سکی اور اس طرح کی پہلے ریلیز کی گئی فلموں کی طرح فلاپ ہو گئی۔ البتہ نئے مرکزی کردار کی وجہ سے فلم تماشائیوں کا خوب رش لے گئی۔

اگر آپ نے گزشتہ شب، فاروق ستار صاحب کی طویل تر پریس کانفرنس دیکھنے کی اذیت اٹھائی ہو، تو ہوسکتا ہے، کہ آپ اوپر لکھی گئی سطور سے اتفاق کرتے نظر آئیں۔ آٹھ نومبر کی شام، ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کے سربراہوں کی مشترکہ پریس کانفرنس منقعد کی گئی۔ اس پریس کانفرنس میں جو کہا گیا اور جو ہوا، وہ ساری قوم نے براہ راست دیکھا۔ البتہ پریس کانفرنس کے بعد اکثر لوگ اس بات کا شکوہ کرتے پائے گئے کہ اس پریس کانفرنس کی بدولت وہ رات آٹھ سے نو بجے والے اپنے پسندیدہ ٹاک شوز دیکھنے سے محروم رہ گئے۔

مصطفیٰ کمال اپنی شعلہ بیانی کی بدولت اس پریس کانفرنس میں چھائے رہے اور سیاست میں اڑتیس برس سے متحرک فاروق ستار اپنے چہرے کے بدلتے رنگوں اور انتہائی سنجیدگی کے سبب دبے دبے نظر آئے۔ ایک جھنڈے، ایک نشان اور ایک جماعت کے تحت 2018ء کے انتخابات کی بات ہوئی۔ لیکن مصطفیٰ کمال کھل کر یہ اظہار کرتے رہے، کہ اس پریس کانفرنس کی اصل وجہ ایم کیو ایم پاکستان کا انتقال پرملال ہے۔ فاروق ستار ہکا بکا یہ سنتے رہے مگر نا معلوم وجوہات کی بنا پر ترنت اس کی تردید نہ کر سکے اور اختتام پر دبے دبے الفاظ میں کہہ گئے، کہ ایم کیو ایم پاکستان کہیں نہیں جا رہی۔ یوں یہ تاثر ابھرا کہ صلح کروانے والوں نے کراچی کی سیاست کا ایک نیا باب لکھنے کا آغاز کر دیا ہے۔ اگلے دن پاک سرزمین پارٹی کے اراکین کھل کر ایم کیو ایم پاکستان کی تدفین کا دعویٰ بھی کرتے رہے۔

اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر حق پرست عوام نے فاروق ستار کو نشانے پر رکھ لیا۔ ضمیر فروشی اور سیاست فروشی کے طعنے دیے اور اپنے غم و غصے کا اظہار انتہائی الفاظ میں کیا۔ عوامی سیاست کرنے والی جماعت کی دعوے دار ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی نے اس صورت حال کے بعد اپنا ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا۔ فاروق ستار اپنی ”ناراضی“ کے باعث اس اجلاس میں شامل نہ ہوئے۔ رابطہ کمیٹی نے اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس بھی کر ڈالی اور اس میں مصطفیٰ کمال کی کہی تمام باتوں کو رد کر دیا۔ یہ پیغام وضاحت کے ساتھ دے دیا، کہ ایم کیو ایم پاکستان کسی صورت میں اپنے نام، جھنڈے اور انتخابی نشان سے دست بردار نہیں ہو گی۔ ساتھ ہی ساتھ رابطہ کمیٹی کے اراکین نے فاروق ستار کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا، مگر تاثر یہ ابھرا جیسے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان متحد نہیں رہ سکی اور اس میں پھوٹ پڑ گئی۔

فاروق ستار کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہ بچا کہ وہ ایک ہنگامی پریس کانفرنس کریں اور اپنا ”دل“ کھول کر میڈیا اور عوام کے سامنے رکھ دیں۔ چناں چہ انھوں نے وہی کیا جو انھیں کرنا چاہیے تھا۔

22 اگست 2016ء سے پہلے چلنے والی فلمیں، اپنے غیر معیاری اسکرپٹ، غیر اخلاقی مکالموں، عامیانہ اداکاری اور غیر ضروری طوالت کی بنا پر بزنس کھوتی جا رہی تھیں۔ 9 نومبر 2017ء کو ریلیز ہونے والی فلم کا اسکرپٹ اگرچہ پرانی کہانی پر مبنی تھا، مگر مرکزی کردار میں نئی کاسٹ نے فلم میں جان ڈال دی۔

قیادت اور سیاست سے دست برداری اور والدہ کے حکم پر سر جھکا کے اپنے فیصلے سے رجوع کر نے کے مناظر پر مشتمل، اپنی عمدہ اداکاری اور جاندار مکالموں کی بدولت ”پنرجنم“ کے مرکزی خیال پر مبنی ایم کیو ایم کی پرانی فلموں کے، اس ”ری میک“ نے فاروق ستار کی دم توڑتی سیاست کو، ایک بار پھر سانس لینے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad