مولانا اور مَشر کے مابین مشترک قدریں


جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پشتون خوا ملی عوامی پارٹی، بلوچستان میں دو ایسی جماعتیں ہیں، جو پشتون پٹی میں ہر زمانے میں دوسری جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ سنجیدگی سے لی گئی ہیں۔ اول الذکر جماعت کی سیاست ’’خدا کی زمیں پر خدا کا نظام‘‘ جب کہ ثانی الذکر جماعت ’’بولان تا چترال پشتونوں کی یک جہتی، اس قوم کی محکومیت کا ازالہ اور حقوق‘‘ جیسے نعروں کے گرد گھومتی رہی ہے۔ دوسرے الفاظ میں گویا مولانا صاحب کی جماعت دین مصطفویﷺ کی وہ غم خوارجماعت ہے، جس سے راہیں جدا کرنے یا اس کے اوپر نقد کرنے والا اگرچہ کافر نہیں، گناہ کبیرہ کے مرتکب تو ضرور سمجھا جاتا ہے۔

اس حساب سے مشر محمود خان اچکزئی کی پارٹی، پشتونوں کے لیے اٹھنے والی وہ توانا آواز ہے، جس سے ٹکر لینے والوں پر ان کے مریدوں کی طرف سے مغل ِ وقت کا لقب نہ ملے، اسٹبلشمنٹ کے ایجنٹ یا لیبل توضرور چسپاں ہوتا ہے۔ ان دونوں جماعتوں کے قائدین چوں کہ اپنے آپ کو وقتاً فوقتاً افغان سرزمیں اور افغانیت کا جزو لاینفک بھی جتاتے رہے ہیں، یوں افغان سرزمیں پر پچھلے چار دہائیوں سے جاری آگ وخوں کی ہولی بھی ان کی سیاست میں مرکزی کردار ادا کرتی آئی ہے۔

افغانستان کے حوالے سے جمعیت کا موقف تو پہلے ہی سے معلوم تھا، کہ سوویت یونین کی سرخ افواج کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں کو سبق سکھانے کے لیے، یہاں طلبا کو تھوک کے حساب سے سرحد پار بھیجنا، وہاں ایک اسلامی امارت کا قیام، اس جماعت کے وہ خواب تھے، جس کی تعبیرکی شرمندگی کے لیے انھوں نے ہمیشہ پاپڑ بیلے ہیں۔ (اگرچہ ماضی کے مقابلے میں ایسے جذبات آج کل کچھ ماند پڑگئے ہیں)

اس کے برعکس اچکزئی صاحب کی جماعت کے بیانیے کا، کئی حوالوں سے منبع و ماخذ ہی افغان سرزمیں رہا ہے۔ البتہ نظریاتی طور پر مولانا صاحب اور ان کی جماعت کے درمیان بعد المشرقین بھی موجود ہے۔ مثلاً مَشر صاحب اپنی آبائی سرزمین کو روس اور امریکا کے لیے چراگاہ بننے کے تو حامی ہیں، لیکن جہاد کے نام پر مشرقی سرحد یا دیگرسرحدات سے سرایت کرنے والوں کے شدید مخالف تھے اور آج بھی ہیں۔ اسی طرح ایک سو تئیس سال قبل، ان دو ملکوں کے درمیان کھینچی گئی لکیر (ڈیورنڈ لائن) سے بھی محترم مشر اور ان کی پشتون جماعت والے اس حد تک نفرت کرتے ہیں، جیسا کہ اس کے ہوتے ہوئے پاکستان کے غیور پشتون، ایک نہ ایک دن اپنی ثقافت، شناخت، زبان اور دیگر بنیادی اقدار سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

نظریاتی اور کئی دیگر حوالوں سے، ان دونوں جماعتوں کے درمیان موجود تفاوت کی وجہ ان کے اختلافات بھی زیادہ ہوتے تھے، جو بسا اوقات کارکنوں کے درمیان جھڑپوں اور تنازعات پر منتج ہوتی رہتی تھیں۔ مجھے ماضی میں ہونے والے عام انتخابات کے مواقع پر، ان دونوں جماعتوں کے جلسے اور جلوس یاد ہیں، جب طرفین کے دینی اور قومی جذبات خوب دیدنی ہوتے تھے۔ صبح کو جمعیت علمائے اسلام کی جس اسٹیج سے روس یا پھر بعد میں امریکا نوازوں کو گالیاں دی جاتی تھیں، شام کو مخالف اسٹیج ملا، دستار اور مجاہدین کو گالیاں سننا پڑتی تھیں۔ اس زمانے کی جو باتیں مجھے زیادہ اذیت دیتی تھیں، وہ ان دونوں جماعتوں کی ایک دوسرے سے شدید عداوت، بغض اور دوریاں تھیں۔ یہ بات میرے وہم و گماں میں بھی نہیں تھی، کہ مولانا صاحب اور مَشر صاحب ایک دن اکٹھے اسٹیج پر، ایک دوسرے کے پہلو میں بیٹھ کر خوش گپیاں لگائیں گے۔ خدا کا کرنا دیکھیے، کہ میری یہ سوچ چار سال پہلے غلط ثابت ہوئی، یوں اب مجھے یقین ہوگیا ہے، کہ دنیا میں کچھ چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں، جو نظریاتی اختلافات کو بھی مات دے سکتی ہیں، اور بعد المشرقین کو مجمع البحرین میں تبدیل کرسکتا ہے۔

میری مذکورہ سوچ کو غلط ثابت کرنے میں بنیادی کردار 2013ء کے ان انتخابات نے اداکیا، جس کے طفیل مولانا صاحب اور مشر اچکزئی صاحب کے درمیان طویل عرصے بعد، کچھ مشترک اقدار  پیدا ہونے لگے ہیں۔ ان دونوں رہنماووں کے درمیان پائے جانے والے سب سے بڑی مشترک قدر حال ہی میں نااہل کردہ وزیراعظم کی ذات ہیں، جہاں دونوں سمتوں سے آنے والی محبت کی شعاعیں مرتکز ہونے کے بعد، ایک دوسرے سے بغل گیر ہوجاتے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف کی محبت نے ان دونوں کو اس حد تک ایک دوسرے سے وصل کردیا ہے، کہ اب کئی اہم ملکی ایشوز پر یہ حضرات یک جاں، دو قالب کی تصویر بنے نظرآتے ہیں۔ مثلا، اگر ہم فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کے مسئلے کو لے لیں، تو آج کل قبائلی علاقے کے مستقبل کا مسئلہ، ان دونوں کے درمیان قدرِ مشترک کی ایک بہترین مثال بن گئی ہے۔ مملکت خداداد میں یہی وہ واحد سیاسی جماعتیں ہیں، جن کے قائدین کا موقف قبائلی عوام کے بارے میں تمام سیاسی و مذہبی، سیاسی جماعتوں سے الگ ہے۔

سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے، کہ ان دو رہنماووں کی باہمی میل ملاپ کی وجہ سے فاٹا کا علاقہ، خیبر پختون خوا میں ضم نہیں ہو پارہا۔ بظاہر ان دونوں کی مبینہ دوستی، پشتون عوام اور مسلم اُمہ کے لیے کسی نیک شگون سے کم نہیں، لیکن معنوی طور پر ایسی وصل اور ربط کی سزا بے چارے قبائلی عوام بھگت رہے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں ملک کے دوسرے علاقوں میں دربدری کی زندگی بسر کرنے والے قبائلی، اپنی شناخت اور تشخص کے بارے میں اتنے پریشان نہیں ہیں، جتنا کہ ان دوعبقری سیاست دانوں کو ان کی تشخص کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ ان کے درمیان موجود دوسری قدرمشترک میاں صاحب کا عدالت عظمی کی طرف سے نااہلی کی مخالفت میں پوشیدہ ہے۔ جب کہ تیسرے نمبر پر پاکستان اقتصادی راہ داری (CPEC) کی مغربی روٹ بھی ان کے بیچ میں ایک اہم مشترک قدر رہا ہے۔

مغربی روٹ کو مشرقی روٹ سے تبدیل کرنے کے باوجود یہ دونوں میاں صاحب کی ناراضی کا ارتکاب نہیں کر پارہے تھے، کہیں ایسا نہ ہو کہ بات دور تلک نکل جائے۔ ستم ظریفی تویہ ہے کہ محترم مشر اور محترم مولانا کے درمیان پائے جانے والی، ایسی قدریں ہمیشہ قوم کے مفادات کے برخلاف ثابت ہوئی ہیں۔ جسے یقیناً نیک شگونی کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ االلہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمارے ان دو بزرگ سیاست دانوں کے درمیان مزید مشترک اقدار پیدا ہوں، البتہ قوم کے لیے نقصان دہ ہونے کی بجائے، قوم کے وسیع تر مفاد میں ضرور ہوں؛ وگرنہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).