مولانا طارق جمیل کی نواز شریف کے لئے دعا


مولانا طارق جمیل کے کلامِ تبلیغ میں بے پناہ اثر ہے۔ تبلیغی جماعت میوات قبائل کے سادہ لوح ناخواندہ مسلمانوں کے مذہبی عقائد کی اصلاح کے لئے شروع کی گئی۔ اس جماعت کا مرکز رائے ونڈ تھا جو کہ تبلیغی جماعت کے مرکز اور جاتی امرا میں شریف خاندان کے فارم ہاؤس اور پر شکوہ محلات کی وجہ سے قومی سطح پر شہرت پا گیا۔

مولانا طارق جمیل تلمبہ تحصیل ضلع خانیوال کے گاؤں آڑی والا سے تعلق رکھتے ہیں طارق جمیل اور ان کے بھائی طاہر جمیل لاھور ڈاکڑی کی اعلی تعلیم حاصل کرنے گئے۔ زمانہ طالب علمی میں طارق جمیل مغرب کے ہپی کلچر سے شدید متاثر ہوئے۔ مغربی موسیقی ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ مسجد میں قیام پذیر ایک تبلیغی جماعت کی تبلیغ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنی زندگی کی سمت بدل ڈالی۔ اسلام کی تبلیغ کے لئے خود کو وقف کر ڈالا۔ آج انہیں اسلام کی پیغام اور تبلیغ کی دعوت دیتے ہوئے پچاس برس ہونے کو ہیں۔ زمیندار خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور وسیع و عریض زرعی رقبہ کے مالک ہیں۔

میں نوے کی دھائی میں قائدِ اعظم یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا تو ان کے بھانجے میاں عامر حسنین ساہو میرے ہم جماعت تھے۔ مولانا ان دنوں اکثر قائدِ اعظم یونیورسٹی ھاسٹل تشریف لاتے اور ہم دوستوں کو نیکی کی تلقین کرتے۔ انداز بیان میں سادگی، لہجے میں خانیوال کی جانگلی زبان کی چاشنی اور ثقیل موضوعات کے بجائے عام فہم اور روزمرہ مثالوں تشبیہات نے ان کے بیان کو مقبول عام بنا دیا۔ تبلیغی جماعت کے رائے ونڈ سالانہ اجتماع میں ان کی اختتامی دعا لوگوں میں رقت طاری کر جاتی مذہب ان کا ذریعہ معاش نہ تھا۔ اپنے ذاتی وسائل اور دوستوں کے تعاون سے اپنے گاؤں میں ایک بڑے مدرسے کی بنیاد رکھی۔

مولانا طارق جمیل کی تقاریر کو جدید ذرائع ابلاغ نے کروڑوں لوگوں تک پہنچا دیا۔ وہ زمانہ ٹیپ ریکارڈر کی کیسٹ کا تھا۔ اس سے ابتدا ہوئی۔ پھر ٹی وی، ریڈیو اور اب سوشل میڈیا کے تمام ذرائع ان کے پیغام کی رسائی کا ذریعہ ہیں۔ روایتی طور پر تبلیغی جماعت سے منسلک لوگ تصویر اتارنے کو بھی درست نہیں سمجھتے لیکن مولانا کا جدید ذرائع کے ذریعے تبلیغی جماعت کے پیغام کو پھیلانا ان کی غیر روایتی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ اسی طرح مولانا طارق جمیل کی کامیابی یہ بھی ہے کہ انہوں نے اہل سیاست، شوبز، کھیل اور زندگی کے مختلف شعبہ زندگی کو اپنے بیان سے متاثر کرکے تبلیغی جماعت سے وابستہ کیا۔

مغلیہ دور سے قائم شدہ تلمبہ کا بازار حسن کو بھی دعوت تبلیغ دی گئی اور یوں اس بازار سے منسلک کئی پیشہ ور خواتین گناہ سے تائب ہوئیں۔ رمضان میں بڑے بڑے مذہبی رہنما ٹی وی پر درس دینے کے منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں لیکن مولانا طارق جمیل نے اپنے بیان کو بلا معاوضہ نشر کرنے کے حقوق تمام چینل کو دئیے۔ تبلیغی جماعت کا پیغام غیر سیاسی، غیر فرقہ ورانہ ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک سیاست مسلمانوں کو تقسیم کرنے کا سبب ہے۔ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے کے مصداق تبلیغی جماعت سیاست کے جھمیلوں سے دور ھی رہتی ہے لیکن گزشتہ دو دہائی سے مولانا طارق جمیل کے اہل سیاست سے مراسم ڈھکے چھپے نہیں۔ سندھ کے سابق وزیر اعلی ارباب غلام رحیم ہوں یا چوہدری پرویز الہٰی یا تبدیلی کے دعویدار عمران خان، مولانا کے مراسم ان سے ذاتی بنیادوں پر استوار ہیں۔ چودہری پرویز الٰہی کے برخوردار راسخ الہی تبلیغی جماعت سے منسلک ہیں لہذا اس تعلق کی وجہ سے دونوں خاندانوں میں رابطے استوار ہوئے۔ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز جب اٹک سے انتخاب میں حصہ لے رہے تھے تو مولانا نے ان کے حق میں دعا فرمائی۔

دھرنے کے دنوں میں عمران خان سے ان کی ملاقات کا بہت چرچا ہوا۔ مولانا نے عمران خان کو تین نصحیتیں کی۔ شادی کی ہدایت کی۔ حج کا فریضہ ادا کرنے کا مشورہ دیا اور لفظ سونامی کا سیاست میں استعمال ترک کرنے کی رائے بھی دی۔ عمران خان نے اپنی بساط کے مطابق تینوں مشوروں پر عمل کیا۔ میاں نواز شریف جب نوے کی دہائی میں وزیراعظم تھے تو انہوں نے مولانا کو اپنی کابینہ کو درس دینے کی دعوت دی۔ اور آج جب اخبار میں یہ خبر نظر سے گزری کہ مولانا طارق جمیل کی نواز شریف سے ملاقات اور ان کے حق نہ صرف دعا فرمائی بلکہ وظائف بتائے تو مجھے ذرا برابر بھی حیرت نہ ہوئی کیونکہ ہمارا مذہبی طبقہ، مزدور، کسان اور استحصال زدہ طبقے کے بجائے جاگیرداروں سرمایہ داروں کے حق میں ہی دعا کراتا رہا ہے۔ ظلم اور زیادتی کی شکار خواتین کے سر پر ہاتھ رکھنا مزدوروں کسانوں کے حقوق کی جدوجہد میں حصہ لینا ان کا شیوہ نہیں۔ مولانا کو میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ عدالت عظمی میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے حق میں گواہی بھی دے ڈالیں۔ اگر قطر کے حکمران نواز شریف کے حق میں خط لکھ سکتے ہیں تو یہ بڑی بات نہیں اور تبلیغی جماعت کو بھی مشورہ دے ڈالیں کہ سیاست شجر ممنوعہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).