شریف ٹھاکر، بدمعاش گبر سنگھ اور شعلے کی کہانی


رام گڑھ ایک پرسکون بستی تھی۔ ادھر ٹھاکر صاحب پولیس کی وردی پہنے راج کرتے تھے۔ ٹھاکر کے راج میں گائے بھینس ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔ گدھا گھوڑا ایک برابر سمجھے جاتے تھے۔ لوگ لانچ پر دبئی سے سونا اچھالتے آ جاتے اور کوئی نہ پوچھتا کہ بلیک منی ہے یا وائٹ۔

لیکن پھر ادھر ایک گبر سنگھ نامی ایک بدمعاش آ گیا۔ پرسکون بستی کی فضا اس کے خوف سے لرزنے لگی۔ جو گاؤں والا اس کے خلاف آواز اٹھاتا، اگلے دن اس کی لاش ایک بوری میں ملتی۔ اتنا اندھیر مچا کہ علاقے میں بوریوں کا کال پڑ گیا۔ معصوم سے باشندے سامنے دکان تک جاتے اور راستے میں چند نامعلوم افراد ٹی ٹی پستول دکھا کر ان کے بٹوے اور موبائل چھین لیتے۔ لوگ الزام لگاتے کہ یہ گبر سنگھ کے آدمی ہیں۔

لیکن گبر سنگھ کو بستی کے بعض لوگ بہت زیادہ پسند کرتے تھے۔ وہ کہتا دن ہے تو کہتے دن ہے، خواہ اماوس کی رات ہو اور روشنی کی رمق تک نہ ہو۔ وہ کہتا رات ہے تو سب کہتے رات ہے خواہ آفتا نصف نیزے پر ہو اور لو چل رہی ہو۔ وہ تھا بھی ہرفن مولا۔ اداکاری، کامیڈی، گلوکاری، بدمعاشی غرض جیسا موقع ہوتا، ویسی پرفارمنس دیتا۔

شہر میں خوشی غمی کچھ بھی ہو، گبر سنگھ کے آدمی اس میں ضرور شریک ہوتے اور شگن کے طور پر گھر والے انہیں کچھ رقم زبردستی دے دیتے۔ عید آتی تو لوگ زبردستی ٹھاکر کے آدمیوں کو پکڑ پکڑ کر قربانی کی کھال دیتے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اگر وہ قربانی کی کھال نہیں دیں گے تو ان پر آسمان سے بلائیں نازل ہوں گی اور ان کو اپنی ذاتی کھال دینی پڑے گی۔

نیک دل ٹھاکر یہ حال دیکھ دیکھ کر کڑھتا رہتا۔ اس نے گبر سنگھ کو سمجھانے کی کوشش کی مگر گبر سنگھ تو طاقت کے نشے میں بدمست سانڈ بنا ہوا تھا۔ بجائے اس کے کہ وہ توبہ کرتا، الٹا اس نے ٹھاکر کے دونوں ہاتھ کاٹ ڈالے اور وہ لاچار ہو کر رہ گیا۔

ٹھاکر نے بہت مجبور ہو کر دو جوانوں کو بلا لیا کہ وہ گبر سنگھ کا مقابلہ کریں۔ وہ دونوں چھوٹے موٹے اچکے سمجھے جاتے تھے اور ٹھاکر ان کو کئی مرتبہ جیل میں ڈال کر دھو چکا تھا۔ مگر ٹھاکر جانتا تھا کہ وہ دونوں بہت بہادر ہیں۔ ٹھاکر نے ان دونوں کو گبر سنگھ سے لڑنے پر مجبور کر دیا۔

ویرو دل پھینک تھا۔ اسے گاؤں کی ایک لڑکی بسنتی سے عشق ہو گیا۔ جے کے حصے میں گاؤں کی باقی ماندہ لڑکی رادھا آئی جو ایک نہایت اداس قسم کی بیوہ تھی۔ گبر سنگھ بسنتی کو اٹھا کر لے گیا۔ مجبوراً ویرو اور جے کو جا کر گبر سنگھ سے مذاکرات کرنے پڑے۔ بدقسمتی سے مذاکرات کے دوران ویرو اور جے کو پتہ چلا کہ ان کی گولیاں ختم ہو گئی ہیں۔ ویرو بسنتی کو لے کر گولیاں لینے چلا گیا۔ جے زخمی ہو چکا تھا۔ اس نے ویرو کو بسنتی کے ساتھ جاتے دیکھا۔ اس کے تصور میں رادھا کی رونی صورت آئی کہ گاؤں میں وہ ہو گی اور اسے زخمی دیکھ کر مزید فساد کرے گی۔ جے نے خودکش دھماکہ کرنے کا فیصلہ کیا اور گبر سنگھ کے ڈائنامائٹ کے ذخیرے میں گولی مار کر اس کے ساتھیوں کو اڑا دیا اور خود بھی مر گیا۔

ویرو واپس آیا تو اسے بہت غصہ چڑھا۔ اس نے گبر سنگھ کو مار مار کر دنبہ بنا دیا۔ ٹھاکر نے اسے یاد دلایا کہ ڈیل کے تحت گبر سنگھ اس کے حوالے کیا جانا تھا۔ ویرو نے گبر سنگھ کو ٹھاکر کے حوالے کر دیا۔ ٹھاکر نے اپنے کرکٹ کھیلنے والے نوکیلے تلوے کے جوتوں سے گبر سنگھ کے دونوں ہاتھ قیمہ کر دیے اور اسے معذور کر دیا۔ گبر سنگھ اب بستی پر اپنا کنٹرول کھو بیٹھا تھا اور ٹھاکر ایک مرتبہ پھر بستی پر راج کرنے لگا تھا۔ ویرو نے اعلان کر دیا کہ وہ بستی چھوڑ کر جا رہا ہے۔ لیکن عین وقت پر اس کی ماں آ گئی اور اس نے ویرو کو بستی چھوڑنے سے منع کر دیا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar