لالٹین پکڑنے والے….


اگلے روز برادر مکرم نے ترکی کے طیب اردوان اور پاکستان کے نواز شریف کا ایک موازنہ تحریر کیا۔ خلاصہ کلام یہ رہا کہ ” پاکستان میں سختی اور چیرہ دستی نہیں چلتی یہاں امن، محبت، آزادی، جمہوریت اور اخوت کامیاب ہے۔ مخالفوں کو دبانے سے وقتی ریلیف تو مل جاتا ہے مگر یہ مسئلوں کا دیرپا حل ہر گز نہیں۔” بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر…. سچ تو یہ ہے کہ ترکی، عراق، شام، ایران، سعودی عرب اور دیگر مسلم اکثریتی ملکوں کا احوال پڑھتے ہیں تو پاکستان سے محبت افزوں ہو جاتی ہے۔ ہمارا ملک تو اس واماندہ حالت میں بھی میاں افتخار حسین، حاصل بزنجو، تاج حیدر اور پرویز رشید جیسے سلجھے ہوئے سیاسی ذہن پیدا کرتا ہے اور قوم ایسی تیز بیں ہے کہ تلواریں بھلے کسی کے ساتھ ہوں، دل ان مسافرانِ رہِ صحرائےِ ظلمتِ شب کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔

یہ تو رہا تصویر کا روشن رخ، آج لیکن فضائل کے بیان پر طبیعت مائل نہیں۔ آج ان طیب روحوں کا ذکر مقصود ہے جنہیں ہم فقیروں سے خدا معلوم کس جنم کا انتقام مطلوب ہے کہ ہمیں اپنے موہوم علم، تجربے اور پارسائی کی بھٹی میں رکھ کر خود ساختہ غصے کے سفید شعلوں سے مسلسل دہکائے جاتے ہیں۔ صبح ہوتی ہے تو اخبار میں تقوی کے ان پتلوں کی تادیب پڑھتے ہیں۔ شام ہوتی ہے تو ٹیلیویژن کی سکرین پر ان کے دہان آتشیں سے نکلتے انگاروں پر لوٹتے ہیں۔ کیا خاک جیے کوئی، شب ایسی سحر ایسی…. کوئی گالی ایسی نہیں جو اس قوم پر ارزاں نہیں کی جاتی۔ کوئی طعنہ ایسا نہیں جو ہم بے دست و پا مقہور لوگوں کو نہیں دیا جاتا۔ کوئی الزام ایسا نہیں جسے لگانے میں جھجھک ہو۔ اظہار کا ہر قرینہ اخلاق اور ضابطے سے بے نیاز ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ سیاست اور صحافت کے یہ شہ سوار منگول لشکروں کا باقی ماندہ دستہ ہیں جو اس بدنصیب قوم کی بنیادیں اکھاڑنے پر مامور ہے۔ جمہوریت کی جڑوں پر خود نمائی کا کلہاڑا بے دریغ چلایا جا رہا ہے۔ دعوی یہ ہے کہ ہم اس قدر دیانت دار، اہل اور نابغہ روزگار ہیں کہ قوم ہماری مفروضہ اخلاقی قامت، فکری اصابت اور سیاسی بصیرت کے سامنے ہتھیار ڈال دے۔

کھنچے ہوئے اعصاب، بھڑکتے ہوئے لہجے اور لپکتے ہوئے دوشاخے کہیں غیب سے نمودار نہیں ہوئے۔ ان میں سے کوئی نصف صدی سے صحافت کی وادیوں میں گھاس اور دیگر نباتات اجاڑتا رہا ہے، کوئی سرکاری اہلکار تھا، تعیناتی تبادلے اور ترقی کی فائلوں میں غلطاں رہا ہے۔ کوئی سیاست کا پیادہ تھا، خوشامد، تملق اور دیگر پس دیوار سرگرمیوں کی مدد سے اقتدار کی غلام گردشوں کو رونق دیتا رہا ہے۔ اب گزرتے ہوئے وقت اور بدلتے ہوئے حالات نے ان کے وضو ٹھنڈے کر دئیے ہیں تو اپنے ناسودہ عزائم کی لاٹھی اٹھا کر قوم کے درپے ہیں۔ بیس کروڑ لوگوں کو ریوڑ سمجھ رکھا ہے کہ یہ خدائی فوجدار اپنے مفاد میں جو منصوبہ گھڑیں، اسے نصب العین سمجھا جائے۔ ذاتی مفاد پر کمند ڈالنے کی جو ترکیب انہیں سوجھے اسے حکمت سمجھا جائے۔ قوم کو جاہل، کندہ ناتراش اور پسماندہ سمجھنے والے دودھ کے دھلے ہرگز نہیں ہیں۔ پاکستانی قوم تحمل، صبر اور برداشت کا ذخیرہ رکھتی ہے لیکن ہم ستر برس کی پاکوبی کے عینی گواہ ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ ہم نہایت نااہل، کوتاہ نظر اور کندہ ناتراش ہجوم ہیں۔ اور یہ کہ آپ اہلیت، فراست اور دیانت کا ایسا چنیدہ اثاثہ ہیں کہ قوم آپ کی امامت پر سر تسلیم خم کرے۔ قوم نے سوال مرتب کر رکھے ہیں۔

اس ملک میں متروکہ املاک کا بازار گرم ہوا جس نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا۔ تب ایک شخص میاں افتخار الدین نے متروکہ املاک اور زرعی اصلاحات کا سوال اٹھایا تھا۔ ہماری معیشت کو ان دو مسائل نے تہ و بالا کیا۔ اپنی فرد عمل دکھائیے کہ آپ کا موقف کیا تھا؟ قرار داد مقاصد کے ذریعے بانی قوم کا نصب العین پامال کیا گیا۔ آپ اسی زمین کے ہوا اور پانی سے استفادہ کر رہے تھے۔ آپ نے شہری ہونے کا نمک کیسے حلال کیا؟ پاکستان سولہ دسمبر 1971 کو نہیں ٹوٹا، متحدہ پاکستان 17 اپریل 1953 کو ٹوٹ گیا تھا جب مغربی پاکستان کے سرکاری اہلکار غلام محمد نے مشرقی پاکستان کے خواجہ ناظم الدین کو معزول کیا، غلام محمد کی طاقت کا سرچشمہ موضع ریحانہ (ہری پور) کا جنرل ایوب خان تھا۔ آپ نے احتجاج کیا؟ نومبر 1954 میں ون یونٹ بنایا گیا، ون یونٹ مشرقی پاکستان کی اقلیت کے خلاف مغربی پاکستان کے مقتدر ٹولے کا سازشی منصوبہ تھا۔ مشرقی پاکستان کی چھ فی صد اکثریت کو دبانے میں ہم نے چھپن فیصد پاکستان کٹوا دیا۔ آپ کیسے محب وطن تھے؟ آپ کے پندار تقوی میں تزلزل نہیں آیا؟ اکتوبر اٹھاون میں ملک کا دستور ملیا میٹ کر دیا گیا اور آپ گوشت کی دکانوں پر جالیاں لگنے اور نالیوں پر چونا چھڑکے جانے کے ترانے پڑھتے رہے۔ بنیادی جمہوریت کے خانہ ساز نسخے سے جمہوریت کی بنیادیں کھودی گئیں، آپ خاموش رہے۔ ملک ٹوٹ رہا تھا اور ایک طالع آزما ملک کا آئین گھڑ رہا تھا۔ آپ اسے محافظ ملت کہتے تھے؟ تب آپ نے اقلیم پاکستان کے لیے آواز نہ اٹھائی اور پھر ناکامی کا دوش اقلیم اختر کے کندھوں پہ رکھ دیا۔ اس ملک کے دستور میں ناقابل عمل شقیں داخل کی گئیں۔ آپ سراپا سپاس رہے۔ اس ملک کی عورتوں کی گواہی آدھی قرار دی گئی، آپ کے پندار غیرت کو ٹھیس نہیں لگی۔ ایک آمر نے دستور کی موجودگی میں مجلس شوری بنائی، فہرست اٹھا کر دیکھیں کہ کون پری چہرہ تھے کہ منتخب مقننہ کی بجائے مجلس شوری جیسی دست کاری کی داد دیتے رہے۔ صحافت کے محترم استاد نے اپنی کتاب میں تسلیم کیا ہے کہ جماعت اسلامی کو واقعی دس کروڑ روپے دیے گئے تھے اور یہ رقم جہاد پہ صرف ہوئی، یہ نہیں بتاتے کہ یہ رقم کس نے دی تھی؟ آئی جے آئی کو دئیے جانے والے چودہ کروڑ کا معما حل نہیں ہوا۔ غالباً اس رقم کا لین دین کرپشن کے ذیل میں نہیں آتا۔ اس ملک پر پی سی او مسلط کیے گئے۔ آمرانہ اقتدار کے ان احکامات پر حلف اٹھانے والے ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ ہماری سیاست، عدالت اور ریاستی اداروں میں ایسی روشن مثالیں موجود ہیں کہ قوم کی لٹیا ڈوبتے دیکھی تو مقدور بھر مزاحمت کی۔ پاکستان میں جمہوریت کا پرچم اٹھانے والے ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ ہماری صحافت خبر دیتی رہی ہے۔ دکھ یہ ہے کہ قوم کی قبر کھودنے والے ہر عہد میں طاقت کے منہ زور دریا کے اس کنارے پر کھڑے ہو جاتے ہیں جہاں سے ان کے مفاد کی فصل کو پانی ملتا رہے۔ اور پھر زبان طعن دراز کرتے ہیں۔

ایک بہت بڑے چوہدری صاحب تھے۔ انہیں عادت تھی کہ دنیا کے کام دھندے کرتے وقت اپنے مزارعے بوٹا مصلی کو لالٹین پکڑا کر اپنے قریب کھڑا کر لیتے تھے۔ چوہدرانی صاحبہ اپنے سرتاج کی کسی کارکردگی پر انگشت نمائی کرتیں تو بھنا کر لالٹین خود پکڑ لیتے اور بوٹا مصلی کو حکم مشقت ہوتا۔ بوٹا غریب، ہاتھ بندھا غلام، تعمیل کرتا۔ حسب منشا کام مکمل ہو جاتا تو چوہدری صاحب ایک زناٹے کا تھپڑ بوٹا مصلی کے منہ پر جڑتے اور کہتے ’اب تمہیں معلوم ہوا کہ لالٹین کیسے پکڑی جاتی ہے؟‘ عزیزان من، ہمارے ملک کے صاحبان اختیار نے ہمیں بیگار پر لگا رکھا ہے۔ وقفے وقفے سے ہمیں زدوکوب کرتے ہیں اور طعنہ دیتے ہیں کہ ہمیں لالٹین پکڑنا نہیں آتی۔ سرکار دست بستہ عرض ہے کہ جو خدمت ہم سے بن آتی ہے، بری بھلی کئے جاتے ہیں۔ ذمہ داری سے جان نہیں چھڑاتے، البتہ ذاتی اغراض، مفاد پرستی، فکری افلاس اور اجتماعی تباہ کاری کی لالٹین پکڑنا جیسا آپ جانتے ہیں، یہ ہنر سیکھنا ہم فانی انسانوں کے بس میں نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).