پاکستان میں تو ایسا نہیں ہوتا


اس بنک کی کہانی زمانے سے جدا ہے، جس برانچ میں میرا اکاونٹ ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ بنک انتظامیہ نے بنک کی حفاظت کا ٹھیکا، ایک نجی سیکورٹی ادارے کو سونپ رکھا ہے۔ اس سیکورٹی ادارے کا اہل کار بڑا اکھڑ مزاج ہے۔ اس کا دل چاہتا ہے تو وہ کسی کلائنٹ کو بنک میں داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے، اس کی مرضی نہ ہو، تو کسٹمر کو دروازے ہی سے لوٹا دینے کا حکم لگاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ بنک کے کلائنٹ کی تعداد میں نمایاں کمی آتی جارہی ہے، جو بنک منیجر کے لیے تشویش کا باعث ہے۔

یوں تو میرے اس بنک اکاونٹ میں کوئی خاص رقم نہیں، لیکن آئے دن بنک برانچ میں جانے کی کئی وجوہ ہیں۔ ایک بدخواہ کا کہنا ہے، کہ وجہ وہ سنبل، وہ دِل نشیں، وہ نازنین، وہ دِل رُبا ہے، جو برانچ میں داخل ہوتے ہی بائیں ہاتھ کی نشست پر بیٹھتی ہے، لیکن بدخواہوں کا کیا ہے، وہ کچھ بھی کہ دیتے ہیں۔ دراصل بنک مینیجر میرا بچپن کا دوست ہے، اور جب جب اس کی محبت جوش مارتی ہے، تو چائے پینے اس برانچ میں چلا جاتا ہوں۔

دفتروں کی اپنی سیاست ہوتی ہے، اور ہر دفتر میں ایک سی سیاست ہوتی ہے۔ کوئی خاتون ملازم ترقی کرجائے، تو مرد ملازم کہتے پائے جاتے ہیں، کہ اس کی ترقی اس لیے ہوئی، کہ وہ خاتون ہے۔ اس طرح کسی مرد ملازم کی ترقی ہوجائے، تو خواتین ملازموں کو شکایت ہوتی ہے، کہ ان سے امتیاز برتا جارہا ہے۔ اس بات کو ایک طرف رکھتے، اصل بات پر آتے ہیں، جو اس مضمون کا سبب بنی۔

”جب کلائنٹ بے جا پابندیوں، آمد و رفت کی روک ٹوک سے بدظن ہوجائیں گے، تو بنک کا کاروبار کیسے چلے گا!؟“ میرے دوست نے جب یہ عذر پیش کیا، تو میں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ سیکورٹی ادارے کے اہل کار کو چلتا کرے، کیوں کہ وہ تمھارا ماتحت ہے۔ منیجر کھسیانی سی ہنسی ہنستے ہوئے کہنے لگا، میں یہ کوشش کرکے دیکھ چکا۔
”تو پھر؟“ میں نے حیرانی سے پوچھا۔
”پھر؟ پھر یہ کہ اس کا کہنا ہے، بنک کی حفاظت کی ذمہ داری اس کی ہے، اس لیے وہ میری بات نہیں مان سکتا“۔ منیجر دوست نے دائیں بائیں دیکھتے رازداری سے سرگوشی کی، ”بل کہ کچھ دن پہلے اس نے مجھ پر گن تان لی، کہ مجھے یہاں کام کرنا ہے، تو اس کی ہدایات پر چلوں“۔

یہ انکشاف سن کے میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے، کہ یہ کون سا ملک ہے، جہاں ماتحت اپنے افسر کو کہتا ہو، کہ وہ اس کی بات مانے۔ پاکستان میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ ”تم ہیڈآفس رپورٹ کیوں نہیں کرتے؟“ میں نے صائب مشورہ دیا، تو میرا دوست تلملا کے رہ گیا۔
”تمھارا کیا خیال ہے، میں نے اپنی سی کوشش نہ کی ہوگی؟“ اس سے پہلے کہ میں اس کے روبرو کوئی اور تجویز رکھتا، وہ بولا ”اس نے ہیڈ آفس میں مشہور کر رکھا ہے، کہ میں غبن کرتا ہوں“۔
میں ہنس پڑا، ”بھائی اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے؟ ہیڈ آفس رِکارڈ چیک کرلے، تم نے غبن کیا ہوگا، تو آڈٹ والے خود پتا چلا لیں گے!“
”یہی تو مصیبت ہے۔“ منیجر جھنجلایا۔ ”اس سیکورٹی انچارج نے رِکارڈ روم سے کئی فائلیں غائب کروادی ہیں، اور الزام مجھ پر لگایا ہے کہ میں نے ادھر ادھر کردی ہیں۔“
”تم کیسے کہ سکتے ہو، کہ رِکارڈ روم سے فائلیں اس نے چرائی ہیں؟“ مجھے اب اپنے دوست پر شبہہ ہونے لگا تھا۔ ”یہ بات تمھارے ہیڈ آفس والوں نے مان لی؟“
میرا دوست اپنی پیشانی مسلتے منمنایا، ”بات یہ ہے دوست! بنک مالکان کا نقصان ہوا ہے، اور تم نے سنا ہوگا، کہ جس کا سامان جائے، اس کی نظر میں سبھی چور ہوتے ہیں۔ پھر یہ ہے کہ یہاں منیجر کی نہیں، سیکورٹی اہل کار  کی سنی جاتی ہے۔ ہمارے بنک میں پالیسی بھی سیکورٹی انچارج سے مشاورت کرکے بنائی جاتی ہے۔“
”میں نہیں مان سکتا، یہ جھوٹ‌ ہے۔ دنیا کا کون سا بنک ہے جو ایسا کرتا ہو؟“
”تمھیں ایک اور بات بتاتا ہوں“۔ منیجر جزبز ہوتا بولا، ”کچھ ہفتے پہلے کی بات ہے، میں ایک شادی کی تقریب میں شریک ہوا؛ وہاں ہمارے حریف بنک کا منیجر بھی مدعو تھا۔ ان تصویروں کو ہیڈ آفس میں دکھا کے یہ کہنے لگا، کہ میں نے حریف بنک سے ساز باز کرلی ہے۔ میں اس بنک کے راز وہاں دیتا ہوں۔ اب میری انکوائری چل رہی ہے۔“
”ہیں؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ محض تصویریں دکھا کے ایسا الزام کیوں کر لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں تو۔۔؟“
دوست میری بات کاٹ کر بولا، ”یہی بات میں بھی کہتا ہوں، لیکن کوئی سمجھنے کو تیار نہیں! سیکورٹی انچارج نے مجھ پر بنک سے غداری کے وہ وہ گھناونے الزام لگائے ہیں، کہ کیا بتاوں!“
”بھائی! تم اسے فورا چلتا کرو، قانون کے تحت بنک کے افسر اعلیٰ تمھی ہو، تمھیں قانونی کارروائی کرنے سے کون روکے گا۔“ یہ کہتے میری آواز بلند ہوگئی، تو منیجر سے لپک کے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ”خدا کے لیے آہستہ بولو، کیا پتا باہر سیکورٹی ایجینسی کا کوئی ملازم کھڑا سن رہا ہو۔ یہ نہ ہو کہ وہ تمھیں بھی کسی الزام میں دھرلے۔“

سچی بات یہ ہے، کہ میں بالکل نہیں گھبرایا، کیوں کہ پاکستان میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ یہ لاقانونیت صرف اس بنک ہی میں دیکھنے کو آئی۔ مجھے سوچ میں پڑا دیکھ کر میرا دوست کہنے لگا، ”تمھارے تو علم میں ہے، کہ اس برانچ میں میری پوسٹنگ ہوئے، چند مہینے کی بات ہے۔ اس سے پہلے یہاں اٹھارہ بنک منیجر آئے اور چلے گئے۔ سبھی کو اس سیکورٹی انچارج نے دباو میں رکھا تھا۔ تمھیں ایک حیرت ناک خبر دوں، کہ تین منیجروں کو تو اس نے کرسی سے گرا کے نشست پر قبضہ کرلیا، اور بنک منیجر بنا ہدایات دیتا رہا۔ باقیوں کا احوال بھی کوئی اتنا اچھا نہ رہا۔“
”تو یہ کیسے ہوا، کہ یہ خود ہی منیجر بن بیٹھا، اور نیچے کا عملہ اس کی ہدایات پر عمل کرتا رہا؟ انھیں انکار کردینا چاہیے تھا، کہ یہ بنک منیجر نہیں، سیکورٹی انچارج ہے؛ لہٰذا اپنے کام سے کام رکھے!“ میں اعتراض پہ اعتراض اٹھاتا چلاگیا۔
”یہی تو مصیبت ہے، کوئی یہ سوال نہیں کرتا، سوال کرنے والے کو دھمکایا جاتا ہے، کہ اس بنک میں رہنا ہے، تو ویسے رہیں جیسے ہم کہتے ہیں۔ سبھی نے دیکھ لیا ہے کہ منیجر تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ اور پھر سیکورٹی والے کہتے ہیں، کہ بنک کے وارث ہمی ہیں، تو سب مان بھی رہے ہیں۔“
”سیکورٹی والے اور بنک کے وارث؟“
”ہاں!“
”لیکن پاکستان میں تو ایسا نہیں ہوتا!“ میں نے اتنا ہی کہا تھا، کہ دروازہ کھلا اور انتہائی دیدہ زیب وردی میں، ایک سجیلا جوان منیجر کے کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے چہرے پہ رعونت تھی۔ چھوٹتے ہی بولا، ”کیا سازش ہورہی ہے، بنک کے خلاف؟“ منیجر دوست کی گھگی بندھ گئی۔ میں نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے خوش دلی سے جواب دیا، ”ہم بنک کے خلاف تو کوئی بات نہیں کررہے تھے۔ انتظامی امور پر بات چیت ہورہی تھی۔“ اس نے مجھے کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔
”تمھارا کیا تعلق ہے، بنک سے؟ بنک کے انتظامی امور سے؟“
اب مجھے غصہ آنے لگا تھا۔ ”میں یہاں اکاونٹ ہولڈر ہوں، میرا مفاد اس بنک سے وابستہ ہے، کیا میں بات نہیں کرسکتا؟ اور سنو، تمھارا کام بنک پہ پہرا دینا ہے۔ یہ نہیں کہ مجھے یا کسی اور کو ہدایت دو۔ سمجھے؟“
سجیلا جوان میری بات سن کر زیرلب مسکرایا۔ کیا بتاوں‌ کہ اس کی مسکراہٹ میں کتنا زہر بھرا ہوا تھا۔ ”میں نے تم دونوں کی سب باتیں سن لی ہیں۔“ اس نے بنک منیجر کی طرف اشارہ کرتے مجھے کہا، ”برانچ منیجر یہ ہیں۔ اس بنک میں جو الٹا سیدھا ہوتا ہے، اس کی ذمہ داری ان کے سر ہے۔ سیکورٹی انچارج کو کیوں دوش دیا جارہا ہے؟“
میں کہاں چپ رہنے والوں میں سے تھا، ”جب ذمہ داری ان کی ہے تو فیصلے بھی انھی کو لینے دیجیے۔“
سجیلے جوان نے پیٹی سے پستول نکال کے لہرایا، ”ہاں! تو لیں ناں فیصلہ، ہم نے انھیں روکا ہے؟“ اب پستول کی نالی کا رُخ منیجر کی جانب تھا۔ ”بتائیے منیجر صاحب، اس بنک کے فیصلے کس کے ہوتے ہیں؟“
منیجر کا ایک رنگ آتا تھا ایک جاتا تھا۔ ”مم مم۔۔ میرے۔“
”کیا بنک میں ڈاکا پڑنے کے ہم ذمہ دار تھے؟“
”نن نن نہیں۔“
سجیلے جوان نے حقارت بھری نظروں سے میری طرف دیکھا، ”اب تو کیا کہتا ہے؟“
بدتمیزانہ لہجے سے مخاطب کیے جانے پر، میں نے چور نظروں سے اپنے دوست کی طرف دیکھا، وہ نظریں نیچی کیے بیٹھا تھا۔ جب منیجر ہی مزاحمت نہیں کرتا، تو مجھے کیا ضرورت ہے، اس کے لیے اپنی جان کو داو پر لگاوں۔ میں یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا، ”پاکستان میں تو ایسا نہیں ہوتا۔“

میں بنک برانچ کے دروازے سے باہر آیا، تو اکاونٹ ہولڈرز کا جم غفیر اندر جانے کا منتظر تھا۔ کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔ لوگ بنک منیجر کے خلاف نعرے لگارہے تھے۔ میں سر نیہوڑائے ایک طرف چل پڑا۔ افسوس اس بات کا ہے، کہ اب میں اس برانچ میں جا نہیں سکتا۔ نہ جانے وہ نازنین، وہ سنبل، وہ دِل بر، دل رُبا، وہ راحتِ جاں کس حال میں ہوگی۔ وہی جو بنک میں داخل ہوتے، بائیں ہاتھ کی نشست پر بیٹھتی ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran