بلی اور چوہوں کی کہانی


گھر کی بلی آلکسی کے مارے آنکھیں موندے سستا رہی تھی اگرچہ اس کو بالکل بھی اشتہا نہیں تھی لیکن دودھ کا پیا لہ پھر بھی اس کے سامنے لبالب بھرا پڑاتھا۔ دوسری جانب گھر کے سارے چوہے ہی پریشان تھے۔ پریشانی کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو گھر کے سارے دودھ پر بلی کا قبضہ تھا ،کسی کی مجال نہ تھی کہ دودھ کے برتن کی طرف نگاہ اٹھا ئے۔ دوسرا سارے گھر پر بلی کی اجارہ داری تھی۔ ڈارئنگ روم میں بھی ریشمی قالین اسکا منتظر رہتا۔ بیڈ روم میں بھی ایک مخملی گدی اس کے لئے مخصوص تھی۔ کچن میں بھی اس کے لئے ایک کونا اور خوراک کا برتن مختص تھا۔ اسٹور میںبھی ایک نرم ٹوکری اس کے آرام کے لئے دھری تھی۔ سب اسکو پیار کرتے تھے۔ دلار بھی اسی کا نصیب بنتے تھے ، تصویریں بھی اس کے ساتھ کھنچتی تھیں، اسکے شجرے پر فخر بھی کیا جاتا تھا۔ اسکی چمکیلی کھال کے سب گرویدہ تھے۔ بلوری آنکھیں بھی سب کو بھاتی تھیں۔ اس کی ہر لمحہ گردش میں رہنے والی دم پر بھی سب فریفتہ تھے۔ کھانے کی ہر چیز اس کو پیش کی جاتی تھی۔ بلی اتنے نازوں سے پلی تھی کہ اب وہ تساہل پسند ہو گئی تھی۔ بیشتروقت سونے میں گزرتا۔ آنکھ کھلتی تو کھانے میں لگ جاتی۔ کوئی کام کاج تو تھا نہیں بس لاڈ پیار میں دن گزر جاتا۔ اتنے نخرے اٹھانے والے موجود تھے کہ اب نخرے اٹھانے والوں کا اس کو انتخاب کرنا پڑتا تھا۔

چوہوں کا معاملہ ان سے بالکل برعکس تھا۔ گھر میں انکے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ جو دیکھتا خوف اور نفرت کے مارے چیخ اٹھتا۔ کوئی جوتیوں کی بارش کرتا، کوئی ڈنڈے برساتا، کوئی گالی دے کر شتاب ہو جاتا۔سب ان کو دھتکار تے تھے۔ جہاں بلی ہوتی وہاں سے چوہے خود ہی خوف کے مارے غائب ہو جاتے۔ اگر غائب نہ ہوتے تو دھتکار دیئے جاتے۔گھر میں ہر وقت چوہوں کو مارنے کے لئے نت نئی ترکیبوںکے منصوبے وضع کئے جاتے۔ کوئی روٹی پر زہر لگا دیتا ، کوئی کونے کھدروں میں کڑکی لگا دیتا۔ کوئی آہنی چوہے دان کی تجویز دیتا۔ کوئی چوہے مار گولیاں لے کر آجاتا۔ کوئی انہیں ہمیشہ کے لئے گھر بدر کرنے کے منصوبے کا اعلان کرتا۔چوہوں کو ہر لمحہ ان جان لیوا خطرات کا مقابلہ کرنا ہوتا تھا۔ خوراک بھی ان کو چوری کرنی پڑتی تھی۔ زندہ رہنے کے لئے اس چوری کو وہ جائز بھی سمجھتے تھے۔ ادھر ادھر سے نظر بچا کر اگر وہ کھانے کی کوئی چیز اچک بھی لیتے تو جان کا خطرہ ہر وقت لگا رہتا۔غرض چوہے جیسے ہی اپنے اندھیرے بلوں سے باہر نکلتے ان کو سارے گھر کی نفرت کا سامنا کرنا پڑتا۔ کوئی ان کو بیماریوں کا سبب قرار دیتا کوئی نجس مخلوق کہتا۔ کوئی طاعون کی جڑ قرار دیتا توکوئی نحوست اور غلاظت کی علامت بتاتا۔

چوہوں کو نہ تو بلی کی گھر پر بلا شرکت غیرے اجارہ داری پر کوئی اعتراض تھا نہ اس سے اختلاف کی ان میں ہمت تھی۔ ان کا مسئلہ تو دودھ کا پیالہ تھا۔ اس میں سے ایک قطرہ بھی چوہوں کو نصیب نہیں ہوتا تھا۔ گھر میں رہنے کی وجہ سے چوہے دودھ کی چند بوندوں پرا پنا حق سمجھتے تھے لیکن اس حق کو جتانے کی بساط ان کو کبھی میسر نہیں ہوئی تھی۔ وہ خوف میں اپنی زندگی بسر کر رہے تھے لیکن دودھ کو دیکھ کر ان کا جی ضرور للچاتاتھا۔ بلی کی مونچھوں پر لگی بالائی کو وہ ترستے ہی رہتے ۔وہ بلی کے دودھ کے برتن کو ندیدوں کی طرح دیکھتے ہی رہتے ۔ چوہوں کی ان خواہشات سے بے خبر گھر کی بلی آلکسی کے مارے آنکھیں موندے سستا رہی تھی اگرچہ اس کو بالکل بھی اشتہا نہیں تھی لیکن پھر بھی دودھ کا پیالہ اس کے سامنے لبالب بھرا پڑاتھا۔

بلی کی یہ من مانی برسوں چلتی رہی۔ کچھ بھی نہ بدلا۔ نہ بلی کے ناز نخروں میں کوئی کمی آئی نہ چوہوں کی بھوک کم ہوئی۔ وہ اسی طرح بچے کچھے کھانے پر لڑتے جھگڑتے رہے۔ ایک دوسرے کو روٹی کے ٹکڑوں کے لئے نوچتے رہے۔ سوکھے ٹکڑوں کی خواہش میں کئی چوہے جان سے گزر گئے مگر اس سے بلی کے اطمینان اور سکون قلب میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔جب اس صورت حال کو کئی برس گزر گئے تو چوہوں کی تنظیموں نے اکھٹا ہونے کا فیصلہ کیا۔ اتحاد اور اشتراک کی پالیسی خفیہ طور اپنانے کا فیصلہ ہوا۔ ابتدا میں تو چوہے اس خیال سے اتنے خوفزدہ تھے کہ بات سن کر ہی بدک جاتے تھے۔ پھر ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے بزرگ چوہوں نے اس فیصلے کی تائید کر دی ۔ اس اشتراک کو خفیہ رکھنے کی شرط پر چوہوں کی کئی تنظیمیں اس اتحاد میں چوری چھپے شامل ہو گئیں۔ سب بلی کے جورو ستم کے برسوں سے شاکی تھے۔ چونکہ بلی کے کان بہت تیز تھے اس لئے ان اجلاسوں کو خفیہ رکھنے کے لئے فیصلہ ہوا کہ اس ضمن میں تمام تر فیصلے گھر سے باہر کئے جائیں گے۔ چوہوں کا سب سے بڑا مطالبہ دودھ کے خزانے میں شراکت کا تھا۔ اس کے علاوہ وہ گھر کے معاملات میں بھی سانجھے داری چاہتے تھے۔ خوف کا یہ عالم تھا کہ چوہوں کاہر لیڈر اپنی تقریر کے آغاز میں یہ کہتا کہ میں مانتا ہوں کہ اس گھر پر سب سے زیادہ حق بلی کا ہے، وہی اس گھر کی مالک و مختار ہے مگرالتماس یہ ہے کہ ہم بھی اسی گھر میں رہتے ہیں ہمیں بھی جینے کا حق ہے۔ برابری کا حق ہمارا مطالبہ نہیں کیونکہ بلی کا مرتبہ بہت بلند ہے لیکن زندگی کے حق سے دست بردارنہیں ہو سکتے۔ شروع شروع میں تو چوہوں کی سب تنظیموں کے سربراہ ڈرے ڈرے رہے۔ گھر کے باہر ہونے کے باوجود بات کرنے سے پہلے ادھر ادھر دیکھ لیا کرتے تھے۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ آوازیں بلند ہوتی گئیں۔ بلی کے مظالم کی داستان سب کے لبوں پر آنے لگی۔ چوہوں نے مل کر مشترکہ منصوبہ بندی سے بلی کے اختیارات کو کم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے پر چند جذباتی چوہے دم پر کھڑے ہو گئے۔ اپنے اپنے سردار چوہوں کے حق میں نعرے لگانے لگے۔ یہ خفیہ پلاننگ برسوں جاری رہی۔ ان چوہوں کے منصوبوں سے بے خبر گھر کی بلی آلکسی کے مارے آنکھیں موندے سستا رہی تھی اگرچہ اس کو بالکل بھی اشتہا نہیں تھی لیکن پھر بھی دودھ کا پیا لہ اس کے سامنے لبالب بھرا پڑاتھا۔

منصوبے کے مطابق سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا۔ چوہوں کی برسوں کی منصوبہ بندی اپنے اختتامی مراحل کو پہنچ رہی تھی۔ پلان کے مطابق ایک دن ایک جذباتی چھوٹے چوہے نے اپنی دم پر کھڑے ہو کراور اپنے قد سے کہیں بڑا ہو کر، بلی کے سامنے آواز حق بلند کی۔ اس لمحے چھوٹے باغی چوہے کے ارد گرد ساری چوہے تنظیموں کے سربراہ بھی موجود تھے۔ برسوں بعدبلی نے دودھ کے خمار میں ڈوبی آنکھیں کھولیں۔چھوٹے چوہے کے باغیانہ نعرے کو سنا۔ پس منظر میں موجود چوہا تنظیموں کے سربراہوں کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھا۔ پھرایک دم دھند سی چھا گئی۔ طوفان سے بپا ہو گیا۔ گرد جب تھمی تو چشم زدن میں انصاف ہو چکا تھا ۔ بزدل چوہوں کی برسوں کی محنت کا احتساب ہو چکا تھا۔بلی کے برق رفتار ایکشن کے بعد اب صورت حال کچھ یوں تھی کہ چوہوں کے سربراہ میں سے ایک غائب ہو چکا تھا، دوسرے کی گھگھی بندھ گئی تھی،جذباتی چوہے کی دم غائب ہو گئی اور باقی چوہے جان بچانے کے لئے بھاگ رہے تھے۔ ایسے میںکچھ خوشامدی چوہے چند قطرے دودھ کے لالچ میں بلی کے پائوں پڑ گئے تھے۔ دودھ کا پیالہ اب بھی بلی کے سامنے لبالب موجود تھا۔ سارے گھر پر بھی اس کی اجارہ داری تھی۔ فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ پہلے بلی کی مونچھوں پر صرف دودھ ہوا کرتا تھا اب اس کی سفید مونچھوں میں چوہوں کے خون کی سرخی بھی شامل تھی۔اب چوہے پہلے سے بد حال تھے ان میں سے بغاوت کی حس ختم ہو چکی تھی۔ خوف سے وہ لرزہ براندام تھے اور اس عالم میں تمام چوہے مودبانہ طور پر بلی سے التماس کر رہے تھے، گڑ گڑا کر درخواست کر رہے تھے کہ اگر مزاج گرامی پر بار نہ ہو تو برائے مہربانی بلی خالہ دودھ کا سارے کا ساراپیالہ نوش جان کر لیں۔ سارے گھر پر اپنی اجارہ داری کو دوام دے دیں۔ بس چوہوں کی جان بخش دیں۔ اب نہ بزدل چوہوں کو دودھ میں حصہ درکار تھا نہ گھر پر حکومت کی کوئی آرزو تھی بس اب جان سے جانے کا خوف تھا۔بس اب جان بچانے کی خواہش تھی۔

قارئین کرام آج کل خیالات اس قدر پریشان ہیں کہ کسی چیز پر دھیان مرکوز نہیں ہو رہا۔ سوچا تھا اس خبر پر لکھوں گاکہ ججوں اور جرنیلوں کے احتساب کی آئینی شق سے تمام سیاسی جماعتیں اچانک کیسے تائب ہو گئیں اور قصہ کیا چھیڑ بیٹھا۔ خیر موقع ملا تو پھر کبھی اس واقعہ پر لکھیں گے۔ ابھی اس بے سروپا کہانی کو ہی کالم سمجھیں۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar