فاروق ستار کی ماں اور میری ماں


فاروق ستار کی ماں کو دیکھ کر مجھے جانے کیوں اپنی ماں یاد آ گئیں۔
شاید اس لیے بھی کہ عمر کے آخری حصّے میں وہ بھی اتنی ہی بوڑھی ہو چکی تھیں۔

فاروق ستار کی والدہ کی تصویر پچھلے سال پہلی بار تب دیکھی تھی جب وہ ہسپتال میں فاروق ستار کی عیادت کرتے ہوئے انہیں انگلی اٹھا کر کسی بات پر تنبیہہ کر رہی تھیں۔

شاید کچھ مماثلت محسوس کرتے ہوئے میری بیٹی نے وہ تصویر بغیر کچھ کہے مجھے بھیج دی تھی اور میری آنکھوں میں وہ تصویر دیکھتے ہوئے اماں کا تنبیہہ کرنے کے انداز کی تصویر اتر آئی اور بے اختیار میں مسکرا دی۔

کئی برس پہلے ایک ادبی ادارے پر طاقت ور سیاسی افراد کی مستقل اجارہ داری کے خلاف ایک ادبی تحریک کی میں نے قیادت کی تھی۔ ابراھیم جویو صاحب سمیت تقریباً تمام سندھی ادیب میرے ساتھ کھڑے تھے۔ ادبی تحریک دھیرے دھیرے سیاسی رنگ اختیار کرتے ہوئے شدید سیاسی دباؤ میں گھرتی چلی گئی۔

اندرون خانہ خاندانی تعلقات کا دباؤ اور رد عمل بھی ان سب سے شدید تھا جو ایک ذاتی اور تلخ ترین پُلِ صراط جیسے تجربے سے مجھے گزار رہا تھا۔

جلوس، پریس کانفرنسز، بیان بازیاں، مخالف ادیبوں کی طرف سے ذاتیات پر حملے بھی ساتھ ساتھ چل رہے تھے ۔ ۔ ۔یوں ایک چکی کے دو پاٹ تھے، جن کے بیچ میں کھڑی تھی۔

بالآخر حکومت نے ادارے سے متعلق فیصلہ ہمارے مطالبے کے تحت کیا۔ ساتھ ہی چیئرمین کی وہ کرسی جس پر کشمکش تھی اس کے لیے میرا نام مجھ سے پوچھے بغیر دے دیا گیا اور اگلی صبح اخبار کی خبر بھی بن گیا۔

جس بڑے شاعر کا نام تحریک نے ادارے کے سیکریٹری کے لیے دیا تھا، اگلے روز وہ صبح صبح اس خبر کے ساتھ مٹھائی لے کر میرے گھر پہنچ گئے۔ مٹھائی ملازم اٹھا کر اندر چلا گیا۔

اماں مدینے سے آئی ہوئی تھیں اور تمام معاملے سے یوں بھی باخبر تھیں کہ اخبار پڑھنا ان کے معمولات میں شامل تھا۔میں ابھی ان صاحب کے ساتھ بیٹھی ہی ہوئی تھی کہ ملازم نے آکر کہا کہ اماں بلا رہی ہیں۔

اماں کے کمرے میں گئی تو اپنے سامنے اخبار پھیلائے بیٹھی تھیں۔

غور سے مجھے دیکھتے ہوئے پوچھا کہ تمہیں بورڈ کی کرسی پر بٹھا رہے ہیں؟
میں نے کہا کہ میں نے بھی ابھی سنا ہے۔

کہنے لگیں نیچے جو آیا ہے، وہ اسی بات کی مٹھائی لایا ہے؟
میں نے کہا کہ ہاں اسی بات کی مٹھائی لایا ہے۔

اچانک انھوں نے فاروق ستار کی ماں کے انداز میں انگلی اٹھا کر مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ۔ ۔ ۔

یہ مٹھائی اسے واپس کرو۔ ۔ ۔ ۔ وہ تمہاری خوشامد کرنے آیا ہے۔ ۔ ۔ خوشامد کرنے والے حرام کھانے کی عادت ڈالتے ہیں۔ ۔ ۔ اور میری تمہیں نصیحت ہے کہ یہ کرسی قبول کرنے سے انکار کر دو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تحریک چلانے والے کرسی پر نہیں بیٹھتے۔ ۔ ۔ ۔ اس کرسی پر دوسروں کو بٹھاؤ۔ ۔ ۔ خود بیٹھو گی تو یہ کرسی تمہیں گندا کر دے گی۔ ۔ ۔ ۔

ان کی بات ختم ہوئی۔ میں نے ایک جملے میں ہی انہیں یقین دلایا کہ یہ مجھ سے پوچھے بغیر ہوا ہے۔ ۔ ۔ ۔ میں ویسے بھی یہ عہدہ نہیں قبول کر رہی۔ ۔

واپس جانے لگی۔ دروازے پر پہنچی ہی تھی کہ پیچھے سے پھر مخاطب کیا۔ ۔ ۔ مڑ کر دیکھا۔ ۔ وہی فاروق ستار کی ماں کی طرح اٹھی ہوئی انگلی۔

اماں کی آواز میں ہلکی سی گرج ہوا کرتی تھی۔ ۔ ۔ اس بار کے کہے ہوئے الفاظ دل پر ہمیشہ کے لیے لکھے رہ گئے۔ آواز میں وہی ہلکی سی گرج لیے وہ کہہ رہی تھیں کہ۔ ۔

یاد رکھو۔ ۔ ۔ ۔ یہ دنیا گندگی کا ڈھیر ہے۔ ۔ ۔ اس کے اندر کبھی بھی مت اترنا۔ ۔ ۔ بس کنارے کنارے سے گزر جانا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس میں منہ مت مارنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آج فاروق ستار کی حالت اور ان کی ماں کو دیکھ کر مجھے اپنی تحریک اور اپنی ماں یاد آ گئیں۔ ۔ ۔ ۔
فاروق ستار تم بھی اب کنارے کنارے سے گزر جاؤ۔ ۔ یہ گندگی کا ڈھیر ہے، اور کچھ بھی نہیں۔ ۔ ۔ ۔

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah