اقبال کو بے اقبال کس نے کیا؟


ایک بار میں نے اپنے ایک گورے استاد سے ہیگل کے فلسفہ تاریخ سے متعلق کوئی سوال پوچھا تو میرے استاد نے جو جواب دیا وہ کسی بھی مفکر و مدبر کی کوئی تحریر پڑھنے یا اس کا تجزیہ کرنے میں آج بھی بڑا مددگار ہے۔ انہوں نے کہا “میں ہیگل سے بڑا فلسفی یا دانشور نہیں مگر مجھے ایک ایڈوانٹیج حاصل ہے جو ہیگل کو حاصل نہیں ” یہ سن کر میرا سانس رک گیا اور میرا دماغ جھٹ سے سوچنے لگا کہ جانے اب یہ کہیں کوئی دعوی الہام و وجدان نہ کر بیٹھیں- تھوڑی دیر کے توقف کے بعد وہ گویا ہوئے “مجھے ہیگل پر یہ ایڈوانٹیج حاصل ہے کہ میں تمھارے سامنے زندہ سلامت بیٹھا تمہارے سوالات سن رہا ہوں اور جوابات دے رہا ہوں جبکہ ہیگل کو یہ سہولت حاصل نہیں، وہ بے چارہ اپنی فکر کے متعلق نہ سوالات کے جوابات دے سکتا ہے اور نہ ہی ایسے اعتراضات کو رد کر سکتا ہے جب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہیگل کو خود ہی پتا نہیں تھا کہ وہ کہہ کیا رہا ہے۔

کل سے اقبال پر ہونے والے اعتراضات سن کر مجھے اپنا وہ بوڑھا استاد یاد آ رہا ہے جس سے بہت کم رفاقت میسر رہی مگر مجھ سے آج بھی کلام کرتی ہے۔

تنقیدی فکر اگر کسی قوم میں پائی جائے تو یقین کریں اس سے بڑا کوئی انعام نہیں، اس سے بڑی کوئی خوبی نہیں۔ قوموں کی سیاسی و سماجی اور معاشی زندگی میں تنقیدی فکر کا کردار ویسا ہے جیسے ہمارے وجود میں ہمارے دماغ کا… ریڑھ کی ہڈی کا درجہ یقینا معیشت کو حاصل ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا یہ بات تھامس ہابس نے میرے پیدا ہونے سے بھی صدیوں پہلے اپنی کتاب Leviathan میں کہی تھی جب انہوں نے اپنی سیاسی فکر کی بنیاد علم حیاتیات پر رکھی تھی۔ یہ اسلوب مطالعہ بہت حیران کن ہے جو کہ بعد میں نیوٹن ازم کے سوشل سائنسز پر غلبہ کے بعد آج بھی توجہ کا طالب ہے۔

خیر بات ہو رہی تھی تنقیدی فکر کی، جو میرے نزدیک کسی بھی چیز کی خوبیوں و خامیوں کا مزین مطالعہ ہے۔ محض خوبیوں کا نہیں جیسا کہ مارکس کے بہت سارے پیروکار ایسا کرتے ہیں اور اسے سائنسی بھی قرار دیتے ہیں۔ اور محض خامیوں کا بھی نہیں جیسا کہ اقبال کے سلسلے میں ہم کچھ لوگوں کی تحریر و تقریر میں دیکھ رہے ہیں۔

اقبال کی فکر میں تضادات بہت ہیں اس سے انکار ممکن نہیں مگر بدقسمتی سے آج وہ ہمارے سامنے نہیں کہ بتا سکے کہ جسے تم تضاد قرار دیتے ہو وہ دراصل کیا ہے۔ اگر ہم تضاد کی ہی بات کریں تو میری نظر میں صرف دو افراد سیاسی سماجی اور معاشی فلاسفہ میں ایسے ہیں جن کی فکر میں تضادات انتہائی حد تک کم ہیں : ایک Utilitarian فکر کا بانی جرمی بنتھم (Jeremy Bentham) اور دوسرا سوشل کنٹریکٹ فلسفہ کی روایت کا فلسفی جان راول (John Rawls) – باقی سب پر الزام ہیں کہ ان کی فکر میں تضادات موجود ہیں جنہیں کچھ تو خود وہ فلسفی بھی جانتے تھے جبکہ اکثریت کا یہ سمجھنا تھا کہ ان کی فکر واضح اور مکمل ہے مگر بعد میں ناقدین نے ان میں تضادات نکالے وہ بھی زیادہ تر اس وقت جب وہ بے چارے اس جہاں سے کوچ کر گئے تھے اور ان اعتراضات و سوالات کے جوابات دینے سے قاصر تھے۔

اقبال کو سمجھنے میں ایک بڑی غلطی کا سبب اسے مغربی اسلوب مطالعہ سے سمجھنے کی کوشش ہے۔ جیسے یہ سوالات جو بعض اوقات تمسخرانہ اعتراضات کی صورت میں اقبال پر اٹھائے جاتے ہیں کہ وہ فلسفی تھا کہ نہیں، وہ سیاسی مدبر تھا کہ نہیں، وہ شاعر تھا کہ نہیں اور یہ کہ آیا وہ صوفی تھا یا متکلم۔ وہ شاعر تھا کہ نہیں اس کا مجھے نہیں معلوم کیونکہ یہ میرے مطالعہ کا میدان نہیں۔ سیاسی مدبر وہ یقینا تھا مگر مغربی اسلوب فکر کے تناظر میں ہر گز نہیں تھا کیونکہ راقم نے جتنا اقبال کو اور مغربی سیاسی فکر کو پڑھا ہے کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ اس پر مغربی سیاسی فکر کا کوئی زیادہ اثر ہے، بلکہ گستاخی معاف مجھے لگتا ہے کہ اس نے اس میدان میں کوئی زیادہ محنت بھی نہیں کی تھی۔ اس نے مارکس کو موضوع بحث بنایا ہے، کہیں کہیں روسو کو بھی اور چند دوسرے اصحاب کا بھی سرسری سا ذکر کیا ہے مگر اس سلسلے میں وہ کوئی زیادہ اہم کلام نہیں کرتا۔ اسی طرح مغربی فلسفہ میں بھی اس کا رجحان مابعدالطبیعات (Metaphysics) کی طرف ہی رہا کیونکہ یہ اس کا اصل موضوع تھا۔

اگر مغربی اسلوب مطالعہ اور مغربی فکر کو اساس بنا کر دیکھیں تو وہ ایک بڑا مفکر نہیں لگتا مگر جب اس کی فکر کو مشرق خاص طور پر ہندوستان و اسلام کے تناظر میں دیکھیں تو وہ ایک دیوقامت مفکر جیسے کردار میں نظر آتا ہے۔ اسی طرح اگر اس کی فکر کو اس کے اپنے عہد کے تناظر میں دیکھیں تو ہم اسلامک نیشنلزم (اسلامی قومیت) کے اس کے آئیڈیا کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جو اس عہد کے ترقی پسندوں اور روشن خیالوں یعنی علی گڑھ والوں کا محبوب تصور تھا۔ اس کی فکر میں جو روایت پسندی ہمیں آج نظر آتی ہے وہ اس عہد کے متوسط طبقہ میں ایک عام سی بات تھی۔ اقبال کا اجتہاد اور مابعد الطبیعات سے متعلق کام کمال ہے مگر بدقسمتی سے وہ کام دور جدید کی علمی روایات سے جسے ہم علم کے میدان کی مین سٹریم کہتے ہیں سے ہٹ کر ہے۔ یوں فلسفہ علم میں وہ کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکا۔

علمی روایات یا مین سٹریم سے ہم آہنگی اور فکر میں تسلسل بڑی فائدے کی چیزیں ہیں۔ ذرا سوچئے اگر ہابس کی فکر کو لاک میسر نہ آتا اور پھر روسو، راول اور رابرٹ نوزک وغیرہ اس کی فکر کو آگے نہ بڑھاتے تو کیا نتیجہ نکلتا ؟ علمی مکالمہ میں جب کوئی نیا آئیڈیا پھینکا جاتا ہے تو اس کی تنقید و تطہیر اور پھر تعمیر میں وقت لگتا ہے جو مسلسل ہوتی جاتی ہے۔ بعض آئیڈیاز اپنی ابتدا میں احمقانہ لگتے ہیں مگر وہ جب مکالمہ کی بھٹی سے گزرتے ہیں تو آہستہ آہستہ کلئیر ہوتے جاتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں ارتقا جاری رہتا ہے۔ میں اس سلسلے میں دوبارہ سے ہابس کی بات کروں گا جو جدید سیاسی فلسفہ کا ابن خلدون کے بعد بانی ہے، اس کی فکر پڑھنے میں کتنی احمقانہ لگتی ہے مگر جان لاک نے اس کی فکر میں کتنی صفائی ستھرائی سے مدد لی اور اسے آگے بڑھایا۔ فلسفی ہیوم کا نظریہ علم کیا خوب ہے جس کی رو سے ہر نیا آئیڈیا سینڈوچ کی طرح ہے جسے وجود میں لانے کے لئے پہلے بریڈ، آملیٹ اور کیچ اپ وغیرہ کا وجود میں آنا لازم ہے۔ اقبال کو یہ نقصان ہوا ہے کہ مسلم دنیا میں اس کی فکر کو آگے بڑھنے والا ایسا کوئی نہ تھا کہ جو اسے بریڈ، انڈے یا کم ازکم چٹنی کی طرح ہی کام میں لے آتا۔ یہ عہد کا جبر ہے جس کا اسے سامنا ہوا۔ اس نے زبان (فارسی) بھی ایسی منتخب کی جس کا علم سے رابطہ آج ختم ہو چکا ہے اور فکر کا میدان بھی وہی جسے اب وارثان میسر نہیں – اور پھر قوم و ملت بھی ایسی میسر آئی، ثقافتی طور پر خستہ حال، معاشی طور پر مفلوک الحال اور ذہنی طور پر جامد۔

اقبال کا بڑا نقصان ریاست نے اسے قومی ملکیت میں لے کر بھی کیا ہے۔ ریاستیں عموما جس چیز، شخص یا ادارے کو اپنی ملکیت میں لے لیتی ہیں ان سے براہ راست حب الوطنی مشروط کر لیتی ہیں، اور پھر ان پر تنقید غداری یا جرم ٹھہرتا ہے۔ پاکستانی ریاست کا چونکہ اپنا نیشنلزم مذہبی ہے اس لئے اقبال کو مذہبی شخصیت کا بھی ایسا درجہ مل گیا ہے کہ بغیر اس کا نام لئے ملا کی بات بھی نہیں بنتی۔ مولوی خادم رضوی جب اقبال کا نام لیتا ہے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے دور حاضر کا سب سے بڑا سرمایہ دار بل گیٹس ارتکاز دولت کے سب سے بڑے دشمن کارل مارکس کا نام تحسین و تعریف سے لے۔ اب اقبال کے بغیر چونکہ حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ ملنا مشکل ہیں اس لئے اقبال کو بے اقبال کرنے سے بھلا کوئی کیوں احتراز کرے ؟ اگر اقبال نیشنلائز نہ ہوتا تو اس پر تعمیری تنقید آسان ہوتی جس کا سب سے بڑا فائدہ خود اقبال کی فکر کو ہونا تھا –

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan