ملا کھڑے بازار میں، جنتا روتی جائے


لایعنیت سےبھرپور معاشرے کا حال ملاحظہ ہو۔ ایک حساس طبع کی ڈائری سے ایک ورق پیش ہے:

آئے دن اس ملک میں بونگے بخیل ایسی ایسی درفنطنیاں چھوڑتے رہتے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کیا کریں اورکیا نہ کریں۔ یونیورسٹی جانے لگیں تو رضوی صاحب آجاتےہیں۔ کبھی ٹھنڈی سڑک کی سیرکو نکلیں تو طاہر وارد ہو رہتے ہیں۔ کالے کوٹوں والےعوام کے سر رنگ رہے ہوتے تو کہیں اسلام کے ٹھیکیدار رکشوں پہ جھنڈا بردار لشکر کشی کرتے پائے جاتےہیں(ویسے عافیت ہے کہ ابھی موم بتی والے ٹویٹر پہ دو حسیناؤں کے لتے لے رہے ہیں)۔ ہسپتال جاتےہیں تو معلوم پڑتا کہ گویا شہر سارا ہی بیمار ہے، کہنے کو ایک روپے کی پرچی تو ہے مگر اطبا تو سڑک پر خود بے حال پڑے ہیں۔ باہر نکلتے ہی جیب میں ہاتھ جاتا ہے تو موبائل نجانےکب کا جاچکا ہوتا ہے۔ تھانے پہنچتےہیں۔ ڈاکیے ادھر؟ ارے نہیں تھانہ کلچر بدل گیا ہے۔ واہ بھئی۔ ترقی پل کے علاوہ بھی ہوئی ہے۔ کپڑے بدلو پالیسی تو خیر ہماری عادت سی ہے۔ یعنی کچھ نا کرسکو تو نام بدل لو، ظواہر بدلو، یہی تو دکھتا ہے اور جو دکھتا ہےوہ، ، ، ،

مجھے ترقی کی تعریف بھلا دی گئی ہے۔ چوک کی طرف آئے۔ سڑک بند ہے۔ مومنین دوسروں کے راستے روک کر پاکستان میں پیدا ہوجانے پر سزا دیتے ہیں۔ آگے کیا ہے؟ نظر ہی کچھ نہیں آرہا یار۔ کھک، کھک، کھک۔ کھانسنے لگے؟ ارے بھئی یہ ترقی پوڈر ہے، جب سردی کی بگل بجاتی دھند سے ملتا ہے تو بیماری مفت میں آتی ہے۔ چلو وقتی ہے، خدا خیر کرےگا۔ ارے یہ کیا؟ آگے سڑک پھربندہے۔

جیسے تیسے گھر کو آتے ہیں۔ آج آدھا دن بجلی بند رہی ہےپانی نہیں آیا۔ کھانے کو دیر ہے۔ سردیوں کی آمد ہے سو رن تو نہیں کانپ رہا البتہ تنور ہانپ رہےہیں(گیس کا بل ہی آئے گا اب اگلے چار ماہ)، ٹی وی چلاتے ہیں۔ وہی آموختے، وہی مفاہمتیں، وہی چہرے، نئے نعرے، پرانے دھندے، وہی موضوع، مگر ہرخبرنئی، وہی لاشیں، وہی بیان، وہی کمیٹیاں، وہی جرگے، وہی رسمیں، وہی غیرتیں، وہی ڈاکو، وہی بیماریاں۔

فیسبک پہ آتے ہیں۔ ہم سب کھولے ہیں، ادبی و تنقیدی بحثیں چھڑی ہیں۔ تنوع ہےاور خوب ہے۔ محترم وجاہت مسعود اتنے میں پوسٹ فرماتے ہیں۔ گویا آج کا فوڈ فار تھاٹ مل گیا۔ کچھ پڑھا، کچھ کڑھے۔ پھر ہمت کر کے آگے بڑھے۔ آرکایؤز میں منہ مارا، بسورا، کبھی کچھ مل گیا، کبھی نہ ملا۔

مگر مزاح کہاں ہے؟

سب کچھ مل گیا۔ پروفیسرعاصم بخشی سے مل لیے، محمد حنیف اور محتر م عدنان کاکڑ صاحب سے بھی آدھ ادھوری ملاقات ہوئی، مگر مزاح کہاں ہے؟

پھر سوچا یار تجھے مزاح کی پڑی ہے۔ عوام بھوکے مر رہے ہیں، اپنے ہی ملک میں مفلوج پڑے ہیں، شاہی خاندان کو پسو پڑے ہیں، عوام کو ملا پڑے ہیں۔ سکولوں کالجوں میں آج تالے پڑے ہیں۔ دفاتر ویران ہیں، سڑکیں بند ہیں۔ تجھے مزاح کی پڑی ہے۔

اس قوم کے ہاتھ آج تک آیا ہی کیا ہے؟ قسمت ماڑی، کسی کے ہاتھ کھوٹے سکے تو کوئی خود کھوٹا۔ لوٹوں کا گھوٹالہ۔ خوار رکھا انہیں عیاروں نے، غیروں میں کہاں دم تھا۔ اور اس گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے والی باتیں ذہن میں آتی ہیں۔ شناخت کا ہمارا مسئلہ، نظام کا ہمارا مسئلہ، مورخ بدنام، شعلچی و لیڈر متنازع، اپولوجسٹوں والی ہماری سکنات۔ ہائے ری ہماری قسمت!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).