اپنے وطن سے محبت آپ سے دشمنی نہیں ہے


\"hasan\"کنہیا کمار کون ہیں؟ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں کیا ہو رہا ہے اور شالینی گپتا نے کون سی چٹھی، ہندوستان سے پاکستان بھیجی ہے…. بظاہر یہ سب شہباز تاثیر کی رہائی، معلوم افراد کی نا معلوم پارٹی، شاہد آفریدی کی ہندوستان سے محبت اور یار لوگوں کی بھارت ٹیم کو سپورٹ کرنے والی ڈسپلے پکچر کے پیچھے چھپ گیا ہے، مگر اچھی بات یہ ہے کہ یہ سب ہو رہا ہے۔

یوں تو چند قوم پرست دانشوروں کا یہ بیان بھی تھوڑی بہت صداقت رکھتا ہے کہ تکلیف صرف، پنجاب اور سندھ کے کچھ لوگوں کو ہے ورنہ قلعہ عبداللہ اور پانڈی چری والوں کا آپس میں کیا رشتہ، سکھر کا سادھ بیلا، بھائی بند سندھیوں کو جوڑتا ہو تو ہو، وزیرستان اور گوا والوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں، لیکن کیا کریں، نہ چاہتے ہوئے بھی یہاں وہاں کی مزاج آشنائیاں، بہت دور تک جاتی ہیں۔

ابھی وہاں اخلاق احمد کے قتل کا جواز ڈھونڈھنا مشکل تھا کہ یہاں ممتاز قادری کے جنازے نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ اِدھر خدا خدا کر کے اسلامی جمیعت طلبہ کا آسیب ٹلا تھا کہ ادھر اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (انگریزی ترجمہ ”آل انڈیا سٹوڈننٹس یونین“) کی زور زبردستی کے افسانے، ہر یونیورسٹی میں عام ہونے لگے۔ ادھر جوش ملیح آبادی کا سحر نہیں ٹوٹتا اور اِدھر، مقتدر حلقے، ”میں نہیں مانتا“، کی پکار اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ ادھر، راحت اندوری نے نعرہ لگا دیا ہے کہ ”کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے“ اور یہاں اب وہ لوگ ”ہم دیکھیں گے‘‘ کا آوازہ اٹھا رہے ہیں جن کے بارے، فیض نے یہ مصرعہ لکھا تھا، الغرض، یہاں عجوہ کھجور اور اسلامی شہد کی مانگ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور وہاں گائے کے ذبیحہ کا الزام لگا کر انسان کاٹے جارہے ہیں۔۔۔ سو کوئی تو بھید ہے، جو سمجھ میں آنے سے انکاری ہے۔

\"jnu\"اس سارے معاملے میں ایک بات مگر طے ہے، کنہیا کمار، صرف جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا طالب علم، آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن کا رہنما اور سٹوڈنٹس یونین کا صدر نہیں ہے۔۔۔بلکہ وطن پرستی کے مقدس صحیفے کی وہ تفسیر ہے جو ہمیں (پاکستان اور ہندوستان کے لوگوں کو ) آنے والے دنوں میں راستہ دکھائے گی۔

اگر ایڈمرل رام داس (ہندوستانی بحریہ کے سابق سربراہ) کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنے معاشرے کو مسلح کر رہے ہیں اور پر تشدد وطن پرستی کی طرف جا رہے ہیں تو اپنے در و دیوار پہ موجود کیڈٹ کالجز کے اشتہارات کی طرف بھی دیکھ لیجئے، پروفیسر نیودیتا میمن کی تقریر سن کر کشمیر کے مطالبے کو درست ماننے کی بجائے، ان استادوں کو ذہن میں لائیں، جو آج بھی لال قلعے پہ جھنڈا لہرانے کے واہمے سے باہر نہیں آ رہے۔ جب سنٹر فار سٹڈی آف لا اینڈ جسٹس کی پروفیسر امیتا سنگھ، بھارتی مقتدرہ (اسٹیبلشمنتٹ) کی زبان بولتے ہوئے کہیں کہ یہ سب ڈرامے بازی ہے، اور یہ غریب گھر کا لڑکا، جینز اور ٹی شرٹ پہننے والے لڑکے لڑکیوں کو دیکھ کر اوقات بھول بیٹھا ہے، تو اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں ایسے کردار ضرور تلاش کیجئے جو سچ کا راستہ مسدود کر رہے ہیں، یاد رہے ۔۔تھرڈ ائیر کے سٹوڈنٹ، دھن پال سنگھ کو مارنے والے، بالکل ویسے ہی اپنی مملکت کے خدائی فوجدار تھے جیسے پنجاب یونیورسٹی کے وہ کارکن، جنہوں نے 1984ء میں مصدق سانول کو اس قدر مارا تھا کہ اس کی ایک آنکھ سے بینائی جاتی رہی۔

جلد یا بدیر ہمیں، یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ اپنے وطن سے محبت کا مطلب، کسی دوسرے وطن سے دشمنی ہر گز نہیں۔

بات شخصی یا فکری رجحان کی نہیں، سماجی رویے کی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ  نئی دہلی کی اس پرانی یونیورسٹی میں اس خطے کا مستقبل لکھا جا رہا ہے، اور جیسے، ہم سے پچھلی پیڑھی نے ٹخنوں سے اونچی شلواروں اور جیبوں میں قلم کی جگہ مسواک لگانے والوں سے ایک انقلاب کی امید باندھی تھی، عین ممکن ہے کہ ہماری نسل کو جینز اور ٹی شرٹ پہننے والے یہ آزاد منش، برگ تازہ، آوارہ خیال لوگ کوئی اچھی خبر سنا دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments