ستیش گجرال کی مصوری اور تقسیم کے زخم


 

ستیش گجرال کا شمار جدید ہندوستانی فنون لطیفہ کے نمائندہ ترین فنکاروں میں کیا جاتا ہے۔ مصوری ہو یا مجسمہ سازی، دیواری تصویر (Mural) کی وسعتوں کو پوری شرح سے بیان کرنا مقصود ہو یا چھوٹے کینوس پر چند لکیروں اور زاویوں کی مدد سے قطرے میں دجلہ دکھانا یا پھر عمارت سازی میں چوب و سنگ کے امتزاج سے خیال کی صورت گری کرنا ہو، ستیش گجرال فنی ہنر اور تخلیقی بصیرت کے امتزاج سے انسانی تجربے اور کائناتی حسن کے نت نئے زاوئیے بے نقاب کرتے ہیں۔ ان کا ذہن فکری گہرائی اور تخلیقی وفُور کا کرشمہ ہے۔ مسلسل ریاضت نے ان کے ہاتھوں کو قدیم اور جدید فنون کے لطیف کنایوں سے ایسا آشنا کیا ہے کہ وہ معنی کو ٹھوس شکل دینے میں کامیاب رہتے ہیں۔

ستیش گجرال 1925ء میں جہلم کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد پنجاب کے اس دور افتادہ قصبے میں کانگریس کے نمایاں رہنما تھے۔ آٹھ برس کی عمر میں دریا کی موجوں سے اٹھکیلیاں کرتے ہوئے ایک ایسا حادثہ پیش آیا کہ ستیش گجرال کی حس سماعت مکمل طور پر ختم ہو گئی۔ یہ جسمانی معذوری ایسی خوفناک تھی کہ کسی انسان کی صلاحیتوں بلکہ معمولاتِ زندگی تک کو بڑی حد تک مفلوج کر کے رکھ دیتی۔ لیکن ستیش گجرال میں حس سماعت ختم ہوئی، حسِ تخلیق ختم نہیں ہوئی۔ انہیں کم عمری ہی میں رنگ اور لکیر سے ایسا شغف پیدا ہوا کہ انہوں نے بصری لطافت کو اپنی ذات کے اظہار کے لیے چُن لیا۔ لاہور کے میو سکول آف آرٹس میں پانچ برس تک تعلیم حاصل کی۔ جہاں وہ مٹی سے کھیلنے کے علاوہ گرافک ڈیزائن سیکھتے تھے۔ اُن کا خصوصی شعبہ مٹی سے مجسمہ سازی تھا لیکن کیا حرج ہے اگر کہا جائے کہ وہ مٹی سے کھیلتے تھے۔ آخر فنکار رنگوں، روشنیوں، لفظوں اور آوازوں کے ساتھ چٹکلہ بازی ہی تو کرتا ہے۔ فرد کے لیے اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ زندگی کو قابل برداشت کیسے بنایا جائے؟ جیتے رہنے میں جو بھوگ ہے اُسے کیسے جھیلا جائے؟ فنا میں جو ملال ہے وہ کیسے برداشت کیا جائے؟ زندگی میں حسن اور طرب کے جو ان گنت امکانات ہیں، زندگی کے مختصر سے وقفہ گل میں اُن کا رس کیسے نچوڑا جائے۔ ستیش گجرال کا فن بھی زندگی کے نشاط و الم کو قابل برداشت بناتا ہے۔

1944ءمیں انہیں ہندوستان بھرمیں سے فنون لطیفہ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے وظیفے کا حقدار قرار دیا گیا۔ اس اعزاز کی مدد سے وہ بمبئی کے جے جے سکول آف آرٹس میں تعلیم حاصل کرنے پہنچے اور یہاں مصوری اور سنگ تراشی میں مہارت حاصل کی۔ سماعت کے زیر و بم سے محروم یہ نوجوان فن کار 23 برس کا تھا جب اپنے اہل خانہ کے ساتھ اسے زبردستی وطن بدری کا آشوب دیکھنا پڑا۔ جہلم سے دہلی تک کے سفر میں ستیش گجرال نے آگ اور خون کا جو دریا دیکھا وہ ان کے دل و دماغ پر مرتسم ہوگیا۔ انسانی درندگی اور حماقت کے اس بے ہنگم طوفان نے نوجوان ستیش کی تخلیقی بصیرت کو مہمیزکیا۔ ستیش کے لیے نئے وطن میں پاﺅں جمانا خاصا مشکل تھا لیکن وہ چھوٹے چھوٹے قصبوں میں فن تعمیر یا مصوری کے حوالے سے مختلف منصوبوں پر کام کرتے رہے۔

اُن دنوں میں برصغیر کے مصور اگر مصوری یا فنون لطیفہ میں اعلیٰ تعلیم کا ارادہ کرتے تھے تو اُن کا انتخاب یورپ کا کوئی ملک ہوتا تھا۔ لیکن ستیش گجرال نے میکسیکو حکومت کی طرف سے وظیفہ قبول کر کے گویا مصوری کا نیا براعظم دریافت کیا۔ میکسیکو میں انہوں نے لاطینی امریکہ کے بہترین فنکاروں کی صحبت میں دیواری مصوری کے رموز و نکات پر عبور حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہیں پر 1953ءمیں اُن کی مصوری کی پہلی نمائش منعقد ہوئی۔ لاطینی امریکا کی اساطیری مصورہ فریدا کاہلو کے حلقے مین تو ستیش جگرال کو گھریلو فرد کی حیثیت حاصک تھی۔ بھارت واپس آئے تو اُن کے بڑے بھائی آئی کے گجرال ہندوستانی سیاست میں ایک اُبھرتے ہوئے سیاستدان کی حیثیت سے شناخت حاصل کر رہے تھے۔ اُن کے توسط سے ستیش کو حکمران خاندان تک رسائی ملی۔ انہوں نے نہرو کا پورٹریٹ بنایا۔ اندرا سے ذاتی دوستی ہوئی۔ ہندوستان کے مجاہدین آزادی کی بنائی ہوئی اُن کی تصاویر ہندوستانی پارلیمنٹ میں آویزاں کی گئیں۔

اب ستیش بیک وقت مصوری، مجسمہ سازی اور دیواری مصوری میں تجربات کررہے تھے۔ اُن کے ہمعصر مصوروں کی توانائی جلد از جلد مقبولیت کے حصول میں صرف ہو رہی تھی۔ ادھر ستیش ایک طرف تو درونِ ذات کے اظہار کی کوشش کر رہے تھے دوسری طرف سیاسی طور پر اپنے اشتراکی نظریات سے بھی دور ہٹ رہے تھے۔ اگر فنکار مقبول عام رجحانات کی پیروی نہیں کرتا تو اس کے فن کی تحسین و تفہیم میں دیر لگتی ہے۔ ستیش نے یہ مہنگا سودا قبول کیا۔ آہستہ آہستہ اُن کے فن کی نزاکت ماہرین فن اور عوام تک رسائی پانے لگی۔ اُنہیں ہندوستان اور دنیا بھر میں بے شمار اعزازات سے نوازا گیا۔ آج ہندوستانی فنون لطیفہ کی دنیا میں اُن کا شمار ایک زندہ داستان کی طرح کیا جاتا ہے۔ دہلی میں بیلجیم کے سفارت خانے کی عمارت کا جو نمونہ ستیش گجرال نے تیار کیا اُسے جدید فنِ تعمیر میں ایک شاہکار کا درجہ دیا جاتا ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ کہ ستاون برس تک آواز سننے سے محروم اس جرات مند فنکار کا 1990 ءمیں جدید طبی تیکنیک کی مدد سے کامیاب آپریشن کیا گیا اور ان کی دنیا میں سرگوشی اور للکار کے مدوجزر لوٹ آئے۔

پچاس کی دہائی کے اوائل میں میکسیکو روانگی سے قبل انھوں نے تقسیم ہند اور اس کے نتیجے میں بپا ہونے والے انسانی دُکھ اور الم کو ایک سیریزکی شکل دی تھی۔ نیچے فوٹو گیلری میں اسی سیریز میں سے کچھ تصاویر پیش کی جا رہی ہیں۔ فنکار نے انسانی دُکھ کو ہندو یا مسلم کی آنکھ سے نہیں دیکھا اُس نے تو آنسو، لہو، شعلے اور اذیت کو پنسل کی چند لکیروں میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ جو معاشرے دوسرے ممالک کے فنکار کی عظمت پہچاننے میں ناکام رہتے ہیں وہ اپنے فنکار کی ٹھیک ٹھیک قدرافزائی بھی نہیں کر سکتے کیونکہ فن کی مبادیات تو ایک ہی ہے۔ جنوبی ایشیا میں فنون لطیفہ کی جدید روایت ستیش گجرال کی انسان دوستی اور تخلیقی ہنر سے عبارت ہے۔ اسی روشنی میں آگے بڑھیں گے تو ہم مصوری میں ننگ ڈھونڈنے کی بجائے کولن ڈیوڈ کا رنگ پہچان سکیں گے۔ امرتا شیر گل، شاکر علی، آنا مولکا احمد، ناگوری، اقبال حسین، خالد اقبال اور ظہور الاخلاق کے مُو قلم تک رسائی پا سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).