نظر ثانی کی اپیل کا فیصلہ: پریشان کن قانونی پہلو  


امریکی سپریم کورٹ کے جج اولیور ونڈل ہومز نے 1904ء میں لکھا۔۔۔ ’’ مشکل کیسز کی طرح بڑے کیسز بھی خراب قانون سازی کرتے ہیں۔ بڑے کیسز اپنی اہمیت کی وجہ سے بڑے نہیں ہوتے بلکہ ان سے وابستہ انتہائی دلچسپی کا پہلو جذبات کو ابھارتا اور فیصلے پر اثر انداز ہوتا ہے‘‘ پاناما نظر ثانی کیس کا فیصلہ اسی نکتے کی تصدیق کرتا ہے۔

وسیع تر پس منظر میں دیکھیں تو پاناما کیس میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے نواز شریف نہیں ہیں۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) میں سیاسی وراثت کی جنگ ناگزیر تھی۔ پاناما نے بس اس کی آنچ تیز کردی ہے، ورنہ اس کے اسباب پہلے سے ہی موجود تھے۔ نواز شریف کی عوامی زندگی 36 برس پر محیط ہے۔ اب جبکہ وہ زندگی کی 68 بہاریں دیکھ چکے، اُن کے پاس ایسے کوئی عظیم تصورات نہیں ہیں جو پاکستان کا مقدر بدل سکیں۔ وہ جو کچھ ا ب تک نہیں کرسکے ، عمرکے ڈھلتے سائے کی ملجگی روشنی میں اب اس کی تکمیل ناممکن ہے۔ چنانچہ ہماری سیاست کو تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح تازہ تصورات کی ضرورت ہے۔

سپریم کورٹ غیر جانبداری برقرار رکھتے ہوئے قانون کی تشریح کرنے والا سب سے بڑاادارہ ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ پاناما کیس میں سب سے مہلک گھائو اس کی ساکھ کو لگا ہے۔ خواہش تھی کہ موجودہ سپریم کورٹ، جس میں عشروں کا جوڈیشل تجربہ رکھنے والے کچھ ذہین ترین دماغ موجود ہیں، قانون سازی کی عمدہ ترین مثال قائم کرے گی۔ خیال تھا کہ مشرف کے پی سی ا و کے بعد اب داخلی کشمکش اور شخصی تنائو سے بلند ہوکر منصفی کے اعلیٰ ترین فرائض سرانجام دے گی۔ یہ خواہش ہنوز ایک خواب ہے۔

نظر ثانی کی اپیل کا فیصلہ کئی وجوہ کی بنیاد پر پریشان کن ہے۔ یہ پاناما فیصلے کے بنیادی مسائل اور نااہل قرار دئیے جانے کی عقلی دلیل کے فقدان کی جانچ سے اغماض برتتا ہے، مدعاعلیہان کے مختلف کیسز کو اس طرح باہم مدغم کر دیتا ہے گویا یہ ایک ہی ہوں، عدالتی نظیر کو نظر انداز کرتا ہے، نواز شریف کو وسائل سے بڑھ کر اثاثے جمع کرنے کی پاداش میں بددیانتی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ’’اثاثے‘‘ کی حیران کن تشریح کرتا ہے، یہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ احتساب عدالت اپنی حدودو قیود کو نظر انداز کرنے کے لئے آزاد ہے، نیز اس کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ دراصل نجات دہندہ ہے۔

جے آئی ٹی کے سویلین ممبران کا چنا ئو کرنے کے لئے واٹس اپ کال، یا جے آئی ٹی میں ایم آئی اور آئی ایس آئی کے نمائندوں کی شمولیت کے معاملے کو ایک طرف رہنے دیں۔ نظر ِثانی کا فیصلہ ’’تین رکنی اور پانچ رکنی بنچ کے معمے‘‘ کی بھی وضاحت نہیں کرتا۔ اس بات کی کوئی وضاحت موجود نہیں کہ ایک بنچ جس کے کم از کم دو ممبران نے پہلے رائونڈ میں نااہلی کا فیصلہ لکھا تھا لیکن پھر وہ بنچ تحلیل ہوگیا، اور وہ جج جے آئی ٹی کی رپورٹ پر بننے والے بنچ کا حصہ نہیں تھے اور نہ ہی اُنھوں نے فریقین کی بحث کی سماعت کی لیکن وہ حتمی فیصلے پر دستخط کرنے کے لئے کیوں کر واپس آ گئے۔ یہ کیوں ضروری تھا جبکہ نیا سہ رکنی بنچ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں نواز شریف کو نااہل قرار دے چکا تھ ؟ اگر بنچ کی تشکیل پاناما کیس کے ابتدائی فیصلے، اور سپریم کورٹ اور سی پی سی کے مطابق ہونی تھی، تو پھر سپریم کورٹ نظر ِثانی کی اس اپیل میں اس کی وضاحت کیوں نہ کرسکی، یا اس نے قانون کی تشریح کرتے ہوئے اس تنازع کو ہمیشہ کے لئے دفن کیوں نہ کردیا ؟

نااہلی کا جواز قرار دینے والا سپریم کورٹ کا استدلال (جو کہ ناوصول کردہ تنخواہ کو اثاثہ ماننا، اور اسے ظاہر نہ کرنے کی پاداش میں بددیانت قرار دینا ہے )عقل کو مائوف کردیتا ہے۔ عدالت کہتی ہے۔۔۔’’جولائی 2006 ء سے لے کر جنوری 2013 ء تک ایسا کوئی زبانی یا تحریری مواد موجود نہیں جو تنخواہ کو اثاثہ بننے کی راہ میں حارج ہو۔ ‘‘اس کے بعد یہ کہتی ہے۔۔۔’’ تسلیم کہ یہ جنوری 2013 کے بعد سے درخواست گزار کا اثاثہ نہ رہا ہولیکن یہ تیس جون 2012ء تک اس کا اثاثہ تھا اور یہ تاریخ عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 12(2)(f) کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ ‘‘

نہ وصول کی گئی تنخواہ کو جواز بنا کر عوامی عہدے سے محروم کردیا گیا لیکن پھر جنوری 2013 ء میں یہ اثاثہ ہوا میں تحلیل ہوگیا۔ گویا سپریم کورٹ نے انتہائی ٹیکنیکل بنیادوں پر ایک تنخواہ، جو اُنھوں نے وصول نہیں کی لیکن وصول کرسکتے تھے، کو اثاثہ قرار دے کر ایک منتخب شدہ وزیر ِاعظم کو بددیانت قرار دے کر گھر بھیج دیا۔ ایک ناوصول کیے جانے والی رقم کو اثاثہ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے نتیجہ نکالا کہ اسے ظاہر نہ کرنا بھول چوک کا نتیجہ نہیں بلکہ صریحاً بددیانتی تھی، چنانچہ اس پر آرٹیکل 62(1)(f) کا اطلاق ہوتا ہے۔

یہ تھا وہ ’’گھنائونا جرم ‘‘ جس کی وجہ سے سپریم کورٹ نے یہ نتیجہ نکالا۔۔۔ ’’عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ایک عوامی عہدیدار سے کہیں زیادہ دیانت داری کی توقع کی جاتی ہے، لیکن ہمیں یہ دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی ہے کہ درخواست گزار نے سماعت کے دوران اپنے مالی امور کی بابت پوچھے گئے سوالات کا واضح جواب نہیں دیا۔ اُنھوں نے کبھی بھی مکمل سچ نہیں بولا۔ اُنھوں نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی۔ اُنھوں نے حتیٰ کہ عدالت کو بھی بے وقوف بنانے کی کوشش کی، اور یہ احساس نہ کیا کہ ’آپ کچھ وقت کے لئے تمام لوگوں کو بے وقوف بنا سکتے ہیں لیکن تمام لوگوں کو ہر وقت بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ ‘جب کسی رہنما سے غلطی ہوجائے تو اس پر پردہ ڈالنے اور اس الجھائو پیدا کرنے کی بجائے استعفیٰ دے کر عہدے سے ہٹ جانا زیادہ باعزت طریقہ ہے۔ چونکہ ملک کے وزیر اعظم کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ قومی اور انٹر نیشنل سطح پر قوم کے اخلاق کی نمائندگی کرتے ہیں، چنانچہ ایسا اثاثہ رکھنے سے انکار کرنا جن سے وہ استفادہ کرتے رہیں، اس منصب کے وقار کے منافی ہے۔ ‘‘

یہ ایک سیاسی سخن طرازی یا اخلاقی لیکچر ہوسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس فیصلے سے کیا قانون سازی ہوئی؟ اگر نواز شریف کو دھوکہ دہی پر نااہل قرار دیا گیا تو اس کی حدود قانون کے پیرائے میں واضح ہونی چاہیے تھیں لیکن ایسا نہ ہوا۔ ایک جعلی معاہدے پر ان کی سرزنش کی گئی حالانکہ وہ اس کا دفاع نہیں کر رہے تھے۔ یہ اُن کا نہیں، اُن کے بچوں کا کیس تھا۔ کیا عدالت اُن کی گوشمالی اس لئے کر رہی ہے کہ اُنھو ں نے تنخواہ ظاہر نہیں کی یا لندن فلیٹس کی ملکیت تسلیم نہیں کی، جس پر جج صاحبان کو شک ہے کہ یہ فلیٹس اُن کی ملکیت ہیں (ان کا تعین ہونا باقی ہے)؟

سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں پہلے تو تنخواہ کی تعریف واضح کرتے ہوئے کہا ہمارے انکم ٹیکس آرڈیننس میں تنخواہ کی تعریف عوامی نمائندگی کے ایکٹ کے لئے غیر اہم ہے۔ اس کی بجائے یہاں ڈکشنری کی تعریف لاگو کی گئی کہ قابل ِوصول تنخواہ اثاثہ ہے، چاہے وصول نہ بھی کی گئی ہو۔ لیکن عدالت یہ بھی کہتی ہےکہ نواز شریف کو ’’اکائونٹنگ کے اس سادہ سے اصول‘‘ سے واقفیت ہونی چاہئے تھی۔ کیا عدالت یہ کہنا چاہتی ہے کہ سیاست میں طویل عرصہ گزارنے کے بعد اُنہیں اثاثوں کی غیر معمولی تشریح کا پتہ چل جانا چاہیے تھا؟ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اس نے نیب یا احتساب عدالت کی اتھارٹی کو اپنے کنٹرول میں نہیں لیا اور وہ ’’ قانون کے مطابق اپنا کام کرنے کے لئے آزاد ہیں۔‘‘اس کے باوجود نظر ِثانی کا فیصلہ شروع ہی نیب کو دی جانے والی ہدایت سے ہوتا ہے کہ وہ کیا کچھ کرے۔ کیا سپریم کورٹ یہ کہہ رہی ہے کہ ایک ماتحت عدالت سپریم کورٹ کے احکامات کو نظر انداز کرنےکی مجاز ہے ؟

تاثر ہے کہ نظر ِثانی کی اپیل پر فیصلہ نوازشریف کی جی ٹی روڈ پر نعرہ بازی کا طاقتور جواب ہے۔ اس کا طریق کار پوچھے گئے سوالوں کا جواب دینے کی بجائے مزید سوالات اٹھا دیتا ہے۔ کیا میڈیا عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہوتا ہے؟ کیا سپریم کورٹ قانون کی عدالت ہے یا اخلاق کی؟ کیا یہ خود کو قوم کا نجات دہندہ سمجھتے ہوئے اسے سیاست دانوں کی تباہ کاریوں سے بچانا چاہتی ہے؟ کیا نوازشریف کو نااہل قرار دیتے ہوئے عدالت نے اپنی ساکھ کو دائو پر نہیں لگا لیا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بابر ستار

بشکریہ روز نامہ جنگ

babar-sattar has 43 posts and counting.See all posts by babar-sattar