غلام فاطمہ سے رامش فاطمہ تک۔۔۔ تمہیں مگر خبر نہیں ہے


\"ramish-fatima\"پہلی خبر یہ ہے کہ پاکستان میں جبری مشقت اور اینٹوں کے بھٹے پہ کام کرنے والے مزدوروں کے حقوق کیلیے سرگرم تنظیم بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ کی سربراہ سیدہ غلام فاطمہ کا نام ارورہ ایوارڈ کی حتمی چار نامزدگیوں میں شامل ہے۔ خاتون پچھلے سال نیویارک میں گلوبل سٹیزن ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔ سیدہ غلام فاطمہ کو بیشتر اہلِ وطن نے حضرت برینڈن اسٹینٹن المعروف ہیومنز آف نیویارک کے توسط سے جانا ہے جنہوں نے پچھلے سال پاکستان کے دورے کے بعد سیدہ غلام فاطمہ اور انکے کام سے جڑی سات تصاویر شائع کیں اور محترمہ کو دنیا بھر سے پذیرائی ملی۔ سیدہ غلام فاطمہ کی نامزدگی کی خبر سن کر ہمیں بےاختیار مفتی مضاربی اور مولانا آثارِ قیامت سے بےپناہ ہمدردی محسوس ہوئی کہ مغرب تو عورتوں کی پذیرائی کرنے سے باز نہیں آنے والا۔ پھر کسی نے زخم بیچے، پھر کسی نے پاکستان کا غلط نقشہ پیش کیا اور ایوارڈ کے لئے نامزد ہو گئی۔ آخر یہ عورتیں باز کیوں نہیں آ جاتیں؟ کوئی شرم، کوئی حیا جو ان کا زیور ہونی چاہیئے، اسے اتار کر بھرے بازار میں تماشا کیوں لگا رکھا ہے؟ ان عورتوں کو چاہیے ایک بات صاف صاف سمجھ لیں ہم اگر زلزلہ زدگان کے نام پہ پیسے جمع کریں تو اس کی گنجائش موجود ہے، اگر ہم \”عسکری\” تربیت کی خاطر عطیات کا استعمال کریں تو جائز ہے، ہم اگر آئی ڈی پیز کے نام پہ مال اکٹھا کریں تو ٹھیک ہے، اگر ہم ٹی وی اسکرین پہ زخموں سے بہتی پیپ دکھا کر ریٹنگ بڑھائیں تو بات بنتی ہے، ہم اگر کالموں میں فلاں فلاں تنظیم کا چرچا کریں تو وہ بہترین ہے لیکن کیا ہے نا۔۔۔ تم کرو تو سالا کیریکٹر ڈھیلا ہے۔

دوسری خبر یہ ہے کہ ہماری دینی جماعتیں آخرکار تفرقے سے باہر نکل آئی ہیں، یہ تحفظِ حقوقِ نسواں بل کی منظوری تھی جس نے ہمارے پیاروں کو اکٹھا ہونے پہ مجبور کر دیا جس پہ فہمیدہ ریاض کا تبصرہ بہترین ہے کہ اس بل سے اختلاف پہ اتحاد ہے۔ کہتی ہیں کہ

\"fatima1\"مگر آہ اس میں نئی بات کیا ہے،

وہ عورت ہے ہم جنس سب عورتوں کی

سدا جس پہ چابک برستے رہے ہیں

جو ہر دور مِں سربریدہ مسانوں میں لائی گئی ہے

کبھی بھینٹ بن کر پتی کی چتا پر چڑھائی گئی ہے

کبھی ساحرہ کا لقب دے کے زندہ جلائی گئی ہے

قبیلوں کی نسلیں بڑھانے کا آلہ ہے

ان کی حمیئت کی بس اک علامت

جو چاہو تو تم اس علامت کو روندو

اسے مسخ کردو اسے دفن کر دو

وہ عورت کا سر

آہ وہ لاپتہ سر

ہے اک گیند چوگان کی

تیز رفتار گھوڑوں پہ ماہر کھلاڑی ہیں

اور خامشی ہے

2012 کی عورت فاؤنڈیشن رپورٹ کے مطابق 7515 ایسے کیسز سامنے آَ ئے،ان میں ایک ہزار سات سو پینتالیس عورتوں کو قتل کر دیا گیا۔ ۔ ایک ہزار عورتوں کو گھر میں ایسے مارا پیٹا گیا کہ رپورٹ درج ہو سکی پانچ سو پچھتر عورتوں نے خود کشی کر لی، چار سو بتیس کارو کاری میں ماری گئیں۔ تراسی عورتوں کے منہ پر تیزاب پھینکا گیا۔ اور اکہتر کو جلا دیا گیا۔ ۔ یہ ابھی وہ کیسز ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں۔ وہ جو تاریک راہوں میں ماری گئیں، جنہوں نے کبھی کہیں آواز بلند نہیں کی بس چپ چاپ سب سہہ لیا ان کا کہیں کیا شمار ہے۔ بات یہ ہے عزت مآب کہ آپ خود ہی مدعی اور خود ہی منصف ہیں۔ سرکار آپ ہمارا چہرہ تیزاب سے مسخ کر دیں تو ہم کیا اچھا یا برا نقشہ دکھائیں؟ میری ہم جولی زندگی جینے کی خواہش مند تھی اور آپ نے اس سے زندہ رہنے کا حق ہی چھین لیا تو کیا اس کا نوحہ کہنا بھی جرم ٹھہرا؟ کہیں کسی کو روشنی کی خواہش تھی تو اسے جلا دیا، کسی کے لیے حالات ایسے بنا دیئے کہ وہ خودکشی کرنے پہ مجبور ہو جائے۔ آخر ہمیشہ آپ کی روایات کی اہمیت ایک انسانی جان کی حرمت سے زیادہ کیوں ہوتی ہے؟

ان دو خبروں کا تعلق بس اتنا ہی ہے کہ ایک کہانی ہے اس عورت کی کہ اس نے جو کچھ سہا ہے وہ دوسروں کو اس سے بچانے کی کوششوں میں لگی ہے… اور ایک حقیقت ہے کہ جو تھپڑ مار رہا ہے، مطالبہ کر رہا ہے کہ اس کا احسان مانا جائے کہ وہ بس چپ چاپ رونے کی اجازت دیتا ہے، کہیں فریاد کرنے کا حق البتہ نہیں دیتا۔ خبر تو دراصل اس میں ایک ہی ہے اور یہ کہ ہمیں اس کی خبر نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments