ہندوستان کی مسلم سیاسی قیادت ناکام کیوں؟



برادرم محمد علم اللہ کے مضمون مولانا ابوالکلام آزاد کی چشم پوشیاں پر تبصرہ فرماتے ہوئے بھائی عثمان قاضی لکھتے ہیں کہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ جیسی تنظیمیں بھی تقریباً سیاسی جماعتیں ہی ہیں، ان کی موجودگی سے بھارت میں من الحیث الجماعت مسلمانوں کے خلاف چیرہ دستیوں پر کیا مثبت اثر پڑا؟ میرے خیال میں قاضی صاحب کا یہ سوال غور و فکر کا متقاضی ہے۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلین کے بارے میں تو یہ بات واضح ہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت ہے جو باقاعدہ انتخابی سیاست میں حصہ لیتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ پارلیمان میں نمائندگی کے حوالے سے یہ جماعت اپنے قیام کے اتنے عرصے بعد بھی دکن کے حیدرآباد شہر میں پرانے شہر تک ہی محدود ہے۔ ہاں، مسلم پرسنل لا بورڈ کے بارے میں اس بات کا صحیح صحیح تعین دشوار ہے کہ یہ کس نوعیت کی تنظیم ہے؟ چونکہ یہ جماعت انتخابی سیاست میں شریک نہیں ہوتی اور نہ ہی ظاہر بظاہر انتخابات میں کسی جماعت کی حمایت کا اعلان کرتی ہے اس لئے اس جماعت کو سیاسی جماعت سمجھنا مشکل ہے۔ خود بورڈ کا کہنا ہے کہ وہ بھارتی مسلمانوں کی ایسی نمائندہ تنظیم ہے جس کی تاسیس کا مقصد بھارت میں مسلمانوں کے قوانین کا تحفظ ہے۔ یہ جماعت مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کس بنیاد پر کرتی ہے یہ ابھی واضح نہیں ہے۔ نہ تو اس جماعت کے ارکان اور نہ ہی عہدے داروں کا انتخاب مسلمانوں کے ووٹوں سے ہوتا ہے اور نہ ہی یہ جماعت کوئی فیصلہ لیتے وقت مسلمانوں سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کرتی ہے۔ آسان لفظوں میں یوں سمجھ لیجیے کہ اس جماعت نے بعض علماء کو پوری بھارتی مسلم برادری کا قائد مان لیا ہے اور اب ان علماء کے موقف کو ہی مسلمانوں کا موقف مان لیا جاتا ہے۔

پرسنل لا بورڈ کا تنظیمی ڈھانچہ کم دلچسپ نہیں ہے۔ تنظیم میں شیعہ، اہلحدیث اور بریلوی مکتب فکر کی بھی نمائندگی ہے لیکن اثر و رسوخ دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے احناف کا ہی ہے۔ دوسرے مسلک کے نمائندوں کی حیثیت نمائشی زیادہ ہے۔ مثلاً بورڈ میں صدر کے عہدے پر آج تک کوئی اہلحدیث، شیعہ یا بریلوی عالم مقرر نہیں ہوا۔ حال ہی میں تین طلاق کا معاملہ زیر بحث آیا تو مسلم پرسنل لا بورڈ نے کھل کر فقہ حنفی کی نمائندہ جماعت کے طور پر کام کیا۔ حالانکہ اہلحدیث اور شیعہ فقہ کے مطابق ایک بار میں تین طلاق دینا جائز نہیں ہے لیکن بورڈ نے واضح موقف اختیار کیا کہ اسلام میں ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ انہیں باتوں سے رنجیدہ ہوکر بہت سے لوگ اسے ندوی بورڈ بھی کہہ دیتے ہیں، کیونکہ اس کی منصب صدارت پر طویل ترین عرصہ تک ندوۃ العلماء لکھنؤ کے رئیس مولانا علی میاں ندوی اور ان کے بھانجے مولانا رابع حسنی ندوی نے کام کیا ہے۔ موخر الذکر ابھی بھی بورڈ کے سربراہ ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بورڈ پر مخصوص مسلک کے غلبہ کی دہائی دے کر شیعہ پرسنل لا بورڈ، خواتین کا پرسنل لا بورڈ اور خانقاہی مسلک کا پرسنل لا بورڈ بن چکے ہیں۔

پرسنل لا بورڈ کی مذکورہ رام کہانی سنانے کا مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ یہ جماعت مسلکی تفریق سے بالاتر ہوکر بھارتی مسلمانوں کی اکثریت کی نمائندگی کی صلاحیت رکھتی تھی لیکن وہ مقصد حاصل نہیں ہو سکا۔ پرسنل لا بورڈ میں نمائندگی دینے کے معاملہ میں جمہوری طریقہ کار اختیارکیے جانے کی ضرورت تھی، اس سے یہ تنظیم تمام مسالک میں قبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی تھی۔ تنظیم کی دوسری کمی یہ رہی کہ اس نے اپنی صلاحیتیں غلط محاذوں پر صرف کیں۔ یہ تنظیم سماجی اور سیاسی معاملات میں پریشر گروپ کے طور پر سامنے آئی ہی نہیں۔ اس میں شامل علماء میں سے بہت سوں کے سیاسی کمٹمنٹ بھی رہے جس کی وجہہ سے مجموعی طور پر تنظیم کی غیر جانبداری متاثر ہوئی۔ سیاسی جوڑ توڑ کے چکر میں معتبریت گنوا دینے والوں میں یہ تنظیم اکیلی نہیں ہے، جمعیت علمائے ہند کا معاملہ لیجیے تو اس کی قیادت علی الاعلان کانگریس کی حمایتی رہی ہے۔ جمعیت کے جلسوں میں کانگریس کی قیادت آتی جاتی رہی۔

اس سیاسی وابستگی نے کانگریس حکومت کے احتساب کے امکانات معدوم کر دیے۔ یہی وہ غلطی ہے جس کا شکار مولانا آزاد بھی ہونے سے نہیں بچ سکے۔ مولانا نے جو کچھ بھی فرمایا اس میں لاکھ خلوص نیت سہی لیکن بار بار دماغ ان کی باتوں کو کانگریس سے ان کی وابستگی کے ساتھ جوڑ کر دیکھتا ہے۔ مثلا، قانون ساز اسمبلی میں مسلمانوں کو ریزرویشن دیے جانے کی مخالفت کا ہی معاملہ لیجیے۔ مولانا کی نیک نیتی اپنی جگہ لیکن یہاں بات ایک نو مولود آزاد ملک کی تھی جس میں حکومت ہر ایک پسماندہ طبقہ کو خصوصی سہولت دے کر مقابلہ کی دوڑ میں برابر کرنا چاہتی تھی ایسے میں مسلمانوں کو یہ مواقع کیوں نہیں ملنے چاہئیں تھے؟ یہ انصاف کی بات معلوم نہیں ہوتی کہ مسلمانوں کو تو ذاتی جد و جہد پر تکیہ کرنے کا مشورہ دیا جائے اور دوسروں کو ریزرویشن جیسے خصوصی مواقع ملیں۔

سیاسی جماعتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی ہے لیکن اس نمائندگی سے مسلمانوں کو کتنا فائدہ ملا اس پر غور کیا جانا چاہیے۔ ایک صاحب نے اس معاملہ میں اچھا تبصرہ کیا تھا کہ یہ لیڈر، مسلمان کے سیاسی لیڈر نہیں ہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے مسلمان لیڈر ہیں۔

عثمان قاضی صاحب کا اشارہ جس مثبت اثر کی ضرورت کی جانب ہے، میرے خیال میں اس اثر کو پیدا کرنے کے لئے کسی تنظیم میں سیاسی بصیرت اور واضح لائحہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جمعیت علمائے ہند اور مسلم پرسنل لا بورڈ دونوں کے ہی یہاں دونوں ہی چیزوں کا فقدان رہا۔ ان تنظیموں سے سب سے زیادہ فائدہ مسلمانوں نے نہیں بلکہ مسلمان مخالف عناصر نے اٹھایا، انہوں نے غیر ضروری مسائل پر شور کھڑا کیا جس میں یہ تنظیمیں بھی آستینیں چڑھا کر میدان میں کود پڑیں، کبھی حلالہ، کبھی طلاق اور کبھی فتویٰ جیسے معاملات پر ہی ساری توانائیاں صرف کی گئیں اور جن امور میں واقعی بھارتی مسلمانوں کو قیادت درکار تھی ان جگہوں پر ملت بے سرداری نظر آئی۔

مسلم پرسنل لا بورڈ کے وجود سے مسلمانوں کی شبیہ کو نقصان بھی پہنچا۔ کئی معاملات میں بورڈ کے بزرگ علماء کا رجعت پسندانہ رویہ پوری قوم کی قدامت پسندی کے رنگ میں رنگ گیا۔ مثال کے طور پر ایک بار میں تین طلاق کی حمایت میں بورڈ نے زمین آسمان ایک کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ پورا معاملہ مسلمانوں اور مسلم خواتین کے درمیان لڑائی کا لگنے لگا جبکہ حقیقت یہ تھی کہ مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی جن میں نوجوان اکثریت میں تھے، اس کا واضح موقف تھا کہ ایک بار میں تین طلاق جیسی غیر قرآنی بدعت کا دفاع نہ کیا جائے۔

چیرہ دستیوں سے مسلمانوں کے تحفظ کی راہ یہ نہیں ہے کہ مسلمان اپنی سیاسی جماعت تشکیل دے دیں، کیرل، آسام اور تلنگانہ میں مسلمان جماعتیں کس بری طرح محدود ہوئی ہیں وہ ہم سب نے دیکھا ہے۔ ان ریاستوں کے مسلمان اپنی جماعت کے ہوتے ہوئے ان جماعتوں کے ساتھ جاتے ہیں جن کی قیادت مسلمان نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چاند تارے کا نشان بنا کر اور نعرہ تکبیر لگا دینے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ سیاسی نمائندگی کرنے کے لئے کچھ اور باتیں درکار ہوتی ہیں۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی مثال لیجیے، غیر سیاسی افراد کی یہ جماعت اپنی پیدائش کے دو برس کے اندر دہلی میں اقتدار میں آ گئی۔ ایک پڑھے لکھے نے کہا تھا کہ سب سے اچھا اسپتال بنانے کا طریقہ یہ نہیں کہ کمرے میں بیٹھ کر یہ طے کیا جائے کہ سب سے اچھا اسپتال کیسے بنے بلکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ دنیا کے اچھے اسپتالوں میں کیا خامیاں ہیں، ان خامیوں کو درست کرکے آپ ایک اسپتال بنا دیجئے وہی سب سے اچھا اسپتال ہوگا۔ مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کی دعویدار جماعتوں کو اس اصول کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔


اسی بارے میں

مولانا ابوالکلام آزاد کی چشم پوشیاں

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter