علامہ اقبال اور عطیہ فیضی کی ملاقات کیسے ہوئی؟


اقبال کی پیدائش سیالکوٹ میں ہوئی اور اس کے دس سال بعد ہزاروں میل دور استنبول میں ایک لڑکی عطیہ پیدا ہوئی۔ جس طرح اقبال کے والد اپنے شہر میں تجارت کرتے تھے، اسی طرح عطیہ کے والد حسن علی فیضی ترکی میں تجارت کرتے تھے۔ کچھ سال بعد فیضی خاندان تجارت کے بہتر مواقع کی تلاش میں ترکی سے ہندوستان منتقل ہو گیا۔ یہ انیسویں صدی کی شروعات کا زمانہ تھا۔ اقبال کی یورپ آمد کے ایک سال بعد 1906ء میں عطیہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے اسکالرشپ پر لندن پہنچ گئیں، جہاں ان دونوں عالی دماغوں کی پہلی ملاقات ہوئی۔ اس بات کا انکشاف بھارتی مصنف اور صحافی ظفر انجم کی کتاب ’اقبال۔ ۔ ایک شاعر، فلسفی اور سیاستدان کی زندگی‘ میں کیا گیا ہے۔

جس دن ان کی ملاقات ہوئی وہ اپریل فول کا دن تھا یعنی ان کی ملاقات یکم اپریل 1907ء کو ہوئی۔ اس سے قبل اقبال لندن میں ڈیڑھ سال گزارچکے تھے اور عطیہ کو لندن آئے ہوئے ایک سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ یہ ملاقات مس بیک کے گھر میں ہونے والی پارٹی میں ہوئی تھی۔ مس بیک پروفیسر تھیوڈور بیک کے بہن تھی۔ یہ وہی پروفیسر ہیں جو کبھی ایم اے او کالج علی گڑھ کے پرنسپل تھے۔ انہیں یہ عہدہ چوبیس سال کی عمر میں مل گیا تھا۔

عطیہ اور اقبال کی ملاقات حادثاتی نہیں تھی بلکہ مس بیک نے اس کا خصوصی اہتمام کیا تھا۔ انہوں نے عطیہ کو دعوت نامے کے ساتھ لکھا تھا کہ یکم اپریل کی پارٹی میں تمہیں محمد اقبال نامی ایک انتہائی ذہین آدمی سے ملوانا ہے، جو کیمبرج سے خصوصی طور پر تم سے ملنے آ رہا ہے۔ جب عطیہ مس بیک کے ہاں پہنچیں تو پارٹی جاری تھی، اسی دوران اقبال بھی آ گئے۔ گھنی مونچھوں والاطویل قامت پنجابی نوجوان پارٹی سوٹ میں اس شام انتہائی وجیہہ لگ رہا تھا۔ اس کی گہری آنکھیں اس کے کیفیات اور موڈ کو چھپانے پر قادر تھیں،جو اس کی خوداعتمادی اور ناقابل ِ تسخیر ہونے کا پتہ دیتی تھیں۔

مس بیک نے اقبال کا عطیہ سے تعارف کروایا اور پھر دونوں کھانے کی میز پر ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے۔ اگرچہ پارٹی کا ماحول غیرشاعرانہ اور بے تاثیر تھا، لیکن عطیہ کو اقبال سے باتیں کر کے خاصی فرحت محسوس ہوئی۔ گفتگو کے دوران عطیہ کو اندازہ ہوا کہ اقبال کی ذہانت اور حسِ مزاح کمال کی ہے۔ اقبال باتیں کر رہے تھے اور عطیہ انہیں ایک مضمون کی طرح پڑھ رہی تھیں۔ اقبال بیک وقت فارسی، عربی اور سنسکرت کے اسکالر کے طور پر انہیں متاثر کیے جا رہے تھے۔

عطیہ نےآخر ہمت کر کے اقبال سے پوچھ لیا کہ ’وہ کیوں ان سے ملنا چاہتے تھے‘۔ اقبال کا جواب تھا کہ ’آپ چونکہ اپنی ’ٹریول ڈائری‘ کی وجہ سے ہندوستان اور برطانیہ میں خاصی مقبول ہیں۔ اس لیے میں آپ سے ملنا چاہتا تھا‘۔ عطیہ اپنی تعریف سن کر اچنبھے میں آگئیں اور ایک اسکالر کے منہ سے اپنی تعریف سن کر خوش بھی ہوئیں۔ تاہم وہ اس مخمصے میں تھیں کہ کہیں اقبال ان کا مذاق تو نہیں اڑا رہے؟ میں نہیں سمجھتی کہ آپ صرف یہ جملہ کہنے کے لیے کیمبرج سے چل کر یہاں آئے ہیں۔ ملاقات کا اصل مقصد بتایئے۔ عطیہ نے اقبال کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔

اقبال نے اپنی شاعرانہ اہلیت کو بروئے کار لاتے ہوئے عطیہ کو سچ بتادیا۔ ’میں آپ کو سید علی بلگرامی اور ان کی اہلیہ کی طرف سے کیمبرج آنے کی دعوت دینے آیا ہوں، اگر آپ انکار کردیں گی تو یہ میری ناکامی ہوگی،جسے میں نے کبھی قبول نہیں کیا اور اگرآپ رضامندی ظاہر کردیں گی تو یہ میزبانوں کے لیےباعث مسرت ہو گی۔ عطیہ نے محسوس کیا کہ اقبال ایک الگ مزاج کے شاعر ہیں اور گفتگو حافظ شیرازی کی طرف چل نکلی۔ عطیہ نے حافظ کے اشعار سنائے تو اقبال نے کہا جب میں حافظ کو پڑھتا ہوں تو اس کی شاعری میری روح میں کچھ اس طرح اترنے لگتی ہےکہ میں خود حافظ بن جاتا ہوں۔

اقبال نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ انہیں ایک اور فارسی شاعر بابا فغانی بھی بہت پسند ہیں۔ ہندوستان میں انہیں بہت کم لوگ جانتے ہیں لیکن آپ انہیں ضرور پڑھو۔ انہیں پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ سچائی کے کتنے مختلف پہلو اور بھی ہیں۔ رات بہت بھیگ چکی تھی۔ دونوں گفتگو میں اتنے محو تھے کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ عطیہ کو گھر واپس جانا تو لیکن جانے سے پہلے انہوں نے کیمبرج آنے کی دعوت قبول کر لی اور وہاں آنے کی تاریخ 22 اپریل مقرر ہوئی۔

کچھ دن ہی گزرے تھے کہ اقبال کی طرف سے عطیہ کو رات کے کھانے کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ اقبال نے انہیں ایک فیشن ایبل ریسٹورنٹ میں بلایا تھا، جہاں وہ ان کی ملاقات کچھ جرمن اسکالر کےساتھ کرانا چاہتے تھے، جن کے ساتھ وہ کام کر رہےتھے،عطیہ کو یہ جگہ بہت پسند آئی۔ اقبال نے انہیں بتایا کہ ان کے اندر دوشخصیات رہتی ہیں۔ ایک باہر کی شخصیت ہے جو بہت زیادہ باعمل اور کاروباری ہے، لیکن اندرون ذات جو شخصیت ہے وہ خواب دیکھنے والی ، فلسفی اور صوفیانہ ہے۔

کھانے کے بعد اب عطیہ کی باری تھی۔ انہوں نے 15 اپریل کو اقبال کے اعزاز میں ایک مختصر چائے پارٹی کا اہتمام کیا۔ اقبال نے اس موقع پر اپنی شاعری سنانا شروع کی تو محفل میں سماں بندھ گیا۔ عطیہ ایک ایک مصرعے سے اتنی متاثر ہوئیں کہ لکھتی چلی گئیں۔ اقبال نے کہا کہ یہاں جو کچھ میں نے سنایا ہے وہ صرف اسی محفل کے لیے ہے۔ چائے پارٹی کے ایک ہفتہ بعد عطیہ حسب وعدہ کیمبرج پہنچ گئیں۔ اقبال اور ان کے دوست شیخ عبدالقادر بھی عطیہ کے ہمراہ تھے۔ اقبال نے سید علی بلگرامی سے عطیہ کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ اگر زندگی میں میرے نام کوئی ناکامی لکھی جاتی تو وہ فیضی کی وجہ سے ہوتی، لیکن انہوں نےآپ کی دعوت قبول کرکے مجھے اس شرمندگی سے بچا لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).