1971ء کے دن اور شہسوار راتیں …


حمودالرحمن کمیشن کے سامنے بریگیڈ میجر منور خان نے بیان دیا کہ 1971 میں گیارہ اور بارہ دسمبر کی درمیانی شب، جس رات دشمن کی فوج ہمارے فوجیوں پر آگ کے گولے برسا رہی تھی، اسی رات کو کمانڈر بریگیڈیئر حیات اللہ اپنے بنکر میں عیاشی کے لئے چند لڑکیوں کو لے کر آیا تھا۔ کمیشن کو بریگیڈیئر عباس بیگ نے بتایا کہ بریگیڈیئر جہانزیب ارباب (بعد میں لیفٹیننٹ جنرل) نے ایک پی سی ایس افسر (جو ملتان میونسپل کمیٹی کا چیئرمین تھا) سے رشوت کے طور پر ایک لاکھ روپے کا مطالبہ کیا تھا۔ افسر نے خودکشی کر لی تھی اور اپنے پیچھے ایک پرچی پر لکھا چھوڑ گیا کہ بریگیڈٰیر جہانزیب ارباب نے اس سے ایک لاکھ کا مطالبہ کیا حالانکہ اس نے صرف پندرہ ہزار روپے کمائے تھے۔ یہی جہانزیب ارباب تھا جس نے بعد ازاں بطورکمانڈر سابق مشرقی پاکستان میں بریگیڈ 57 سراج گنج میں نیشنل بینک کے خزانے سے ساڑھے تیرہ کروڑ روپے لوٹے تھے۔

کمیشن کی تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ میجر جنرل خداداد خان ایڈجوٹنٹ جنرل پاکستان آرمی کے نہ صرف مشہورِ زمانہ جنرل اقلیم اختر رانی کےساتھ ناجائز تعلقات تھے بلکہ اس نے مارشل لاء کے دوران کئی مقدمات دبانے میں جنرل رانی کی معاونت بھی کی۔ مار شل لا کے دوران ہی کئی کاروباری سودوں میں وسیع پیمانے پر رقم کی خرد برد کے الزامات بھی میجر جنرل خداداد خان پر ہیں۔

جنرل اے اے کے نیازی کے لاہور کی سعیدہ بخاری کے ساتھ مراسم تھے جس نے سینوریٹا ہوم کے نام سے گلبرگ میں ایک گھر کو کوٹھا بنایا ہوا تھا۔ یہی سعیدہ بخاری اس وقت لاہور میں جنرل آفیسر کمانڈنگ اور بعد میں کورکمانڈر “ٹائیگر نیازی” کی ٹاؤٹ تھی اور غیرقانونی کاموں اور رشوت ستانی میں اس کی مدد کرتی تھی۔ سیالکوٹ کی بدنامِ زمانہ شمیم فردوس بھی نیازی کے لئے اسی خدمت پر مامور تھی۔ فیلڈ انٹلی جنس کی 604 یونٹ سے میجر سجادالحق نے کمیشن کو بتایا کہ ڈھاکہ کےایک گھر میں میں جرنیلوں کی عیاشی کے لئے بارہا ناچنے گانے والیاں لائی جاتی تھیں۔ ٹائیگر نیازی اپنی تین ستاروں سے آراستہ اور کور کے جھنڈے سے مزین سٹاف کار پر بھی ناچنے والیوں کے در کے طواف کرتا تھا۔

لیفٹیننٹ کرنل عزیز احمد خان نے کمیشن کو بتایا کہ فوجیوں کا کہنا تھا کہ جب کمانڈر خود جنسی جرائم کا مرتکب ہو تو وہ فوجیوں کو جبری زنا سے کیسے روک سکتا ہے۔ انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے خواتین سے زیادتی جیسے گھناؤنے جرم کا دفاع کرتے ہوئی نیازی نے کہا تھا کہ ”آپ کسی جوان سے یہ توقع کیسے رکھتے ہیں کہ وہ جئے، لڑے اور مرے مشرقی پاکستان میں اور جنسی بھوک مٹانے کے لئے جہلم جائے”۔

یحییٰ خان شراب اور عورتوں کا رسیا تھا۔ اس کے جن عورتوں سے تعلقات تھےان میں آئی جی پولیس کی بیگم، بیگم شمیم این حسین، بیگم جوناگڑھ، میڈم نور جہاں، اقلیم اختر رانی، کراچی کے تاجر منصور ہیرجی کی بیوی، ایک جونیئر پولیس افسر کی بیوی نازلی بیگم، میجر جنرل (ر) لطیف خان کی سابقہ بیوی، کراچی کی ایک رکھیل زینب اور اسی کی ہم نام سر خضر حیات ٹوانہ کی سابقہ بیگم، انورہ بیگم، ڈھاکہ سے ایک انڈسٹری کی مالکن للّی خان اور لیلیٰ مزمل اور اداکاراؤں میں سے شبنم، شگفتہ، نغمہ، ترانہ اور بے شمار دوسروں کے نام شامل تھے۔ ان کے علاوہ لا تعداد آرمی کے افسر اور جرنیل اپنی بیگمات اور دیگر رشتہ دار خواتین کے ہمراہ ایوانِ صدر سدھارتے اور واپسی پر خواتین ان کے ہمراہ نہیں ہوتی تھیں۔

اس رپورٹ میں 500 سے زائد خواتین کے نام شامل ہیں جنہوں نے اس ملک کے سب سے ملعون حاکم کے ساتھ تنہائی میں وقت گزارا اور بدلے میں سرکاری خزانے سے بیش بہا پیسہ اور دیگر مراعات حاصل کیں۔ جنرل نسیم، حمید، لطیف، خداداد، شاہد، یعقوب، ریاض، پیرزادہ، میاں سمیت کئی دوسروں کی بیویاں باقاعدگی سے یحییٰ خان سے ملاقات کرنے آتی تھیں۔

یہاں تک کہ جب ڈھاکہ میں حالات ابتر تھے۔ یحییٰ خان لاہور کا دورہ کرنے آتے اور گورنر ہاوس میں قیام کرتے تھے۔ جہاں ان کے قیام کے دوران دن میں کم از کم تین بار ملکہ ترنم و حسن وعشق نور جہاں مختلف قسم کے لباس، بناو سنگھار اور ہیر سٹائل کے ساتھ ان سے ملاقات کرنے تشریف لے جاتی تھیں۔ اور رات کو نور جہاں کی حاضری یقینی ہوتی تھی۔ جنرل رانی نے سابق آئی جی جیل خانہ جات حافظ قاسم کو بتایا کہ اس نے خود جنرل یحییٰ اور ملکہ ترنم نور جہاں کو بستر پر ننگے بیٹھے اور پھر جنرل کو نور جہاں کے جسم پر شراب بہاتے اور چاٹتے دیکھا تھا۔ اور یہ عین اس وقت کی بات ہے جب مشرقی پاکستان جل رہا تھا۔

بیگم شمیم این حسین رات گئے جنرل یحییٰ کو ملنے آتیں اور صبح واپس جاتیں۔ ان کے شوہر کو سوئٹزر لینڈ میں پاکستان کے سفیر کے طور پر بھیجا گیا جبکہ بعد ازاں بیگم شمیم کو آسٹریا کے لئے سفیر مقرر کردیا گیا تھا۔ دونوں میاں بیوی کو سفارت کاری کا کوئی تجربہ تھا نہ ہی امورِ خارجہ کے شعبے سے ان کا کوئی تعلق تھا۔

بیگم شمیم کے والد، جسٹس (ر) امین احمد کو ڈائریکٹر نیشنل شپنگ کارپوریشن مقرر کیا گیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر ستر برس تھی۔ اسی زمانے میں نور جہاں ایک موسیقی کے میلے میں شرکت کرنےکے لئے ٹوکیو گئی تھیں تو ان کے ہمراہ ان کے خاندان کے بہت سے افراد سرکاری خرچ پر جاپان گئے تھے۔

یحییٰ خان کی ایک رکھیل نازلی بیگم کو جب پی آئی سی آئی سی (بینک) کے ایم ڈی نے قرضہ نہیں دیا تو اس کو عہدے سے زبردستی بر خاست کر دیا گیا تھا۔ سٹینڈرڈ بینک کے فنڈز سے راولپنڈی کی ہارلے سٹریٹ پر یحییٰ خان نے ایک گھر بنایا جس کی تزئین وآرئش بھی بینک کے پیسے سے کی گئی۔ یحییٰ اور ان کے چیف آف اسٹاف جنرل عبدالحمید خان اس گھر کے احاطے میں فوج کی حفاظت میں طوائفوں کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔

 ایک غیر معمولی انٹرویو میں جنرل رانی نے انکشاف کیا کہ ایک رات آغا جانی مجھ سے ملنے کے لئے آئے تھے اور کسی حد تک بے چین تھے ۔ آتے ہی مجھ سے پوچھا تمھیں فلم دھی رانی کا گانا ‘چیچی دا چھلا‘ آتا ہے۔ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا میرے پاس گانے سننے کا وقت کہاں ہوتا ہے۔ اسی وقت انھوں نے ملٹری سیکرٹری کو فون کیا اور نغمے کی کاپی لانے کا حکم صادر کر دیا۔ رات کے دو بجے کا وقت تھا۔ بازار بند تھے۔ ملٹری سیکرٹری کو ایک گھنٹے کے اندراندر ایک آڈٰیو البم کی دکان کھلوا کر گانے کی کاپی حاضر کرنا پڑی۔ جس کے بعد آغا جانی خوشی خوشی نغمہ سن رہے تھے۔ اور اس کی اطلاع نور جہاں کو کر دی گئی۔

یحییٰ خان کے دور حکومت میں اداکارہ ترانہ کے بارے میں ایک لطیفہ زبان زدِ عام تھا کہ ایک شام ایک عورت صدارتی محل میں پہنچی اور یہ کہہ کر اندر داخل ہونے کا مطالبہ کیا کہ ‘میں اداکارہ ترانہ ہوں، سیکورٹی گارڈز نے جواب دیا.کہ تم کیا ہو، ہمیں پرواہ نہیں ہے۔ ہر کسی کو اندر جانے کے لئے پاس کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاتون مصر رہیں اور اےڈی سی سے بات کرنے کا مطالبہ کیا جس نے اداکارہ کو اندر آنے کی اجازت دے دی۔ اداکارہ جب دو گھنٹے بعد واپس لوٹی تو گارڈ نے اداکارہ کو سیلیوٹ کیا۔ اداکارہ نے روئیے کی تبدیلی کی وجہ پوچھی تو گارڈنے جواب دیا۔ پہلے آپ صرف ترانہ تھیں اب آپ قومی ترانہ بن گئی ہیں۔

جنرل آغا محمدیحییٰ خان نے اکسٹھ برس تک ایک مطمئن اور خوشحال زندگی بسر کی وہ اپنے راولپنڈی میں ہارلے سٹریٹ پر موجود اسی گھر میں قیام پذیر رہے جو کہ سٹینڈرڈ بینک کے فنڈز سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اور ان کو بطور سابق صدر اور آرمی چیف کے پنشن اور دیگر مراعات حاصل رہیں۔ انہوں نے دس اگست 1980 کو وفات پائی اور انہیں مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔

) ترجمہ: سلیقہ وڑائچ (

ماخذ: حمود الرحمن کمیشن رپورٹ (1974)

اقلیم اختر رانی کا انٹرویو، ماہنامہ نیوز لائن شمارہ مئی، 2002


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).