وجاہت مسعود سے چند سنگین اختلافات


آج شام کی نشست میں وجاہت مسعود سے سنگین اختلافات ہو گئے جو ہزار کوشش کے بعد دور نہ ہو سکے۔ اپنی پوزیشن کو ریکارڈ پر لانے کے لئے ان اختلافات کا بیان ضروری ہے۔

آج وجاہت مسعود نے نئے لکھنے والوں کو کتابوں کی فہرست فراہم کی تو ہمیں وہ پسند نہیں آئی۔ خبر نہیں کیوں وہ ایک مصنف کی اچھی کتاب کو نظرانداز کر کے اس کی کچھ ہلکی کتاب کو ترجیح دینے کے قائل ہیں۔

مثلاً یہی دیکھیں کہ وجاہت مسعود صاحب کی رائے میں شفیق الرحمان کی سب سے اچھی کتاب ”دجلہ“ ہے کیونکہ اس کی زبان نہایت اعلی ہے۔

ہم نے وجاہت صاحب کو بتایا کہ ”مزید حماقتیں“ سے بہتر کتاب شفیق الرحمان نے نہیں لکھی کیونکہ اس کے خیالات نہایت اعلی ہیں۔ ”تزک نادری“ جیسا مضمون اردو ادب میں پیروڈی کا قطبی ستارہ ہے اور ”جہاز باد سندھی کا سفرنامہ“ ایک ذی شعور شخص کے فکری سفر کو بیان کرتا ہے۔
وہ قائل نہ ہوئے۔

ہم نے کہا کہ آپ نے مختار مسعود کے ”سفر نصیب“ کو ”لوح ایام“ پر ترجیح دی ہے اور اب ”حرف شوق“ کو بھی اس سے بہتر جانتے ہیں۔

کہنے لگے کہ ”سفر نصیب“ کے دونوں خاکے کمال کے ہیں۔ اردو میں ویسے خاکے کم لکھے گئے ہیں۔ خاص طور پر پروفیسر ”ایل کے حیدر“ والا لاجواب ہے۔ اب جس شخص نے شمس العلما محمد حسین آزاد کی ”آب حیات“ پڑھ رکھی ہو وہ ان خاکوں کو کیا خاطر میں لائے گا مگر ہم صلح کل کے مسلک کے پیروکار ہیں۔ ان کو ”آب حیات“ کے بارے میں نہ بتایا کہ ان کا دل چھوٹا ہو گا۔

ہمیں اس پر شدید اختلاف تھا کہ اردو کے عظیم ادیبوں کی فہرست میں وجاہت مسعود نے ابواعلیٰ مودودی، حسن عسکری، قدرت اللہ شہاب، الطاف گوہر، سراج منیر، مشفق خواجہ، اور جمال پانی پتی جیسے مستند رجعت پسند بھی شامل کر رکھے ہیں۔ ایسی ہی گھاتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ لنڈے کے لبرل جس قدر بھی ترقی پسند ہو جائیں، ان کے اندر سے اجداد کی روایت پسندی نہیں نکلتی۔ جماعت اسلامی سے نکل آتے ہیں، جماعت اسلامی کو ساتھ لئے پھرتے ہیں۔

اب یہی دیکھیئے کہ اردو کے عظیم مصنفوں کی فہرست میں محمد حسن معراج نامی ایک گمنام نوجوان کی تصنیف “ریل کی سیٹی” کو شامل کرنا، یہ اقربا پروری نہیں تو کیا ہے۔ واضح رہے کہ محمد حسن معراج نامی اس شخص کے کچھ کالم “ہم سب “پر بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ہماری واضح رائے ہے کہ مسلمانوں کے علمی زوال کی وجہ صدیوں سے یہی اقربا پروری کی روایت رہی ہے۔ لنڈے کے لبرل محض اقربا پروری میں ابن رشد، ابن سینا اور ابن خلدون جیسے افراد کے نام علمی مباحث میں بار بار دہراتے ہیں۔ حالانکہ تاریخی طور پر ثابت ہو چکا ہے کہ یہ لوگ گمراہ سوچ کے حامل تھے۔ ان کے زمانے کے جید علما نے اسٹبیلشمنٹ کی مدد سے ان افراد کو جلاوطن کر رکھا تھا تاکہ ان کے افکار سے علم و فضل کی اسلامی روایت پر حرف نہ آئے۔

وجاہت صاحب مسلسل ایسی کتابوں کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے رہے تو تنگ آ کر ہم نے ان کو یوسفی کا ایک بار پروفیسر ہونے والا قول سنایا۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ یوسفی کی ”آب گم“ ان کے فن کی معراج ہے۔ ہم معترض ہوئے کہ ”زرگزشت“ کا معیار کم نہیں ہے۔ لیکن صاحب، وہ اپنی بات پر ڈٹے رہے۔ ہماری رائے یہ بنی ہے کہ وہ سکول ماسٹر کے خواب کے اسیر ہیں اور اپنی رئیسانہ خوبو کی وجہ سے اس متروک فٹن کو تھامے ہوئے ہیں ورنہ کہاں مٹی کو بھی سونا بنا دینے والے اینڈرسن جیسے شخص کا بیان اور کہاں ایک بوسیدہ حویلی کی داستان۔


نوجوان لکھنے والوں کو کیا پڑھنا چاہیے؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar